مسلمان تہذیب کا غروب انگریز کا عروج
جب انگریز برصغیر میں داخل ہوا تو تہذیب و تمدن سے آراستہ نہ تھا بلکہ سوداگر کے بھیس میں رہا۔
جب انگریز برصغیر میں داخل ہوا تو تہذیب و تمدن سے آراستہ نہ تھا بلکہ سوداگر کے بھیس میں رہا۔ خود کو برسوں منظم کیا، پھر ایک دور آیا کہ اس نے راجہ، مہاراجہ کے درمیان دراڑیں ڈالیں، راجہ علی شاہ کو بے دردی سے زیر کیا، بہادر شاہ کو تخت نشین ہونے کے درمیان شہزادوں کے سر تحفے میں پیش کیے، دھوکا دہی سے ملک پر قبضہ کیا، جنگ آزادی لڑنے والوں کو توپ دم کیا گیا، شیر دل ٹیپو کو حیلے سے شکست دی۔ بس ایک شعر ہی کافی ہے:
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگ دنیا، ننگ دیں، ننگ وطن(اقبال)
مگر اب دیکھیے کیا شان ہے لندن کے لوگوں کی، ظاہر ہے وہ ان کا اول شہر ہے، ان ہی لوگوں کی اکثریت ہے، مگر تعلیم نے ان کا زاویہ نگاہ ہی بدل ڈالا۔ نہ یہ کہ کون سیاہ فام ہے، کون ایشیائی رنگت والا ہے، کون مقامی ہے، کون غیر مقامی، کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم۔ صادق خان کے والد ایک بس ڈرائیور تھے، انھوں نے صادق کو تعلیم دلوائی، تربیت کی۔ صادق لیبر پارٹی سے منسلک ہوئے، تعریف صادق کی نہیں بلکہ وہاں کے ووٹرز کی ہے، جس کو مقامی لوگوں نے ووٹ دے کر نسل و رنگ کو شکست دی۔ صادق انگریزوں کے لیے مشکل نام تھا، ہمارے نبی کا لقب، گولڈ اسمتھ ان کے علاقے کا عام نام، مگر پھر بھی شکست کھا گئے۔
اب یہ امت تہذیب و تمدن سے دور، یہ مسلمانوں میں ہی لوگ پیدا ہیں جو مسلمانوں کو قتل کر کے اپنی سوچ اور مسلک کا آدمی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا ان انگریزوں کو سلام کرنے کا دور ہے جنھوں نے اپنا رہنما مسلمان کو چن لیا۔ یہ تربیت انگریز قوم کی ہے، جس کو دین و مذہب، رنگ و نسل سے غرض نہیں، بس ایک حرف کون اچھا ہے اور کون عوام کے کام آنے والا ہے۔ دیکھیے ذرا اپنے حکمرانوں کو، ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔
ہر آنے والا بچہ لاکھوں کا مقروض ہو گیا۔ کوئٹہ کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو دیکھیے، اربوں روپے کے زیورات، پیسوں کے بھرے 12 بیگ 20 کروڑ ڈالر کے پرائز بانڈ اور بہت کچھ۔ کیا اسٹریٹ کرائمز والے یہاں زیورات جمع کراتے تھے۔ گویا کرپشن کا جرائم سے گہرا تعلق ہے۔ ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، پھر ان کے ہاتھ میں اقتدار کی رسی۔ ایسا نظام آپ دیکھیے ان کا کیا ہوتا ہے۔ سیاسی نظام اس قدر جرائم سے مربوط اور مضبوط ہے کہ چند دنوں کی تکلیف پھر عیش یہی لوگ قانون کے رکھوالے ہیں اور اشرافیہ ہیں ان کو ہی یہاں کے لوگ ووٹ دیتے ہیں ان کو اپنا یا ان جیسوں کو اپنے رہنما کے طور پر چنتے ہیں۔
اس وقت مجھے 70ء کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے میرے ایک دوست جام ساقی جو اس وقت تھر کے لیڈر تھے ان کی بیوی بچے بھی ہاری موومنٹ پر قربان ہو گئے مگر جب 1970ء میں میرپورخاص ایک بس سے استقبال کے لیے اترے تو غریب دکھیارے استقبالیوں نے کیا کہا کہ یہ تو خود غریب ہے، ہمیں کیا دے گا؟ انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ نام نہاد رئیس خود زر کا بھوکا ہوتا ہے۔ اسی لیے رئیسانی کے احوال آپ نے دیکھے۔ نسل و رنگ پرست مذہب پرستوں نے لیبیا کا کیا حال کیا، شام میں حلب کے صوبے میں کوئی عمارت ثابت نہیں، وہاں مسلمانوں کو مزید پکا مسلمان بنانے کی تحریک چل رہی ہے، جب کہ مغربی ممالک کے لوگ انسانیت کی روح تک پہنچ چکے ہیں۔
اسی لیے اللہ کا کرم ان امتوں پر ہے، ذرا غور فرمائیے صرف عورت کو زیر نگیں رکھنے کے لیے تمام لوگ متحرک ہیں، ابھی ایبٹ آباد کے ایک علاقے میں ایک 17 برس کی لڑکی عنبرین کو گلا گھونٹ کے گاڑی میں ڈال کر زندہ جلا دیا گیا۔ ایک ظلم کی ایسی داستان ترتیب دی جو دور جہالت میں حجاز میں بھی نہ کی گئی ہو گی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ آیندہ کوئی لڑکی پسند کی شادی نہ کرنے پائے۔ گو کہ اس لڑکی نے خود پسند کی شادی نہ کی تھی بلکہ کسی کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ لڑکی عنبرین کو موت کے گھاٹ اتارنے والے 16 افراد تھے جن میں عنبرین کی ماں بھی مجبوراً شریک کار تھی۔
ظاہر ہے کیا ہونا ہے ظلم کا یہ خوف برسوں علاقے پر سوار رہے گا۔ اسلام شادی میں پسند کی شق رکھتا ہے اسی لیے لڑکی کا راضی ہونا ازحد ضروری ہے مگر لوگوں نے عورت کا گلا گھونٹ رکھا ہے اور اپنی من مانی کو اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا ہے ذرا موازنہ کرتے چلیں اسلام کے دعویداروں کا اور مغربی افکار والوں کا تو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا معاشرہ وڈیرہ شاہی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے کہیں دور نہیں محض ایک ہفتے کی کہانی سے یہی سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری کی جنھوں نے تلاشی لینے پر چانٹا رسید کیا اور ان کی ضمانت قبل از گرفتاری ہو گئی۔
ذرا قانون کی کمزوریاں تو دیکھیے کہ اس میں کون کون سے کمال سقم موجود ہیں۔ مغرب میں عورتیں اپنے حقوق لے چکیں ابھی یہاں حقوق نسواں پر تو کجا یہاں مرد بھی حقوق سے محروم ہیں ۔ نسواں کی طالع آزمائی ابھی بہت دور ہے جب تک ملک میں حاکم قانون کے شکنجے میں نہیں جکڑے جاتے اس وقت تک ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ابھی ملک نسل پرستی کی سوچ سے باہر نہیں نکلا اور ہم ویسے ہی سوچتے ہیں کہ مغرب کے لوگ بھی ایسے ہی سوچتے ہوں گے مغرب کے لوگوں کو بالکل نہیں سوچنا کہ اس کے حاکموں کے عقائد کیا ہیں ۔ ان کو اس سے غرض ہے کہ وہ صادق و امین ہے تو لیڈر ہے ان کو یقین آ گیا ہے کہ ان کے میئر نام کا صادق نہیں بلکہ کام کا صادق ہے اس لیے انھوں نے اس کو چن لیا ہے پیسہ پیدا کرنے میں نااہل ہے مگر عوام کی دولت کا رکھوالا ہے مگر جس طریقے سے مذہب کی بنیاد پر یہاں شور و غوغا مچایا گیا درحقیقت مغرب کا یہ رویہ ہرگز نہیں ہے وہ لوگ نہ دولت سے مرعوب ہوتے ہیں اور نہ غریب کو کمتر سمجھتے ہیں ان کے نزدیک عام آدمی قابل تکریم ہے ان کا وزیر اعظم جب تک وزیر اعظم ہے حکومتی مراعات ہیں۔
ادھر عہدے سے گیا بس میں سفر کرنے لگا عام آدمی کی طرح مگر یہاں ایک بار وزیر اعظم کیا بنا دنیا ہی بدل گئی وزیر اعظم تو بڑی بات ہے سیکریٹری خزانہ ہی سب کچھ ہے مغرب کے معاشرے کا ہمارے ملک کے صاحبان زر سے کیا موازنہ مغرب کے لوگ اپنی دولت فلاحی اور رفاہی اداروں میں تقسیم کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں بد سے بدتر زر پرستوں خصوصاً حکمرانوں کی دوڑ ہے اور ہر بدی کے پس پردہ حاکم یا حاکموں کے چیلے ہیں ۔
ایک اور واقعہ جو گزشتہ ہفتے رونما ہوا وہ آفتاب احمد جو ایم کیو ایم کے کوآرڈینیٹر یعنی رابطہ کار کے پاؤں میں ڈرل کا رونما ہونا اس نے رینجرز کی اعلیٰ کارکردگی کو پستی کا رنگ دے دیا اور ایم کیو ایم کو ایک اخلاقی بلندی کا جواز مہیا کیا جس کی ایک مثال مصطفیٰ کمال کا قافلہ ہے جو سکھر میں پتھراؤ کا شکار ہوا اور اب اس قسم کے واقعات کے مزید امکانات ہیں کیونکہ یہ ردعمل کی ایک شکل ہے جب کہ رینجرز کی جانب سے یہ توقع نہ تھی یہ بھی رینجرز کی جانب سے بدنظمی کا عمل ہے۔ ابھی اتوار ختم نہ ہوا کہ خرم ذکی جو ایک معروف سماجی کارکن تھے ان کو درندوں نے گولی کی نذر کر دیا اب مزید کیا ہو سکتا ہے ہماری تہذیب زوال کا شکار اور غروب کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں یہ انگریز کا تمدن ہے جس نے اپنے شہر کو صادق جیسا میئر عطا کیا اور ہم کرپٹ لیڈروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔