لیاری سے لیاقت آباد تک

بحیثیت شہری ہم سیاسی شعور کے معاملے میں اتنے غلیظ ہوچکے ہیں کہ ہماری حسیات باہر کی گندگی کا احساس کرنے سے قاصر ہے۔


Noman Ahmed Ansari May 12, 2016
کراچی کے طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد لیاری اور لیاقت آباد کی مثال دینا چاہوں جہاں گندگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، شاید اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں علاقے انتظامیہ کی عدم توجہ کا شکار ہوچکے ہیں۔

میرے شہر میں گندگی عام ہوتی جا رہی ہے
میری زندگی مرضِ عام کی شکل ہوتی جارہی ہے

آپ کی نظروں سے ایسی خبریں کبھی نہ کبھی تو ضرور گزری ہونگی جس میں کوئی خاندان یا خاندان کے کچھ افراد کسی منفرد یعنی لا علاج اور پُراسرار بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ پُراسرار بیماری نہ صرف سننے میں بلکہ دیکھنے میں بھی عجیب ہوتیں ہیں۔ یہاں تک کہ آج کی جدید میڈیکل سائنس یا کم از کم پاکستانی طبی ماہرین اپنی تمام تر تعلیم، مہارت اور مشینوں کے باوجود بیماریوں کی تشخیص کرنے اور اس کے علاج میں ناکام رہتے ہیں۔ علاج تو دور کی بات وہ ایسی بیماری کو کسی خاص نام سے تلاش کرنے یا اسے مخصوص نام دینے سے بھی معذور نظر آتے ہیں۔ جہاں تک بلدیاتی اداروں اور ان کے تحت چلنے والے ذیلی اداروں کی ذمہ داریوں کی بات ہے تو اس پر بات کرنا اور نہ کرنا برابر ہی ہے
بلدیہ عظمیٰ تو اب بھی آزاد ہے ذمہ داریوں سے لیکن
عوام کی سانسوں کی ہر ڈور گندگی کی اسیر ہوتی جارہی ہے

کراچی کے وہ علاقے جہاں اب تک اس طرح کی خبریں آچکی ہیں اور لوگ مہلک، گمنام اور پُراسرار بیماری میں مبتلا ہیں، اُن میں ابراہیم حیدری، لیاری اور لیاقت آباد کے علاقے سرفہرست ہیں تاہم ایسی پُراسرار بیماریاں مذکورہ علاقوں تک مخصوص نہیں ہیں بلکہ گاہے بگاہے پورے ملک کے ایسے پسماندہ اور خستہ حال گاؤں یا شہر سامنے آچکے ہیں جہاں بچے اور خاندان بھر کے افراد اپنی منفرد بیماریوں کے ہاتھوں سسکنے پر مجبور ہیں۔

یہ بیماریاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ یہ سوال پڑھنے والوں کےاذہان میں اٹھتا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ دراصل گندگی میں سانس لینا، کھانا پینا اور حفظان صحت کے برخلاف طرز زندگی ایسی پُراسرار جلدی اور اندرون جسم بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ویسے تو پُراسرار بیماریوں کے حوالے سے فی الوقت کراچی کے چند علاقے قابل ذکر ہیں لیکن اگر حالات یونہی چلتے رہے تو خدشہ یہ ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کھبی نہ سنائی دینے والی جلدی اور جسمانی بیماریاں پورے شہر قائد کو اپنا مسکن بنالیں گی کیونکہ پورا شہر ہی گندگی، بدترین ٹریفک کے مسائل، عوام کی بے حسی اور غلط طرز زندگی پر ماتم کناں ہے۔



کراچی میں ضلع وسطی کے علاقے نیو کراچی، صبا سینما چورنگی، صنعتی ایریا، گودھرا کالونی، نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی، ڈسکو موڑ، خواجہ اجمیر نگری، انڈہ موڑ، ناگن چورنگی، فور کے چورنگی، بابا موڑ، دو منٹ چورنگی، کریلا اسٹاپ، نارتھ ناظم آباد شپ اونر کالج، شارع نور جہاں، نصرت بھٹو کالونی، عبداﷲ کالج، لنڈی کوتل چورنگی، ضیا الدین چورنگی، موسیٰ کالونی، کریم آباد، لیاقت آباد سندھی ہوٹل، دو نمبر طالب کالونی، سپر مارکیٹ، چونا ڈپو، ناظم آباد، رضویہ سوسائٹی، گلبہار، گلبرگ، فیڈرل بی ایریا شامل ہیں تو ضلع جنوبی میں اولڈ سٹی ایریا کے علاقے گارڈن، کھارادر، رامسوامی، رنچھوڑلائن، چونا بھٹی، لائٹ ہاؤس، ڈینسو ہال، جوبلی، مارواڑی لائن، لیاری، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، برنس روڈ اور پاکستان چوک شامل ہیں۔

اِسی طرح ضلعی شرقی کے علاقے گلشن اقبال ڈسکو بیکری، عزیز بھٹی، ڈالمیا، پی آئی بی کالونی، پرانی سبزی منڈی، ڈرگ روڈ، مبینہ ٹاؤن اسکاؤٹ کالونی، گلزار ہجری کے علاوہ ضلع غربی کے علاقے اورنگی ٹاؤن، مومن آباد، فقیر کالونی، پیرآباد، پاک کالونی، سعید آباد، گلشن غازی، بلدیہ ٹاؤن، مواچھ گوٹھ، جنگل اسکول، مشرف کالونی، قائم خانی کالونی، رانگڑ محلہ اور عابد آباد شامل ہیں۔

ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے زمان ٹاؤن، کورنگی کراسنگ، لانڈھی، شرافی گوٹھ، چکرا گوٹھ، عوامی کالونی، لانڈھی خرم آباد، زمان آباد جبکہ ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ، بن قاسم ٹاؤن، شاہ لطیف ٹاؤن، ملیر سٹی بکرا پیڑی، سہراب گوٹھ نئی سبزی منڈی، صفورا گوٹھ، موسمیات چوک اوکھائی میمن اور ایئرپورٹ بھٹائی آباد سمیت دیگر علاقوں کی سڑکیں، گلیاں اور محلے نہ صرف صفائی سے محروم ہیں بلکہ جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر سے علاقہ مکین شدید تعفن میں اپنی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔



کراچی پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد یہاں دو ناموں کی مثال دینا چاہوں گا جہاں گندگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ان میں سب سے پہلے ہے لیاری ہے جہاں کی گلی محلوں میں گھوم پھر کر اسکا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اُس کے بعد اگر آپ لیاقت آباد جیسے علاقے میں چلت پھرت کریں۔ بالخصوص لیاقت آباد دو نمبر، جھنڈا چوک سے لے کر طالب کالونی تک، جہاں کی حالت زار کسی جنگ کے بعد کے منظر کی عکاسی کرتی ہے۔ لیاری اور لیاقت آباد دونوں ہی علاقے شہری انتظامیہ کی زبردست عدم توجہ کا شکار ہیں۔ پسماندگی کا شکار بنگالی پاڑے کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ ایک ایک گھر سے درجنوں بچے یا افراد ملتے ہیں مگر اب یہ تاثر لیاقت آباد پر بھی صادق آتا ہے۔



یہاں کی آبادی اب اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ گمان ہوتا ہے جیسے بچے اُبل رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ آبادی جتنی زیادہ ہوگی کچرا اور گند بھی اُتنا ہی زیادہ ہوگا۔ لیاقت آباد میں گھروں سے نکلنے والے کچرے کے ڈھیر سے کچرا کنڈی نہ صرف بھری نظر آتی ہے بلکہ یومیہ بنیادوں پر اسے تلف نہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ کچرا ملحقہ گھروں اور دکانوں تک جاپہنچا ہے۔ قریب کی دکانیں روز کھلتی ہیں اور یہاں کے بے حس دکاندار کھانے پینے کی اشیاء سرعام بغیر کسی صفائی ستھرائی کے عوام کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر گوشت کی دکانیں جہاں صبح سویرے ذبح ہونے والے جانوروں کے جسموں پر قریب کی گندگی سے آنے والی ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں چمٹی رہتی ہیں اور بعد میں پورے دن کے دوران یہی گوشت لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہوتا ہے۔ لیاقت آباد کی قدیم ترین گروسری (سبزی و پھل) گلی سے گزریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس بے حسی کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے عوام کو بدترین اور غلیظ ترین اشیاء فروخت کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی سپر مارکیٹ میں گوشت کی دکانیں ہیں جن سے نکلنے والا تعفن دماغ کو گلانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہاں رہنے والے گھروں کے مکین بتاتے ہیں کہ انہیں اُڑنے والے ایسے کیڑوں کا سامنا ہے جو آج سے پہلے کھبی نہیں دیکھے گئے۔





دراصل یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پسماندہ علاقوں میں عجیب و غریب اور پُراسرار بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس طرح اس غلیظ ترین گندگی سے عجیب و غریب حشرات دیکھنے میں آتے ہیں بالکل اِسی طرح ان سے ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جنکی طب میں کوئی تشریح موجود نہیں ہوتی۔ کل تک یہ بیماریاں اور امراض گاؤں دیہاتوں تک محدود تھے لیکن اب اس کا نشانہ شہر بن چکے ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں جو اپنے گھروں کا کچرا گلی محلوں میں لاپروائی سے پھینک دیتے ہیں۔ اُبلتے گٹروں اور کچرا کنڈی کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے اپنی آواز بلند نہیں کرتے بلکہ اندھے، بہرے اور گونگے بن کر آزمائے ہوؤں کو آزمانے کی قسم کھاتے رہتے ہیں۔ ہم بحیثیت ایک شہری سیاسی شعور کے معاملے میں انتہائی گندے اور غلیظ ہوچکے ہیں۔ اتنے گندے کے ہماری حسیات باہر کی گندگی کا احساس کرنے سے قاصر ہے۔ ہم ہر بار عوامی نمائندگی کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جنہیں شہری نظامت سے نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انہیں صفائی ستھرائی کا احساس۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گندگی کے معاملے میں لیاری لیاقت آباد بنتا ہے یا لیاقت آباد لیاری۔۔۔

[poll id="1110"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں