کراچی سبزی منڈی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں
تجاوزات، گندگی کے ڈھیر، خستہ حال سڑکیں، پانی نایاب
KARACHI:
کراچی میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ برآمدات، کاروبار اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرتے ہوئے اس مرکز کی سبزی منڈی بھی اس وقت مسائل کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔
یہاں پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے تاجروں اور آڑھتیوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ سبزی منڈی سے لاکھوں روپے ٹیکس وصول کرنے والی مارکیٹ کمیٹی کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔ قیام پاکستان کے بعد مقامی تاجروں اور آباد کاروں کی سہولت کے پیش نظر حکومت نے گلشن اقبال یونی ورسٹی روڈ عسکری پارک والی جگہ پر ایک چھوٹی سبزی منڈی قائم کی۔ جہاں دور دراز سے تاجر آکر اپنا سامان فروخت کرتے تھے۔
لیکن جوں جوں شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا، علاقے میں گندگی اور ٹریفک کے مسائل جنم لینے لگے جس کی وجہ سے 2001 میں اس وقت کی انتظامیہ نے تاجروں اور علاقے کے مکینوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سبزی منڈی کو دوسری جگہ پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لیے سپر ہائی وے پر ایک وسیع و عریض اراضی پر ایک نئی سبزی منڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں، صاف پانی کے لیے لائنیں ڈالی گئیں اور پانی ذخیرہ کرنے کا ایک ٹینک بھی بنوایا گیا۔
سبزی منڈی میں اس وقت 7500 دکانیں ہیں جب کہ بعض آڑھتیوں نے دکانوں کے اوپر رہائش گاہیں بھی تعمیر کر رکھی ہیں۔ کراچی کی نئی سبزی منڈی پاکستان کی بڑی منڈیوں میں شمار ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف کراچی بل کہ ملک کے دیگر شہروں کے بیوپاری بھی آکر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔ یہاں سے ملک کے چاروں صوبوں کو مختلف سبزیاں اور پھل وغیرہ سپلائی کیے جاتے ہیں۔
مارکیٹ کمیٹی کراچی نئی سبزی منڈی سے لاکھوں روپے ماہانہ ریونیو حاصل کرتی ہے۔ تاجروں کے مطابق مارکیٹ کمیٹی کراچی کے اہل کار سبزی منڈی کے لیے لوڈ ٹرک پر تقریباً 200 روپے اور سوزوکی سے 150 روپے فیس وصول کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج 15 سال گزرنے کے بعد بھی نئی سبزی و فروٹ منڈی زبوں حالی کا شکار ہے۔
پانی کا نظام درہم برہم ہے۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہیں جس سے اٹھنے والا تعفن دکان داروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ منڈی میں بنایا جانے والا پینے کے لیے صاف پانی کا ٹینک گزشتہ کئی برس سے قابل استعمال نہیں ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور یہ سب کچھ مارکیٹ کمیٹی کراچی کی انتظامیہ کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ مارکیٹ کمیٹی نیو سبزی منڈی سے وصول ہونے والا ٹیکس کہاں خرچ کرتی ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔
نئی فروٹ و سبزی منڈی کے آڑھتیوں اور بیوپاریوں کو کن مسائل کا سامنا ہے، اس بارے میں بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ پینے کا پانی، بیت الخلا کا مسئلہ اور اسٹریٹ لائٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مارکیٹ کمیٹی کی انتظامیہ یہاں سے لاکھوں روپے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن اس کے بدلے میں ہمیں کوئی سہولت میسر نہیں۔ منڈی کی حدود میں درپیش تمام مسائل کو حل کرنا مارکیٹ کمیٹی کی ذمے داری ہے، لیکن وہ اس جانب توجہ نہیں دیتی۔ منڈی میں کسی بھی دکان پر میٹر نہ ہونے کی وجہ سے دکان دار تاجر کنڈے کے ذریعے بجلی حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جس کے لیے وہ مارکیٹ کمیٹی کو ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں۔ منڈی میں سوئی گیس کنکشن کے نام پر بھی ہر دکان دار سے ہزاروں روپے لیے گئے مگر گیس کنکشن جاری نہیں کیے گئے۔ اس ضمن میں تاجر مزدور کھانے کی تیاری کے لیے گیس سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب منڈی کی اندرونی سڑکیں اور بیرونی لنک روڈ تباہ حالی کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے منڈی میں آنے والی گاڑیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ منڈی کا سیوریج نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ منڈی میں کلینک یا ڈسپنسری کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے اگرچہ ایک سرکاری ڈسپنسری جس کا افتتاح 2003 میں کیا گیا تھا، تاحال یہ ڈسپنسری نامعلوم وجوہ کی بنا پر بند ہے۔ منڈی میں مزدوروں اور خریداروں کے لیے بیت الخلا کا انتظام بھی ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔
اگرچہ منڈی میں دس ہزار سے زاید مزدور 24 گھنٹے کام کرتے ہیں اور روزانہ 25 ہزار افراد خریداری کے لیے آتے ہیں۔ جب کہ ہزاروں افراد بیرون شہر اور اندرون ملک سے اشیا لے کر گاڑیوں کے ہم راہ آتے ہیں ان کے آرام کے لیے کوئی ریسٹ ہاؤس یا آرام گاہ نہیں ہے۔ تاہم روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ہر لمحہ سیکیورٹی کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ منڈی کے مسائل میں تجاوزات بھی اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں خلل واقع ہو رہا ہے۔
تجاوزات کے حوالے سے تاجروں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی پیسے لے کر لوگوں کے ٹھیلے سڑک پر کھڑے کرنے کی اجازت دے دیتی ہے اور یوں ٹھیلوں کی آڑ میں اکثر تاجر اپنی دکانوں کے اندر مال اتارنے کی بجائے سڑکوں پر مال اتار کر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مارکیٹ کمیٹی لاپروائی، غفلت، بدعنوانی اور نااہلی کے ساتھ ناقص منصوبہ بندی کی بھی ذمے دار ہے، جس کا خمیازہ سبزی و فروٹ منڈی کے تاجروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک تاجر فہیم خان کا کہنا ہے کہ کراچی کی سبزی منڈی میں 14سال گزر جانے کے باوجود تجارتی ماحول پیدا نہ ہوسکا۔ تاجر منڈی کی تباہ حالی کا ذمے دار مارکیٹ کمیٹی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی مد میں کمیٹی نے تاجروں سے فی دکان 12 ہزار سے 20 ہزار تک وصول کیے لیکن پانی کی لائن منڈی کو آج تک نہ مل سکی۔
حالاں کہ منڈی کے بالکل ساتھ بسم اﷲ مارکیٹ اور پٹرول پمپ کے لیے پانی کی لائنیں موجود ہیں۔ منڈی ذرایع کا دعویٰ ہے کہ عارضی پانی کی لائنوں سے مارکیٹ کمیٹی کے اہل کاروں نے اردگرد کے گوٹھوں کو ناجائز کنکشن دیے اور منڈی میں واقع ٹینک سے پانی بیچنا شروع کردیا تاہم بل کی عدم ادائی پر واٹر بورڈ کے عملے نے پانی کا کنکشن کاٹ دیا۔ آج منڈی میں صورت حال یہ ہے کہ تاجر 1200 روپے سے2000 روپے میں پانی کا ٹینکر خریدتے ہیں جب کہ غریب مزدور 2 روپے میں ایک گلاس پانی پینے پر مجبور ہے۔
اس صورت حال سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی ایک بے لگام گھوڑے کا روپ دھار چکی ہے جب کہ مارکیٹ کمیٹی کا عملہ اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے بجائے بھتا خوری اور جبری ٹیکس وصولی میں مصروف ہے۔ جس کی متعدد بار مقامی تاجر شکایت کرچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین اور سیکریٹری کا تقرر صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے اور عملے کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ مارکیٹ کمیٹی کا آڈٹ کرایا جائے جس سے نہ صرف بدعنوانی میں ملوث افراد بے نقاب ہوں گے بل کہ اس سے بدعنوانی کا راستہ بھی بند ہوجائے گا اور مارکیٹ کمیٹی کے محصولات منڈی کے تعمیر و ترقی پر خرچ ہوں گے۔
کراچی میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ برآمدات، کاروبار اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرتے ہوئے اس مرکز کی سبزی منڈی بھی اس وقت مسائل کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔
یہاں پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے تاجروں اور آڑھتیوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ سبزی منڈی سے لاکھوں روپے ٹیکس وصول کرنے والی مارکیٹ کمیٹی کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔ قیام پاکستان کے بعد مقامی تاجروں اور آباد کاروں کی سہولت کے پیش نظر حکومت نے گلشن اقبال یونی ورسٹی روڈ عسکری پارک والی جگہ پر ایک چھوٹی سبزی منڈی قائم کی۔ جہاں دور دراز سے تاجر آکر اپنا سامان فروخت کرتے تھے۔
لیکن جوں جوں شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا، علاقے میں گندگی اور ٹریفک کے مسائل جنم لینے لگے جس کی وجہ سے 2001 میں اس وقت کی انتظامیہ نے تاجروں اور علاقے کے مکینوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سبزی منڈی کو دوسری جگہ پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لیے سپر ہائی وے پر ایک وسیع و عریض اراضی پر ایک نئی سبزی منڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں، صاف پانی کے لیے لائنیں ڈالی گئیں اور پانی ذخیرہ کرنے کا ایک ٹینک بھی بنوایا گیا۔
سبزی منڈی میں اس وقت 7500 دکانیں ہیں جب کہ بعض آڑھتیوں نے دکانوں کے اوپر رہائش گاہیں بھی تعمیر کر رکھی ہیں۔ کراچی کی نئی سبزی منڈی پاکستان کی بڑی منڈیوں میں شمار ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف کراچی بل کہ ملک کے دیگر شہروں کے بیوپاری بھی آکر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔ یہاں سے ملک کے چاروں صوبوں کو مختلف سبزیاں اور پھل وغیرہ سپلائی کیے جاتے ہیں۔
مارکیٹ کمیٹی کراچی نئی سبزی منڈی سے لاکھوں روپے ماہانہ ریونیو حاصل کرتی ہے۔ تاجروں کے مطابق مارکیٹ کمیٹی کراچی کے اہل کار سبزی منڈی کے لیے لوڈ ٹرک پر تقریباً 200 روپے اور سوزوکی سے 150 روپے فیس وصول کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج 15 سال گزرنے کے بعد بھی نئی سبزی و فروٹ منڈی زبوں حالی کا شکار ہے۔
پانی کا نظام درہم برہم ہے۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہیں جس سے اٹھنے والا تعفن دکان داروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ منڈی میں بنایا جانے والا پینے کے لیے صاف پانی کا ٹینک گزشتہ کئی برس سے قابل استعمال نہیں ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور یہ سب کچھ مارکیٹ کمیٹی کراچی کی انتظامیہ کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ مارکیٹ کمیٹی نیو سبزی منڈی سے وصول ہونے والا ٹیکس کہاں خرچ کرتی ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔
نئی فروٹ و سبزی منڈی کے آڑھتیوں اور بیوپاریوں کو کن مسائل کا سامنا ہے، اس بارے میں بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ پینے کا پانی، بیت الخلا کا مسئلہ اور اسٹریٹ لائٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مارکیٹ کمیٹی کی انتظامیہ یہاں سے لاکھوں روپے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن اس کے بدلے میں ہمیں کوئی سہولت میسر نہیں۔ منڈی کی حدود میں درپیش تمام مسائل کو حل کرنا مارکیٹ کمیٹی کی ذمے داری ہے، لیکن وہ اس جانب توجہ نہیں دیتی۔ منڈی میں کسی بھی دکان پر میٹر نہ ہونے کی وجہ سے دکان دار تاجر کنڈے کے ذریعے بجلی حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جس کے لیے وہ مارکیٹ کمیٹی کو ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں۔ منڈی میں سوئی گیس کنکشن کے نام پر بھی ہر دکان دار سے ہزاروں روپے لیے گئے مگر گیس کنکشن جاری نہیں کیے گئے۔ اس ضمن میں تاجر مزدور کھانے کی تیاری کے لیے گیس سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب منڈی کی اندرونی سڑکیں اور بیرونی لنک روڈ تباہ حالی کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے منڈی میں آنے والی گاڑیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ منڈی کا سیوریج نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ منڈی میں کلینک یا ڈسپنسری کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے اگرچہ ایک سرکاری ڈسپنسری جس کا افتتاح 2003 میں کیا گیا تھا، تاحال یہ ڈسپنسری نامعلوم وجوہ کی بنا پر بند ہے۔ منڈی میں مزدوروں اور خریداروں کے لیے بیت الخلا کا انتظام بھی ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔
اگرچہ منڈی میں دس ہزار سے زاید مزدور 24 گھنٹے کام کرتے ہیں اور روزانہ 25 ہزار افراد خریداری کے لیے آتے ہیں۔ جب کہ ہزاروں افراد بیرون شہر اور اندرون ملک سے اشیا لے کر گاڑیوں کے ہم راہ آتے ہیں ان کے آرام کے لیے کوئی ریسٹ ہاؤس یا آرام گاہ نہیں ہے۔ تاہم روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ہر لمحہ سیکیورٹی کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ منڈی کے مسائل میں تجاوزات بھی اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں خلل واقع ہو رہا ہے۔
تجاوزات کے حوالے سے تاجروں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی پیسے لے کر لوگوں کے ٹھیلے سڑک پر کھڑے کرنے کی اجازت دے دیتی ہے اور یوں ٹھیلوں کی آڑ میں اکثر تاجر اپنی دکانوں کے اندر مال اتارنے کی بجائے سڑکوں پر مال اتار کر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مارکیٹ کمیٹی لاپروائی، غفلت، بدعنوانی اور نااہلی کے ساتھ ناقص منصوبہ بندی کی بھی ذمے دار ہے، جس کا خمیازہ سبزی و فروٹ منڈی کے تاجروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک تاجر فہیم خان کا کہنا ہے کہ کراچی کی سبزی منڈی میں 14سال گزر جانے کے باوجود تجارتی ماحول پیدا نہ ہوسکا۔ تاجر منڈی کی تباہ حالی کا ذمے دار مارکیٹ کمیٹی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی مد میں کمیٹی نے تاجروں سے فی دکان 12 ہزار سے 20 ہزار تک وصول کیے لیکن پانی کی لائن منڈی کو آج تک نہ مل سکی۔
حالاں کہ منڈی کے بالکل ساتھ بسم اﷲ مارکیٹ اور پٹرول پمپ کے لیے پانی کی لائنیں موجود ہیں۔ منڈی ذرایع کا دعویٰ ہے کہ عارضی پانی کی لائنوں سے مارکیٹ کمیٹی کے اہل کاروں نے اردگرد کے گوٹھوں کو ناجائز کنکشن دیے اور منڈی میں واقع ٹینک سے پانی بیچنا شروع کردیا تاہم بل کی عدم ادائی پر واٹر بورڈ کے عملے نے پانی کا کنکشن کاٹ دیا۔ آج منڈی میں صورت حال یہ ہے کہ تاجر 1200 روپے سے2000 روپے میں پانی کا ٹینکر خریدتے ہیں جب کہ غریب مزدور 2 روپے میں ایک گلاس پانی پینے پر مجبور ہے۔
اس صورت حال سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی ایک بے لگام گھوڑے کا روپ دھار چکی ہے جب کہ مارکیٹ کمیٹی کا عملہ اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے بجائے بھتا خوری اور جبری ٹیکس وصولی میں مصروف ہے۔ جس کی متعدد بار مقامی تاجر شکایت کرچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین اور سیکریٹری کا تقرر صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے اور عملے کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ مارکیٹ کمیٹی کا آڈٹ کرایا جائے جس سے نہ صرف بدعنوانی میں ملوث افراد بے نقاب ہوں گے بل کہ اس سے بدعنوانی کا راستہ بھی بند ہوجائے گا اور مارکیٹ کمیٹی کے محصولات منڈی کے تعمیر و ترقی پر خرچ ہوں گے۔