نوشتۂ دیوار پڑھ لیں
مقصد معلوماتی یا عوام کو آگاہی فراہم کرنا نہیں ہوتا۔ ایسے میں گفتگو کیا ہوتی ہے
پی ٹی آئی کے جلسوں میں حالیہ ہنگامہ آرائی کے بارے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے نمایندے مختلف چینلز پر آکر جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں ان میں ان کا ذاتی رویہ اور نقطہ نظر مکمل طور پر محض سیاسی ہے، کسی نے بھی اس معاملے کو کسی دوسرے زاویے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ادھر ہمارے ذرایع ابلاغ کو بھی بس کوئی موقع ملنا چاہیے، جس پر مختلف الخیال سیاسی، مذہبی اور صحافتی نمایندوں کو بٹھاکر اپنے گھنٹہ بھر کے پروگرام کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے، جس کو محض خانہ پری ہی کہا جاسکتا ہے۔
مقصد معلوماتی یا عوام کو آگاہی فراہم کرنا نہیں ہوتا۔ ایسے میں گفتگو کیا ہوتی ہے؟ دراصل اپنی اپنی جماعت کے بارے میں پروپیگنڈہ اور دیگر جماعتوں کی خامیاں منظرعام پر لانا اور پھر جب مدمقابل خود ان کی خامیاں پیش کرے تو گفتگو تہذیب کے دائرے سے نکل کر دشنام و الزام تراشی کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جس موضوع کو زیر بحث لانا ہوتا ہے اس پر گھنٹہ بھر ضایع کرنے کے بعد بھی دور دور نہ کوئی حل سامنے آتا ہے اور نہ حقائق، غرض ہر اہم مسئلے کو سیاسی مخاصمت بڑھانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی تربیت کسی کا بھی نصب العین نہیں ہوتا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ غیر مہذبانہ رویے اور بدسلوکی کا تعلق ہے یہ کسی بھی پہلو سے سیاسی ہے اور نہ کسی جماعت کو سیاسی طور پر نیچا دکھانا اور خود کو بلند کرنے کا معاملہ ہے۔ یہ صورتحال ملکی اخلاقی سطح میں تیزی سے تنزلی کی عکاسی کررہی ہے۔ کچھ دیر کے لیے تصور کیجیے کہ کیا یہی صورتحال کسی دوسری سیاسی جماعت کے جلسوں میں پیش نہیں آسکتی؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب معاشرہ تہذیبی اقدار سے عاری ہوجائے تو پھر کسی کے بھی ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں اور ہر منفی و مثبت موقعے کو سیاسی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرنا خود نقادانِ سیاست کے حق میں زہر قاتل ہے۔
یہ درست ہے کہ اب تک ایسے غیر مہذبانہ قوم کا سر جھکانے والے واقعات پی ٹی آئی کے جلسوں میں رونما ہوئے اور دیگر جماعتوں نے اس صورتحال کو پی ٹی آئی کی تنظیمی کمزوری، اندرونی خلفشار، سیاسی بلوغت سے عاری ہونا، پی ٹی آئی قیادت کا غیر لچکدار اور جارحانہ رویہ وغیرہ سے تعبیر کیا ہے، اور اپنے بڑے بڑے جلسوں کو بطور پرامن جلسے پیش کیا۔ ہمیں اس موضوع پر صرف دو چینلز پر ہونے والی گفتگو سننے کا موقع ملا اسی کے تناظر میں یہ رائے قائم کی ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی اور چینل پر کسی اور پہلو کو بھی سامنے لایا گیا ہو۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے واقعات پر سیاسی فوائد حاصل کرنے اور اپنی کسی بھی جماعت کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے بجائے ہر ذی شعور، مہذب شہری بالخصوص سیاسی کارکنان، تجزیہ کار، صحافی حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس سے قبل سیاسی جلسوں میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کرتی رہی ہے مگر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا تو اب آخر اچانک ایسا کیوں ہورہا ہے؟
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ہمارے جلسوں کی مقبولیت سے خائف ہوکر مخالفین نے انھیں ناکام بنانے کے لیے غنڈہ عناصر کو بھیجا۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے اور اس کو ہماری ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے، کے باعث نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیاست داں ہی نہیں بلکہ وزرائے مملکت ہی سیاست کا مطلب ایک دوسرے پر الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنا سمجھتے ہوں، مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربے پر عمل پیرا ہوں تو کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہماری نظر میں اس صورت حال کا ایک اور بھی پہلو ہے۔
گزشتہ دنوں تحفظ حقوق نسواں بل پر ہمارے مذہبی رہنماؤں نے جو شور مچایا اور خواتین کے احترام و تحفظ کو ہی غیر اسلامی (اسلام سے متصادم) قرار دینے کے ببانگ دہل اعلان کیے، بلکہ کچھ نے تو خواتین کو تحفظ دینے کے حامیوں کو ''زن مرید'' ہونے کا طعنہ بھی دے ڈالا۔ ارشاد فرمایا گیا کہ ''کیا ہم نے ہاتھوں میں کنگن پہنے ہوئے ہیں'' یعنی خواتین پر تشدد کرنا بلاجواز، مختلف بہانوں سے قتل کرنا اصل مردانگی ہی نہیں بلکہ عین اسلام ہے (معاذ اﷲ)۔ ان بیانات سے ان کی ذہنی سطح اور اسلامی فلسفے سے واقفیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
تحفظ حقوق نسواں بل کی مذہبی انتہاپسند عناصر کی مخالفت کے علاوہ کئی مذہبی جماعتوں کی جانب سے بار بار یہ کہنا کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی ہر کوشش ناکام بنادی جائے گی۔ اور تو اور قیام پاکستان کے مخالف آج خود کو پاکستان کا جائز اور واحد وارث سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ تو کیا ایسے میں ہم (خواتین) یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ سب کچھ خواتین کو ہر شعبۂ زندگی سے نکال کر واپس گھروں میں بند کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ اب تو سعودیہ میں بھی خواتین رفتہ رفتہ مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ مگر ہمارے یہاں اسلامی مملکت کے نام پر جس خود ساختہ اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو کسی بھی طور اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
ملکی آبادی کے نصف سے زائد حصے کو ناکارہ بنا کر چار دیواری میں دھکیلنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس کے کامیاب ہونے کا تو ویسے بھی کوئی امکان نہیں ہے مگر جس تیزی سے مذہبی جنون اور انتہاپسندی کو فروغ دیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کچھ تفکرات تو ذہنوں میں ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو حقیقی اسلام کے داعی ہیں وہ کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں اور بجا سمجھتے ہیں کہ حق از خود کھل کر سامنے آتا ہے، باطل ہمیشہ سرنگوں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے مذہبی طبقے نے قوم کو اس قدر انتشار میں مبتلا کردیا ہے کہ جو اسلام کو نہ صرف دین برحق، ہر دور اور زمانے کا ترجمان، ترقی یافتہ، روشن خیال دین مانتے ہیں وہ بھی عملی زندگی میں تعصب، تنگ نظری اور رسم و رواج کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔
تحفظ حقوق نسواں بل نے تو گھر اجاڑے یا توڑے ہیں یا نہیں، البتہ مذہبی رہنماؤں کی مساعی جمیلہ نے گھر کے افراد کو مختلف الخیال اور مختلف مکاتب فکر میں ضرور تقسیم کردیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ تقسیم در تقسیم دیکھیے کہاں رکتی ہے؟
تو ہم جسے اسلام کے حقیقی مفہوم (روشن خیالی، غیر متعصب نقطہ نظر وغیرہ) کو سمجھنے والے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سب کچھ خواتین کو خوف زدہ کرکے گھروں میں بند کرنے کی کھلی سازش ہے تاکہ خواتین تمام معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکیں اور مردوں کے غیر قانونی جرگے معصوم لڑکیوں اور بے گناہ خواتین کو محض شک بلکہ صنفی تعصب کی بنیاد پر نہ صرف قتل کریں، بلکہ غیر اسلامی طریقے سے مردہ جسم کو نذر آتش بھی کردیں تو یہ ان کا اسلامی رویہ قرار پائے۔
مگر فطری تقاضوں کی خلاف ورزی کرنے والے خود ہی قادر مطلق کی جانب سے صفحۂ ہستی سے نابود کردیے جائیںگے۔ ایسے اسلام دشمن عناصر کان کھول کر سن لیں کہ اب خواتین اپنے دینی حقوق، مرتبے اور مقام سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں کوئی آپ کا بندوبست کرے نہ کرے یہ خود تمہیں تمہارے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیںگی۔ مگر افسوس تو کپتان صاحب پر ہوتا ہے کہ انھوں نے بجائے خواتین کی جلسوں میں شرکت کو یقینی بنانے اور ان کے تحفظ کا بہترین انتظام کرنے کے بجائے ان کی شرکت پر پابندی عائد کردی۔ اس عمل سے انھوں نے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کی دلی خواہش ہے کہ خواتین سیاست سے دستبردار ہوجائیں۔
مقصد معلوماتی یا عوام کو آگاہی فراہم کرنا نہیں ہوتا۔ ایسے میں گفتگو کیا ہوتی ہے؟ دراصل اپنی اپنی جماعت کے بارے میں پروپیگنڈہ اور دیگر جماعتوں کی خامیاں منظرعام پر لانا اور پھر جب مدمقابل خود ان کی خامیاں پیش کرے تو گفتگو تہذیب کے دائرے سے نکل کر دشنام و الزام تراشی کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جس موضوع کو زیر بحث لانا ہوتا ہے اس پر گھنٹہ بھر ضایع کرنے کے بعد بھی دور دور نہ کوئی حل سامنے آتا ہے اور نہ حقائق، غرض ہر اہم مسئلے کو سیاسی مخاصمت بڑھانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی تربیت کسی کا بھی نصب العین نہیں ہوتا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ غیر مہذبانہ رویے اور بدسلوکی کا تعلق ہے یہ کسی بھی پہلو سے سیاسی ہے اور نہ کسی جماعت کو سیاسی طور پر نیچا دکھانا اور خود کو بلند کرنے کا معاملہ ہے۔ یہ صورتحال ملکی اخلاقی سطح میں تیزی سے تنزلی کی عکاسی کررہی ہے۔ کچھ دیر کے لیے تصور کیجیے کہ کیا یہی صورتحال کسی دوسری سیاسی جماعت کے جلسوں میں پیش نہیں آسکتی؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب معاشرہ تہذیبی اقدار سے عاری ہوجائے تو پھر کسی کے بھی ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں اور ہر منفی و مثبت موقعے کو سیاسی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرنا خود نقادانِ سیاست کے حق میں زہر قاتل ہے۔
یہ درست ہے کہ اب تک ایسے غیر مہذبانہ قوم کا سر جھکانے والے واقعات پی ٹی آئی کے جلسوں میں رونما ہوئے اور دیگر جماعتوں نے اس صورتحال کو پی ٹی آئی کی تنظیمی کمزوری، اندرونی خلفشار، سیاسی بلوغت سے عاری ہونا، پی ٹی آئی قیادت کا غیر لچکدار اور جارحانہ رویہ وغیرہ سے تعبیر کیا ہے، اور اپنے بڑے بڑے جلسوں کو بطور پرامن جلسے پیش کیا۔ ہمیں اس موضوع پر صرف دو چینلز پر ہونے والی گفتگو سننے کا موقع ملا اسی کے تناظر میں یہ رائے قائم کی ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی اور چینل پر کسی اور پہلو کو بھی سامنے لایا گیا ہو۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے واقعات پر سیاسی فوائد حاصل کرنے اور اپنی کسی بھی جماعت کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے بجائے ہر ذی شعور، مہذب شہری بالخصوص سیاسی کارکنان، تجزیہ کار، صحافی حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس سے قبل سیاسی جلسوں میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کرتی رہی ہے مگر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا تو اب آخر اچانک ایسا کیوں ہورہا ہے؟
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ہمارے جلسوں کی مقبولیت سے خائف ہوکر مخالفین نے انھیں ناکام بنانے کے لیے غنڈہ عناصر کو بھیجا۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے اور اس کو ہماری ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے، کے باعث نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیاست داں ہی نہیں بلکہ وزرائے مملکت ہی سیاست کا مطلب ایک دوسرے پر الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنا سمجھتے ہوں، مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربے پر عمل پیرا ہوں تو کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہماری نظر میں اس صورت حال کا ایک اور بھی پہلو ہے۔
گزشتہ دنوں تحفظ حقوق نسواں بل پر ہمارے مذہبی رہنماؤں نے جو شور مچایا اور خواتین کے احترام و تحفظ کو ہی غیر اسلامی (اسلام سے متصادم) قرار دینے کے ببانگ دہل اعلان کیے، بلکہ کچھ نے تو خواتین کو تحفظ دینے کے حامیوں کو ''زن مرید'' ہونے کا طعنہ بھی دے ڈالا۔ ارشاد فرمایا گیا کہ ''کیا ہم نے ہاتھوں میں کنگن پہنے ہوئے ہیں'' یعنی خواتین پر تشدد کرنا بلاجواز، مختلف بہانوں سے قتل کرنا اصل مردانگی ہی نہیں بلکہ عین اسلام ہے (معاذ اﷲ)۔ ان بیانات سے ان کی ذہنی سطح اور اسلامی فلسفے سے واقفیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
تحفظ حقوق نسواں بل کی مذہبی انتہاپسند عناصر کی مخالفت کے علاوہ کئی مذہبی جماعتوں کی جانب سے بار بار یہ کہنا کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی ہر کوشش ناکام بنادی جائے گی۔ اور تو اور قیام پاکستان کے مخالف آج خود کو پاکستان کا جائز اور واحد وارث سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ تو کیا ایسے میں ہم (خواتین) یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ سب کچھ خواتین کو ہر شعبۂ زندگی سے نکال کر واپس گھروں میں بند کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ اب تو سعودیہ میں بھی خواتین رفتہ رفتہ مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ مگر ہمارے یہاں اسلامی مملکت کے نام پر جس خود ساختہ اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو کسی بھی طور اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
ملکی آبادی کے نصف سے زائد حصے کو ناکارہ بنا کر چار دیواری میں دھکیلنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس کے کامیاب ہونے کا تو ویسے بھی کوئی امکان نہیں ہے مگر جس تیزی سے مذہبی جنون اور انتہاپسندی کو فروغ دیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کچھ تفکرات تو ذہنوں میں ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو حقیقی اسلام کے داعی ہیں وہ کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں اور بجا سمجھتے ہیں کہ حق از خود کھل کر سامنے آتا ہے، باطل ہمیشہ سرنگوں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے مذہبی طبقے نے قوم کو اس قدر انتشار میں مبتلا کردیا ہے کہ جو اسلام کو نہ صرف دین برحق، ہر دور اور زمانے کا ترجمان، ترقی یافتہ، روشن خیال دین مانتے ہیں وہ بھی عملی زندگی میں تعصب، تنگ نظری اور رسم و رواج کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔
تحفظ حقوق نسواں بل نے تو گھر اجاڑے یا توڑے ہیں یا نہیں، البتہ مذہبی رہنماؤں کی مساعی جمیلہ نے گھر کے افراد کو مختلف الخیال اور مختلف مکاتب فکر میں ضرور تقسیم کردیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ تقسیم در تقسیم دیکھیے کہاں رکتی ہے؟
تو ہم جسے اسلام کے حقیقی مفہوم (روشن خیالی، غیر متعصب نقطہ نظر وغیرہ) کو سمجھنے والے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سب کچھ خواتین کو خوف زدہ کرکے گھروں میں بند کرنے کی کھلی سازش ہے تاکہ خواتین تمام معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکیں اور مردوں کے غیر قانونی جرگے معصوم لڑکیوں اور بے گناہ خواتین کو محض شک بلکہ صنفی تعصب کی بنیاد پر نہ صرف قتل کریں، بلکہ غیر اسلامی طریقے سے مردہ جسم کو نذر آتش بھی کردیں تو یہ ان کا اسلامی رویہ قرار پائے۔
مگر فطری تقاضوں کی خلاف ورزی کرنے والے خود ہی قادر مطلق کی جانب سے صفحۂ ہستی سے نابود کردیے جائیںگے۔ ایسے اسلام دشمن عناصر کان کھول کر سن لیں کہ اب خواتین اپنے دینی حقوق، مرتبے اور مقام سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں کوئی آپ کا بندوبست کرے نہ کرے یہ خود تمہیں تمہارے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیںگی۔ مگر افسوس تو کپتان صاحب پر ہوتا ہے کہ انھوں نے بجائے خواتین کی جلسوں میں شرکت کو یقینی بنانے اور ان کے تحفظ کا بہترین انتظام کرنے کے بجائے ان کی شرکت پر پابندی عائد کردی۔ اس عمل سے انھوں نے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کی دلی خواہش ہے کہ خواتین سیاست سے دستبردار ہوجائیں۔