اصل دہشت گرد کون
ایک غریب ڈرائیورکے بیٹے نے لندن کا میئر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے
ایک غریب ڈرائیورکے بیٹے نے لندن کا میئر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے، ہم سب پاکستانی صادق خان کی اس عظیم فتح پر جتنا بھی فخرکریں کم ہے حالانکہ اس مہم کے دوران پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف زبردست زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا اور کھلے عام پاکستانیوں کو دہشت گرد کہا گیا۔ بدقسمتی سے صادق خان کے خلاف مہم میں ہمارے ایک سیاسی رہنما بھی شریک رہے مگر قابل داد ہیں لندن کے عوام کہ انھوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف تمام پروپیگنڈے کو دریائے ٹیمز میں بہا دیا اور ایک غریب کو ایک ارب پتی پر فوقیت دے دی۔
اس الیکشن نے جہاں اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا وہاں یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستانیوں پر مغربی میڈیا کی جانب سے اکثر دہشت گردی کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ مغربی میڈیا موقع پاکر پاکستان اور اسلام کے خلاف اپنی خوب بھڑاس نکالتا ہے اور فوراً پاکستان کو اقلیتوں کی قتل گاہ قرار دے دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی موجود ہے۔
مسلمان اقلیتی آبادی کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں اور اقلیتیں بھی مسلمانوں کے قدم بقدم خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ مگر واقعہ ہے کہ جب سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں کام شروع ہوا اور خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں اسلامی نظام کا بہت شہرہ ہوا تھا جب سے ہی مغربی میڈیا پاکستان سے سخت خائف چلا آرہا ہے اور تب سے ہی توہین آمیز واقعات رونما ہو رہے ہیں مگر اب دونوں ہی طبقے سمجھ چکے ہیں کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں چنانچہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام طبقات کو مشتعل ہونے کے بجائے صبر و تحمل اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان پر تو آئے دن نئے نئے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر بھارت جہاں اقلیتوں کا سرعام قتل عام کیا جا رہا ہے اور ان کی زندگیوں کو عذاب بنادیا گیا ہے اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا، تاہم خوش قسمتی سے ابھی دنیا حق وانصاف کی بات کرنیوالوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ امریکا میں قائم انسانی حقوق پر نظر رکھنے والا ایک ایسا ادارہ بھی ہے، جو بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونیوالے غیر انسانی سلوک پر نظر ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ اس سے دنیا کو آگاہ بھی کرتا ہے۔
وہ بھارتی حکومت کو بھی اقلیتوں کے ساتھ اس کے ناروا سلوک سے متنبہ کرکے اصلاح احوال کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ یہ ادارہ ''یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن اورانٹرنیشنل ریلیجنس فریڈم'' ہے اس کی تازہ رپورٹ برائے سال 2015 میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کی ہوش ربا تصویر کشی کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔''بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کا سلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے ،اقلیتوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے وہاں اقلیتوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔
اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان تشدد پسند تنظیموں کے خاموش حمایتی ہیں۔ ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے ان تنظیموں کے رہنما مذہبی جذبات کو مشتعل کرنیوالی زبان استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کا رویہ متعصبانہ ہے عدالتیں بھی تعصب سے پاک نہیں ہیں۔ اسی لیے اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں گزشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ہوئے ظلم و ستم اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے مذہبی جنونی ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کے خلاف کھل کر تقاریر کیں اور ان کی آبادی کو روکنے کے لیے نیا قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔
فروری 2015 میں آر ایس ایس کے اجلاس میں مسلمانوں کو شیطان کہا گیا اور انھیں برباد کرنے کی دھمکی دی گئی۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ جنونی ہندوؤں کی مسلم کش تقاریر اور پولیس کے یک طرفہ رویے کے عادی ہوچکے ہیں چنانچہ وہ اس طرح کے واقعات کی کم ہی شکایت درج کراتے ہیں۔ پولیس شدت پسندی کے الزام میں مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرکے مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیل میں رکھتی ہے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا معاشی نقصان تو ہو ہی رہا ہے اس کے علاوہ اس قانون کی خلاف ورزی کا بہانہ بناکر مسلمانوں کو پریشان ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ ہلاک بھی کردیا جاتا ہے۔ تبدیلی مذہب کے قانون کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دسمبر 2014 میں ہندو تنظیموں نے گھر واپسی پروگرام کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن اس معاملے پر اندرون اور بیرون ملک احتجاج اور ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس کو یہ پروگرام روکنا پڑا۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق 2015 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد میں سترہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ انھیں مذہب کی بنیاد پر ہندو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ حکومت چالاکی سے اسے دو دھڑوں کے درمیان واردات بتاتی ہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویے کے خلاف اپنی (امریکی) حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات میں مذہبی آزادی کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے ساتھ ہی بھارت میں امریکی سفارت خانے کی توجہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کی جانب مرکوز کرائی جائے۔
سفارت خانے کے حکام کو اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنے اور مقامی حکام سے ملاقات کرنے کا پابند کیا جائے۔ بھارتی حکومت کو کہا جائے کہ وہ پولیس اور عدالتی نظام کو انسانی حقوق کے قوانین کے سانچے میں ڈھالے ساتھ ہی اپنے ان کارکنان اور رہنماؤں کو روکے جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں۔ کمیشن نے مذہبی آزادی میں رکاوٹ کی بنیاد پر بھارت کو اس سال درجہ دوم میں رکھا اس کے ساتھ ہی کمیشن کا کہنا ہے کہ رواں سال بھی بھارت پر سخت نظر رکھے گا تاکہ فیصلہ کیا جاسکے کہ بھارت کو سخت تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا جائے کہ نہیں۔ اس کمیشن کی بار بار درخواست کے باوجود اس کی ٹیم کو بھارت آنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان مذہبی آزادی کے غیر متعصبانہ رویے کی وجہ سے اس کمیشن کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس الیکشن نے جہاں اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا وہاں یہ بھی ثابت کردیا کہ پاکستانیوں پر مغربی میڈیا کی جانب سے اکثر دہشت گردی کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ مغربی میڈیا موقع پاکر پاکستان اور اسلام کے خلاف اپنی خوب بھڑاس نکالتا ہے اور فوراً پاکستان کو اقلیتوں کی قتل گاہ قرار دے دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی موجود ہے۔
مسلمان اقلیتی آبادی کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں اور اقلیتیں بھی مسلمانوں کے قدم بقدم خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ مگر واقعہ ہے کہ جب سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں کام شروع ہوا اور خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں اسلامی نظام کا بہت شہرہ ہوا تھا جب سے ہی مغربی میڈیا پاکستان سے سخت خائف چلا آرہا ہے اور تب سے ہی توہین آمیز واقعات رونما ہو رہے ہیں مگر اب دونوں ہی طبقے سمجھ چکے ہیں کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں چنانچہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام طبقات کو مشتعل ہونے کے بجائے صبر و تحمل اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان پر تو آئے دن نئے نئے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر بھارت جہاں اقلیتوں کا سرعام قتل عام کیا جا رہا ہے اور ان کی زندگیوں کو عذاب بنادیا گیا ہے اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا، تاہم خوش قسمتی سے ابھی دنیا حق وانصاف کی بات کرنیوالوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ امریکا میں قائم انسانی حقوق پر نظر رکھنے والا ایک ایسا ادارہ بھی ہے، جو بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونیوالے غیر انسانی سلوک پر نظر ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ اس سے دنیا کو آگاہ بھی کرتا ہے۔
وہ بھارتی حکومت کو بھی اقلیتوں کے ساتھ اس کے ناروا سلوک سے متنبہ کرکے اصلاح احوال کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ یہ ادارہ ''یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن اورانٹرنیشنل ریلیجنس فریڈم'' ہے اس کی تازہ رپورٹ برائے سال 2015 میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کی ہوش ربا تصویر کشی کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔''بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کا سلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے ،اقلیتوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے وہاں اقلیتوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔
اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان تشدد پسند تنظیموں کے خاموش حمایتی ہیں۔ ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے ان تنظیموں کے رہنما مذہبی جذبات کو مشتعل کرنیوالی زبان استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کا رویہ متعصبانہ ہے عدالتیں بھی تعصب سے پاک نہیں ہیں۔ اسی لیے اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں گزشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ہوئے ظلم و ستم اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے مذہبی جنونی ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کے خلاف کھل کر تقاریر کیں اور ان کی آبادی کو روکنے کے لیے نیا قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔
فروری 2015 میں آر ایس ایس کے اجلاس میں مسلمانوں کو شیطان کہا گیا اور انھیں برباد کرنے کی دھمکی دی گئی۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ جنونی ہندوؤں کی مسلم کش تقاریر اور پولیس کے یک طرفہ رویے کے عادی ہوچکے ہیں چنانچہ وہ اس طرح کے واقعات کی کم ہی شکایت درج کراتے ہیں۔ پولیس شدت پسندی کے الزام میں مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرکے مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیل میں رکھتی ہے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا معاشی نقصان تو ہو ہی رہا ہے اس کے علاوہ اس قانون کی خلاف ورزی کا بہانہ بناکر مسلمانوں کو پریشان ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ ہلاک بھی کردیا جاتا ہے۔ تبدیلی مذہب کے قانون کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دسمبر 2014 میں ہندو تنظیموں نے گھر واپسی پروگرام کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن اس معاملے پر اندرون اور بیرون ملک احتجاج اور ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس کو یہ پروگرام روکنا پڑا۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق 2015 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد میں سترہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ انھیں مذہب کی بنیاد پر ہندو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ حکومت چالاکی سے اسے دو دھڑوں کے درمیان واردات بتاتی ہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویے کے خلاف اپنی (امریکی) حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات میں مذہبی آزادی کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے ساتھ ہی بھارت میں امریکی سفارت خانے کی توجہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کی جانب مرکوز کرائی جائے۔
سفارت خانے کے حکام کو اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنے اور مقامی حکام سے ملاقات کرنے کا پابند کیا جائے۔ بھارتی حکومت کو کہا جائے کہ وہ پولیس اور عدالتی نظام کو انسانی حقوق کے قوانین کے سانچے میں ڈھالے ساتھ ہی اپنے ان کارکنان اور رہنماؤں کو روکے جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں۔ کمیشن نے مذہبی آزادی میں رکاوٹ کی بنیاد پر بھارت کو اس سال درجہ دوم میں رکھا اس کے ساتھ ہی کمیشن کا کہنا ہے کہ رواں سال بھی بھارت پر سخت نظر رکھے گا تاکہ فیصلہ کیا جاسکے کہ بھارت کو سخت تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا جائے کہ نہیں۔ اس کمیشن کی بار بار درخواست کے باوجود اس کی ٹیم کو بھارت آنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان مذہبی آزادی کے غیر متعصبانہ رویے کی وجہ سے اس کمیشن کے زمرے میں نہیں آتا۔