صادق خان کا انتخاب
برطانوی ووٹرز نے انھیں میئر منتخب کرکے مسلمانوں کا سافٹ امیج تسلیم کرلیا
دنیا میں روزانہ ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جن پر یقین نہیں آتا، لیکن یقین کرنا پڑتا ہے۔ کوئی واقعہ حیرت انگیز ہوتا ہے تو کسی میں خوشیاں بھری ہوتی ہیں۔ کسی واقعے کی وجہ سے افسوس جنم لیتا ہے تو کوئی بات سب کے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ لندن میں میئر کے الیکشن میں ہوا۔ آج سے کچھ مہینوں قبل یا کچھ سال پہلے تک برطانوی مسلمانوں نے شاید ہی یہ سوچا ہو کہ کبھی اُن کا کوئی نمائندہ میئر لندن بنے گا لیکن 5 مئی 2016 کو ایسا ہوگیا۔
پاکستانی بس ڈرائیور کے پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان اور لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان لندن کے میئر منتخب ہوگئے، اُن کے انتخاب کا اعلان ہوتے ہیں لندن میں خاص طور پر اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں میں عمومی سطح پر زبردست خوشی کا سماں دیکھنے میں آیا۔45 سالہ صادق خان کا میئر لندن بننا کئی اسباب کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اُن کے انتخاب کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے کیوںکہ نائن الیون کے بعد جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، مسلمانوں کو خاص طور پر دہشت گرد سمجھا اور کہا جارہا ہے ، ایسے میں لندن کے میئر کے انتخاب میں صادق خان نے مسلمانوں کا سافٹ امیج پیش کیا، جسے برطانوی ووٹروں نے بھی تسلیم کرلیا اور انھیں دیگر امیدواروں پر فوقیت دے کر یہ اعلان کردیا کہ کچھ گمراہ لوگوں کی غلطیوں یا کارروائیوں کی سزا پوری کمیونٹی کو نہیں دی جاسکتی۔
صادق خان کی کام یابی چند ماہ کی انتخابی مہم کا نتیجہ نہیں، برطانوی معاشرے میں جہاں پانامہ لیکس میں والد کا نام آنے پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی مسنداقتدار خطرے میں پڑگئی تھی، کسی مسلمان کا اتنی مقبولیت حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ صادق خان نے 57 فی صد ووٹ حاصل کرکے اپنے قریبی حریف کنزرویٹو پارٹی کے زیک گولڈ اسمتھ کو ہرایا ۔ انتخابی اعدادوشمار کے مطابق صادق خان نے 13لاکھ10 ہزار 143 ووٹ حاصل کیے جب کہ زیک گولڈ اسمتھ کو 9لاکھ 94 ہزار 614 ووٹ ملے۔
یوں تو میئر لندن کے الیکشن میں مجموعی طور پر 12 امیدوار میدان میں تھے، لیکن ابتدا ہی سے مقابلہ صادق خان اور زیک گولڈ اسمتھ کے درمیان تھا۔ انتخابی مرحلے سے کچھ دن قبل تک زیک گولڈ اسمتھ کی پوزیشن بھی کافی مضبوط نظر آرہی تھی۔ زیک گولڈ اسمتھ، عمران خان کی پہلی اور سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بھائی ہیں۔ کچھ خبریں یہ بھی آئی تھیں کہ الیکشن سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے دورۂ لندن میں اپنے سابق برادر نسبتی کے لیے ووٹروں کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم صادق خان اور ان کی ٹیم کے کام، اُن کا ماضی، اُن کی آئندہ پالیسیوں اور خود صادق خان کی شخصیت کو لندن کے شہریوں نے اپنے لیے سب سے بہتر سمجھا اور انھیں میئر کے منصب پر لابٹھایا۔
صادق خان نے میئر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جو بات کی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا،''مجھے اپنی جیت کی خوشی ہے اور میں اس بات پر بھی خوش ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں نے خوف کے بجائے امید کا انتخاب کیا ہے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ مجھ جیسا کوئی شخص لندن کا میئر بنے گا۔'' صادق خان نے اپنے ووٹروں کا شکریہ بھی ادا کیا جنھوں نے ایک اہم ذمے داری ان کے سپرد کی۔صادق خان کی تاریخی کام یابی سے لندن کی میئر شپ پر گذشتہ 8 سال سے جاری کنزرویٹو پارٹی کا اقتدار بھی ختم ہوگیا۔ اب لیبر پارٹی کے صادق خان بطور میئر فرائض سنبھالیں گے۔
صادق خان کے والدین 70 کی دہائی میں پاکستان سے لندن منتقل ہوگئے تھے۔ صادق خان نے لندن کے ایک علاقے ٹوٹنگ کے سینٹ جارج اسپتال میں جنم لیا، اُن کے والد امان اﷲ اور والدہ سحرن خان نے اپنے 7 بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش بہت ذمے داری سے کی اور انھیں حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر خاص طور پر سکھایا۔ صادق خان اپنے بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ انہوں نے لندن میں رہ کرپڑھا لکھا اور نام کمایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے اسکول کے پہلے دن سے لے کر میئر لندن کا حلف اٹھانے تک صادق خان کی زندگی طویل جدوجہد اور محنت کی کہانی ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جب میئر لندن کے انتخابات کے لیے لیبر پارٹی میں امیدواروں کا چناؤ کیا جارہا تھا تو صادق خان کا نام بہت زیادہ زیربحث نہیں تھا۔ برطانیہ کے سیاسی پنڈتوں اور تمام سٹے بازوں کا خیال تھا کہ لیبر پارٹی اپنا ٹکٹ ٹونی بلیئر کی قریبی ساتھی بیرونس جوئل کو دے گی، کیوںکہ بیرونس جوئل وہ خاتون ہیں جنھوں نے لندن میں اولمپکس کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن یہاں بھی صادق خان نے آگے رہنے والوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ یہ اُن کی زندگی کے مختلف ادوار میں کئی بار ہوا ہے اور شاید یہی صادق خان کی کام یابیوں کی وجہ ہے کہ وہ ناکامیوں سے ڈرے بغیر جیت کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔
بچپن میں صادق خان نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بہت مشکل حالات بھی دیکھے۔ وہ سرکاری فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُن کے والد بس چلاتے تھے، جب کہ والدہ گھر کے کام کے علاوہ سلائی کڑھائی کرتی تھیں۔ اب قسمت نے ایسی یاوری کی ہے کہ صادق خان لندن کے میئر بن کا شہر کا سارا نظم و نسق اور امور کے نگراں بن گئے ہیں۔
اُن کے بہت سے ناقدین کو یہ شک ہے کہ کیا صادق خان میئر لندن کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دے پائیں گے؟ اس کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن نومنتخب میئر لندن کے قریبی حلقوں کی رائے ہے کہ صادق خان کا عزم و حوصلہ، محنت سے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی عادت اس اہم ذمے داری کی انجام دہی میں بھی انہیں سرخرو کرے گی۔عالمی میڈیا میں بھی صادق خان کے میئر لندن کی خبروں کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا، اخبارات نے شہ سرخیاں لگائیں اور بار بار یہ بتایا گیا اور بتایا جارہا ہے کہ لندن کے نومنتخب میئر صادق خان کی اب تک کی زندگی پر جو بات صادق آتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ناموافق حالات کو کبھی اپنی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کی حالیہ انتخابات میں کام یابی ہے۔
صادق خان کی انتخابی مہم میں ''بس ڈرائیور کا بیٹا'' والا فقرہ اُن کے انتخابی نعروں اور تقریروں میں بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ کئی مواقع پر صادق خان نے خود بھی اپنی اس پہچان کو چھپانے کے بجائے سب کے سامنے آشکار کیا۔
صادق خان نے اپنے متعدد انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کیا کہ مزدور یونین اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک کے ساتھ ان کے لگاؤ کی بڑی وجہ اُن کے بچپن کے مشاہدات ہیں۔ صادق خان کے بقول25 سال تک بس چلانے والے ان کے والد یونین میں تھے اور انھیں مناسب تنخواہ ملتی تھی اور ان کے حالات کار بھی اچھے تھے۔ اس کے برعکس چوںکہ ان کی والدہ گھر پر درزن کا کام کرتی تھیں، اس لیے ان کی آمدنی بھی اچھی نہیں تھی اور انھیں وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو یونین میں شامل مزدوروں کو ملتے ہیں۔
صادق اسکول سے لیکر کالج اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک ایک اچھے طالبعلم ثابت ہوئے، انھوں نے اپنی زندگی کو آسان اور اچھا بنانے کے لیے راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا محنت سے مقابلہ کیا۔ 15 سال کی عمر میں ہی جب وہ اسکول میں تھے، انھوں نے لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اسکول کی سطح پر پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ فٹبال، کرکٹ اور باکسنگ کے بھی بے حد شوقین رہے ہیں۔
اُن کی پسندیدہ فٹبال ٹیم لیورپول ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب صادق خان کو دانتوں کا ڈاکٹر بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے اس کے لیے کوششیں بھی کیں لیکن آگے چل کر اُن کا ارادہ بدل گیا اور انھوں نے وکالت کی راہ لی۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے میرے ایک ٹیچر نے مشورہ دیا تھا کہ ''تم وکیل بن جاؤ کیوںکہ تم سوالات بہت کرتے ہو۔'' صادق خان کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے ایک مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کبھی اپنا مذہب چھپانے کی کوشش نہیں کی اور نہ وہ اس بات پر شرمندہ ہوئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ جب وہ رکن اسمبلی بنے تو انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں نبی کریم ؐ کی احادیث کا حوالہ دیا۔
صادق خان کی شادی 1994 میں ہوئی۔ اس حوالے سے ایک اہم اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن کی اہلیہ سعدیہ احمد کے والد بھی بس ڈرائیور تھے۔ صادق کی 2 بیٹیاں انیسہ اور عمارہ ہیں۔
قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صادق خان نے بطور وکیل بھی خدمات انجام دیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہے۔ انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان Fairness Not Favours: How to Reconnect with British Muslims. ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن کے دور میں صادق خان کو وزیرمملکت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
صادق خان نے کئی دہائی قبل جو سفر شروع کیا تھا وہ اب ایک اہم موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ لندن جیسے ترقی یافتہ شہر کا میئر بننا بہت بڑی ذمے داری کے ساتھ کسی اعزاز سے کم نہیں، اب دیکھنا یہ ہے وہ اپنا یہ فریضہ کس طرح انجام دیتے ہیں اور برطانوی معاشرے میں خاص طور پر لندن کے مسلمانوں شہریوں کے لیے کیا کرپاتے ہیں؟
میئر لندن منتخب ہونے کے بعد صادق خان کی پہلی گفتگو
''مجھے اپنی جیت کی خوشی ہے اور میں اس بات پر بھی خوش ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں نے خوف کے بجائے امید کا انتخاب کیا ہے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ مجھ جیسا کوئی شخص لندن کا میئر بنے گا۔''
خبر کی نمایاں کوریج
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صادق خان کی کام یابی کی خبروں کو بہت اہمیت دی گئی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے سب سے اہم خبر کے طور پر صادق خان کی جیت کا احوال بتایا۔ صدر اور وزیراعظم سے لے کر تمام سیاسی راہ نماؤں تک نے اپنے بیانات میں ایک برطانوی نژاد مسلمان صادق خان کے میئر لندن بننے پر بے حد خوشی اور اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
عالمی شخصیات اور عالمی میڈیا کا ردعمل
معروف شخصیات اور عالمی میڈیا نے صادق خان کی کامیابی پر اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔
٭ صادق خان کے حریف زیک گولڈ اسمتھ کی بہن اور عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں انھیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ لندن کے پہلے مسلمان میئر کا انتخاب نوجوان مسلمانوں کے لیے مثال ہے۔
٭جرمن جریدے Der Spiegel نے صادق خان کی کام یابی کو ''اسلاموفوبیا کی ناکامی'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''اس انتخابی نتیجے سے ثابت ہوگیا کہ لندن زیادہ باشعور، لبرل ہوگیا ہے اور وہ کنزرویٹوز کے شکنجے سے نکل رہا ہے۔''
٭قطر کے روزنامے الشرق نے لکھا کہ ''ایک بار پھر لندن نے تاریخ رقم کردی۔''
٭ برطانیہ کی مسلمان خاتون رکن پارلیمنٹ اور وزیر سعیدہ وارثی نے صادق خان کو اپنے ٹوئٹ میں ان الفاظ میں مبارک باد دی، ''ایک بس ڈرائیور کی بیٹی کی جانب سے ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کو بہت بہت مبارک باد۔''
پاکستانی بس ڈرائیور کے پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان اور لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان لندن کے میئر منتخب ہوگئے، اُن کے انتخاب کا اعلان ہوتے ہیں لندن میں خاص طور پر اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں میں عمومی سطح پر زبردست خوشی کا سماں دیکھنے میں آیا۔45 سالہ صادق خان کا میئر لندن بننا کئی اسباب کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اُن کے انتخاب کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے کیوںکہ نائن الیون کے بعد جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، مسلمانوں کو خاص طور پر دہشت گرد سمجھا اور کہا جارہا ہے ، ایسے میں لندن کے میئر کے انتخاب میں صادق خان نے مسلمانوں کا سافٹ امیج پیش کیا، جسے برطانوی ووٹروں نے بھی تسلیم کرلیا اور انھیں دیگر امیدواروں پر فوقیت دے کر یہ اعلان کردیا کہ کچھ گمراہ لوگوں کی غلطیوں یا کارروائیوں کی سزا پوری کمیونٹی کو نہیں دی جاسکتی۔
صادق خان کی کام یابی چند ماہ کی انتخابی مہم کا نتیجہ نہیں، برطانوی معاشرے میں جہاں پانامہ لیکس میں والد کا نام آنے پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی مسنداقتدار خطرے میں پڑگئی تھی، کسی مسلمان کا اتنی مقبولیت حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ صادق خان نے 57 فی صد ووٹ حاصل کرکے اپنے قریبی حریف کنزرویٹو پارٹی کے زیک گولڈ اسمتھ کو ہرایا ۔ انتخابی اعدادوشمار کے مطابق صادق خان نے 13لاکھ10 ہزار 143 ووٹ حاصل کیے جب کہ زیک گولڈ اسمتھ کو 9لاکھ 94 ہزار 614 ووٹ ملے۔
یوں تو میئر لندن کے الیکشن میں مجموعی طور پر 12 امیدوار میدان میں تھے، لیکن ابتدا ہی سے مقابلہ صادق خان اور زیک گولڈ اسمتھ کے درمیان تھا۔ انتخابی مرحلے سے کچھ دن قبل تک زیک گولڈ اسمتھ کی پوزیشن بھی کافی مضبوط نظر آرہی تھی۔ زیک گولڈ اسمتھ، عمران خان کی پہلی اور سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بھائی ہیں۔ کچھ خبریں یہ بھی آئی تھیں کہ الیکشن سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے دورۂ لندن میں اپنے سابق برادر نسبتی کے لیے ووٹروں کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم صادق خان اور ان کی ٹیم کے کام، اُن کا ماضی، اُن کی آئندہ پالیسیوں اور خود صادق خان کی شخصیت کو لندن کے شہریوں نے اپنے لیے سب سے بہتر سمجھا اور انھیں میئر کے منصب پر لابٹھایا۔
صادق خان نے میئر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جو بات کی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا،''مجھے اپنی جیت کی خوشی ہے اور میں اس بات پر بھی خوش ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں نے خوف کے بجائے امید کا انتخاب کیا ہے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ مجھ جیسا کوئی شخص لندن کا میئر بنے گا۔'' صادق خان نے اپنے ووٹروں کا شکریہ بھی ادا کیا جنھوں نے ایک اہم ذمے داری ان کے سپرد کی۔صادق خان کی تاریخی کام یابی سے لندن کی میئر شپ پر گذشتہ 8 سال سے جاری کنزرویٹو پارٹی کا اقتدار بھی ختم ہوگیا۔ اب لیبر پارٹی کے صادق خان بطور میئر فرائض سنبھالیں گے۔
صادق خان کے والدین 70 کی دہائی میں پاکستان سے لندن منتقل ہوگئے تھے۔ صادق خان نے لندن کے ایک علاقے ٹوٹنگ کے سینٹ جارج اسپتال میں جنم لیا، اُن کے والد امان اﷲ اور والدہ سحرن خان نے اپنے 7 بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش بہت ذمے داری سے کی اور انھیں حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر خاص طور پر سکھایا۔ صادق خان اپنے بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ انہوں نے لندن میں رہ کرپڑھا لکھا اور نام کمایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے اسکول کے پہلے دن سے لے کر میئر لندن کا حلف اٹھانے تک صادق خان کی زندگی طویل جدوجہد اور محنت کی کہانی ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جب میئر لندن کے انتخابات کے لیے لیبر پارٹی میں امیدواروں کا چناؤ کیا جارہا تھا تو صادق خان کا نام بہت زیادہ زیربحث نہیں تھا۔ برطانیہ کے سیاسی پنڈتوں اور تمام سٹے بازوں کا خیال تھا کہ لیبر پارٹی اپنا ٹکٹ ٹونی بلیئر کی قریبی ساتھی بیرونس جوئل کو دے گی، کیوںکہ بیرونس جوئل وہ خاتون ہیں جنھوں نے لندن میں اولمپکس کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن یہاں بھی صادق خان نے آگے رہنے والوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ یہ اُن کی زندگی کے مختلف ادوار میں کئی بار ہوا ہے اور شاید یہی صادق خان کی کام یابیوں کی وجہ ہے کہ وہ ناکامیوں سے ڈرے بغیر جیت کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔
بچپن میں صادق خان نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بہت مشکل حالات بھی دیکھے۔ وہ سرکاری فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُن کے والد بس چلاتے تھے، جب کہ والدہ گھر کے کام کے علاوہ سلائی کڑھائی کرتی تھیں۔ اب قسمت نے ایسی یاوری کی ہے کہ صادق خان لندن کے میئر بن کا شہر کا سارا نظم و نسق اور امور کے نگراں بن گئے ہیں۔
اُن کے بہت سے ناقدین کو یہ شک ہے کہ کیا صادق خان میئر لندن کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دے پائیں گے؟ اس کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن نومنتخب میئر لندن کے قریبی حلقوں کی رائے ہے کہ صادق خان کا عزم و حوصلہ، محنت سے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی عادت اس اہم ذمے داری کی انجام دہی میں بھی انہیں سرخرو کرے گی۔عالمی میڈیا میں بھی صادق خان کے میئر لندن کی خبروں کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا، اخبارات نے شہ سرخیاں لگائیں اور بار بار یہ بتایا گیا اور بتایا جارہا ہے کہ لندن کے نومنتخب میئر صادق خان کی اب تک کی زندگی پر جو بات صادق آتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ناموافق حالات کو کبھی اپنی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کی حالیہ انتخابات میں کام یابی ہے۔
صادق خان کی انتخابی مہم میں ''بس ڈرائیور کا بیٹا'' والا فقرہ اُن کے انتخابی نعروں اور تقریروں میں بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ کئی مواقع پر صادق خان نے خود بھی اپنی اس پہچان کو چھپانے کے بجائے سب کے سامنے آشکار کیا۔
صادق خان نے اپنے متعدد انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کیا کہ مزدور یونین اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک کے ساتھ ان کے لگاؤ کی بڑی وجہ اُن کے بچپن کے مشاہدات ہیں۔ صادق خان کے بقول25 سال تک بس چلانے والے ان کے والد یونین میں تھے اور انھیں مناسب تنخواہ ملتی تھی اور ان کے حالات کار بھی اچھے تھے۔ اس کے برعکس چوںکہ ان کی والدہ گھر پر درزن کا کام کرتی تھیں، اس لیے ان کی آمدنی بھی اچھی نہیں تھی اور انھیں وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو یونین میں شامل مزدوروں کو ملتے ہیں۔
صادق اسکول سے لیکر کالج اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک ایک اچھے طالبعلم ثابت ہوئے، انھوں نے اپنی زندگی کو آسان اور اچھا بنانے کے لیے راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا محنت سے مقابلہ کیا۔ 15 سال کی عمر میں ہی جب وہ اسکول میں تھے، انھوں نے لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اسکول کی سطح پر پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ فٹبال، کرکٹ اور باکسنگ کے بھی بے حد شوقین رہے ہیں۔
اُن کی پسندیدہ فٹبال ٹیم لیورپول ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب صادق خان کو دانتوں کا ڈاکٹر بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے اس کے لیے کوششیں بھی کیں لیکن آگے چل کر اُن کا ارادہ بدل گیا اور انھوں نے وکالت کی راہ لی۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے میرے ایک ٹیچر نے مشورہ دیا تھا کہ ''تم وکیل بن جاؤ کیوںکہ تم سوالات بہت کرتے ہو۔'' صادق خان کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے ایک مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کبھی اپنا مذہب چھپانے کی کوشش نہیں کی اور نہ وہ اس بات پر شرمندہ ہوئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ جب وہ رکن اسمبلی بنے تو انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں نبی کریم ؐ کی احادیث کا حوالہ دیا۔
صادق خان کی شادی 1994 میں ہوئی۔ اس حوالے سے ایک اہم اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن کی اہلیہ سعدیہ احمد کے والد بھی بس ڈرائیور تھے۔ صادق کی 2 بیٹیاں انیسہ اور عمارہ ہیں۔
قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صادق خان نے بطور وکیل بھی خدمات انجام دیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہے۔ انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان Fairness Not Favours: How to Reconnect with British Muslims. ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن کے دور میں صادق خان کو وزیرمملکت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
صادق خان نے کئی دہائی قبل جو سفر شروع کیا تھا وہ اب ایک اہم موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ لندن جیسے ترقی یافتہ شہر کا میئر بننا بہت بڑی ذمے داری کے ساتھ کسی اعزاز سے کم نہیں، اب دیکھنا یہ ہے وہ اپنا یہ فریضہ کس طرح انجام دیتے ہیں اور برطانوی معاشرے میں خاص طور پر لندن کے مسلمانوں شہریوں کے لیے کیا کرپاتے ہیں؟
میئر لندن منتخب ہونے کے بعد صادق خان کی پہلی گفتگو
''مجھے اپنی جیت کی خوشی ہے اور میں اس بات پر بھی خوش ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں نے خوف کے بجائے امید کا انتخاب کیا ہے۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ مجھ جیسا کوئی شخص لندن کا میئر بنے گا۔''
خبر کی نمایاں کوریج
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صادق خان کی کام یابی کی خبروں کو بہت اہمیت دی گئی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے سب سے اہم خبر کے طور پر صادق خان کی جیت کا احوال بتایا۔ صدر اور وزیراعظم سے لے کر تمام سیاسی راہ نماؤں تک نے اپنے بیانات میں ایک برطانوی نژاد مسلمان صادق خان کے میئر لندن بننے پر بے حد خوشی اور اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
عالمی شخصیات اور عالمی میڈیا کا ردعمل
معروف شخصیات اور عالمی میڈیا نے صادق خان کی کامیابی پر اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔
٭ صادق خان کے حریف زیک گولڈ اسمتھ کی بہن اور عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں انھیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ لندن کے پہلے مسلمان میئر کا انتخاب نوجوان مسلمانوں کے لیے مثال ہے۔
٭جرمن جریدے Der Spiegel نے صادق خان کی کام یابی کو ''اسلاموفوبیا کی ناکامی'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''اس انتخابی نتیجے سے ثابت ہوگیا کہ لندن زیادہ باشعور، لبرل ہوگیا ہے اور وہ کنزرویٹوز کے شکنجے سے نکل رہا ہے۔''
٭قطر کے روزنامے الشرق نے لکھا کہ ''ایک بار پھر لندن نے تاریخ رقم کردی۔''
٭ برطانیہ کی مسلمان خاتون رکن پارلیمنٹ اور وزیر سعیدہ وارثی نے صادق خان کو اپنے ٹوئٹ میں ان الفاظ میں مبارک باد دی، ''ایک بس ڈرائیور کی بیٹی کی جانب سے ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کو بہت بہت مبارک باد۔''