اسلام میں محنت کشوں کی عظمت

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مزدورکے وسیع اور جامع ترین حقوق کا تعین اسلام نے کیا


[email protected]

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مزدورکے وسیع اور جامع ترین حقوق کا تعین اسلام نے کیا، محنت کش کی عزت، عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس حدیث شریف سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جس میں آپؐ نے محنت کش کو اﷲ کا دوست قرار دیا۔ ''الکاسب حبیب اﷲ'' اسی طرح دین اسلام ہی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ یہ مزدوروں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے، مزدور کے حقوق کا اندازہ اس حدیث شریف میں پوشیدہ ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ ''مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو'' زمانہ قبل از اسلام میں مزدوروں کے ساتھ جو حق تلفی اور زیادتی ہوا کرتی تھی وہ تاریخ کی کتب میں بخوبی مرقوم ہے، آج مغرب مزدوروں کے جن حقوق کا نعرہ لگارہا ہے اسلام نے چودہ سو برس قبل مزدورکو اس سے کہیں درجہ بہتر اور وسیع و جامع ترین حقوق عطا کیے۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر آپؐ نے فرمایا کہ ''اپنے غلاموں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ جو خود پہنو انھیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو، تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے جو معاشی تصور دنیا کے سامنے رکھا پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہ اس سے قبل ملی ہے اور نہ ہی اس کے بعد کبھی انسانیت کو نصیب ہوسکی۔حضرت محمد ﷺ کی سربراہی میں شروع ہونے والی مذہبی، معاشی اور سماجی تحریک مسلمانوں کو ایسا بے نظیر جذبہ اور بے مثال ولولہ عطا کیا کہ ابھی ہجرت کو آدھی صدی بھی نہ گزری تھی کہ انھوں نے دنیائے قدیم کی تین عظیم سلطنتوں (ایران، مصر اور شام) کو حکومت اسلام کی قلمرو میں داخل کرلیا اور وہاں کے باشندوں کو داخل اسلام کرکے ایسے عظیم معاشی انقلاب سے متعارف کروایا جس سے وہ اس سے قبل ناواقف تھے۔

آپؐ کی عظیم قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا، جو دنیا کا سب سے جامع اور بڑا انقلاب ہے، آپؐ نے اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے اقدامات فرمائے اور ہر طرح کے علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے لوگوں کو سہولیات فراہم کیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں، عہد نبویؐ میں اصحاب رسولؓ میں ماہر قسم کے تاجر، کاریگر، کاشتکار، صنعت کار اور ہر پیشے کو اختیار کرنے والے لوگ موجود تھے، حضور اکرمؐ کی انتہائی دور رس نگاہوں (بصیرت نبویؐ) نے چودہ سو برس قبل ہی صنعت و تجارت کی غیر معمولی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔

حضور نبی کریمؐ نے اپنے ارشادات و اقدامات سے مسلمانوں میں علم و حکمت اور صنعت، حرفت و تجارت کی اہمیت کا شعور اجاگر کیا حضرت مقدادؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے اور حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (یہاں مختلف صنعتوں کے قیام کی جانب اشارہ ہے) آپؐ نے فرمایا کہ صنعت و حرفت کے ذریعے روزی کی تکمیل فرض (کفایہ) ہے آپؐ کا ارشاد ہے عورت کو گھر میں خالی بیٹھے رہنے کی جگہ چرخہ کاتنا اچھی کمائی کا مشغلہ ہے (کنزالحقائق) ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ صنعت اﷲ کے خزانوں میں سے خزانہ جس سے صاحب صنعت خرچ کرتا رہتا ہے(انتخاب بخاری شریف) عہد نبویؐ میں مدینہ میں پارچہ بافی، تلوار سازی اور لکڑی کے سامان کی صنعتیں چھوٹے پیمانے پر جاری تھی، انصار مدینہ نے یہودیوں سے کپڑا پہننا، رنگ سازی، تلواریں اور کاشت کاری کے آلات بنانا سیکھے تھے۔

عہد نبویؐ میں بڑھئی کا کام بھی ہوتا تھا حضرت ابو رافعؓ لکڑی کے پیالے بنایا کرتے تھے، عہد نبویؐ میں لوہار کا کام بھی ہوتا تھا حضرت خبابؓ لوہار تھے اور زیور بنانا بھی جانتے تھے، حضرت ارزق بن عقبہ ثقفیؓ کا پیشہ بھی لوہار کا تھا حضرت خبابؓ بن الارث تلواریں بھی بناتے تھے، حضرت سلمان فارسیؓ منجنیق بنانا بھی جانتے تھے، نیز کھجور کی پتیوں سے ٹوکری اور چٹائی بنانا بھی جانتے تھے، حضرت عمارؓ بن یاسر معمار تھے، حضرت ابن دریدؓ قصائی کا کام کرتے تھے قرآن کریم کے اجزا رسول اﷲؐ کی حیات مبارکہ میں کئی صحابہؓ اپنے طور پر کاغذ، لکڑی اور پتھر کی تختیوں پر لکھ لیا کرتے تھے، حضرت عثمان بن طلحہؓ جن کو آپؐ نے کعبہ شریف کی کنجی مرحمت فرمائی تھی، درزی کا کام کرتے تھے۔

دندان سازی بھی عہد نبویؐ میں اہم صنعت تھی، عہد نبویؐ میں مسلمانوں میں جوتے بنانے والے بھی موجود تھے، حضرت زینبؓ دستکاری میں ماہر تھیں وہ کھال کو دباغت دے کر جوتا بناتی تھیں اور اﷲ کے راستے میں صدقہ کرتی تھیں لہٰذا دس سالہ مدنی دور نبویؐ میں عرب جزیرہ نما کے مسلمانوں( یا دوسرے الفاظ میں اسلامی ریاست) کی معیشت کے بنیادی عناصر چار تھے۔ اول تجارت و کاروبار، دو زراعت، سوم صنعت و حرفت، اور چہارم محنت و مزدوری پہلے دو عناصر یعنی تجارت اور زراعت، مسلم معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھے تاہم باقی دو کی اہمیت بھی کسی طرح کم نہ تھی، نقوش رسولؐ نمبر میں یہ تحریر ہے کہ آپؐ وعظ و نصائح کے جلسے درمیان میں ناغہ دے کر منعقد فرماتے اور کبھی اخلاقیات پر گفتگو فرماتے، کبھی دینی مسائل پر ارشاد فرماتے، زراعت، باغبانی، تجارت، گھڑ دوڑ، سیاست، صنعت اور عسکریات پر بحث و تقریر فرمایا کرتے تھے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں صنعت و تجارت کے شعبے کی طرف بھی توجہ دی جاتی تھی اور محنت کشوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی نیز ہنر مندوں اور بے ہنروں کی مدد اور معاشی اجارہ داری کا ازالہ کیا جاتا، آپؐ نے مدینہ میں آزادانہ درآمدات و برآمدات پر ٹیکس اور چونگی کا خاتمہ فرمایا، تجارتی میلے لگانے کی حوصلہ افزائی فرمائی، جدید ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی فرمائی، آپؐ نے فرمایا کہ ''رزق کا دروازہ عرش تک کھلا ہوا ہے اور اسباب معیشت غیر محدود ہیں'' (کنزالحقائق) نیز آپؐ نے فرمایا ''الا ان القوۃ الرمی'' یعنی قوت، پھینکنا ہے عہد نبویؐ میں طب و جراحی کو بھی فروغ حاصل ہوا، مدینے میں کارخانے قائم ہوئے اور صحابہ ؓ نے فنی مہارت حاصل کی۔ آنحضرتؐ کے وصال کے بعد ایک مختصر سے عرصے میں مسلمانوں نے نہ صرف بڑی تعداد میں ملک فتح کیے بلکہ سائنسی اور تحقیقی میدانوں میں بھی نئی ایجادات و اختراعات کے ذریعے اپنا لوہا منوایا اور دنیا کی سب سے بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت و قوت بن گئے عہد خلافت راشدہ میں بھی محنت کشوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کا سفر جاری رہا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں گھریلو دستکاریوں کی ترویج کی پوری پوری حوصلہ افزائی کی گئی لوگوں کو اپنے روزگار کے اختیار کرنے اور اس کے انجام دینے کے لیے بھرپور مالی اعانت دی جاتی۔

آپؓ کے دور میں وظائف اس لیے ہی دیے جاتے تھے تاکہ لوگوں میں ذاتی محنت و مزدوری کے بل پر دستکاری کے مشاغل بڑھتے اور پھیلتے رہیں، حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں نے علم الحساب میں ترقی کی، حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں مسلمانوں نے ہوائی چکی ایجاد کی، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان صنعتی تحقیق کرتے رہے اور اپنی صنعتی صلاحیت بڑھاتے رہے حضرت علیؓ کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ''انسان کی قدر اس کے علم و ہنر کی وجہ سے ہے'' حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں پانچ سو بحری جہازوں کا بیڑا تیار کیا جس نے رومی بیڑے کو شکست دی۔بہر حال قصہ مختصر اور حرف آخر یہ ہیں کہ اسلام پوری تاریخ انسانی میں محنت کشوں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے رسول اﷲؐ نے کسب حلال کو ''فریضۃ بعد الفریضہ'' یعنی نماز کے بعد سب سے بڑا فرض اور محنت کش کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں