دلیپ کمار… تصویر کا دوسرا رخ
میں برصغیرکے عظیم اداکار دلیپ کمارکی خدمات کا احوال پیش کررہا ہوں۔
میں برصغیرکے عظیم اداکار دلیپ کمارکی خدمات کا احوال پیش کررہا ہوں، جو دنیائے فن کی بلندیوں پر فائز ہیں اور Tragedy King مانے جاتے ہیں۔ وہ سیاستدان نہیں ہیں لیکن انھوں نے بحیثیت ایک اداکار اپنے ساتھی اداکاروں ، جس میں خواتین اداکارائیں بھی شامل ہیں کی ہمت افزائی اور تربیت کی۔ انھوں نے کبھی بھی یہ خیال نہیں کیا کہ کہیں کوئی اداکار آگے چل کر ان کے مدمقابل آجائے،اس لیے اس کی رہنمائی نہ کریں۔ اس موضوع پر بعد میں آتے ہیں، پہلے ان کی خدمات بحیثیت بمبئی کے شیرف کا احوال پیش کرتا ہوں۔
بمبئی اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں اچھی شہرت رکھنے والے شہریوں کوایک سال کے لیے شیرف کا اعزاز دیا جاتا ہے، جوکہ سیاسی نہیں ہوتا۔ شیرف کا کام اپنے شہرکی طرف سے غیر ملکی شخصیتوں کی آمد کے وقت ان کا استقبال کرنا، شہرکی سماجی سرگرمیوں میں شریک ہونا ہوتا ہے۔ انھیں اس اعزاز کی کئی دفعہ پیشکش کی گئی، لیکن انھوں نے اس خدشے کے پیش نظرکہ کہیں ان پر سیاسی یا سرکاری شخص ہونے کا ٹھپہ نہ لگ جائے، قبول کرنے سے معذرت کرتے رہے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنی اداکاری میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اس کام کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔
آپ کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ اتنے بڑے اداکارکی حیثیت میں وہ ایک وقت پر صرف ایک فلم میں ہی کام کرتے تھے، جس میں وہ دل لگا کر اداکاری کرتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ ایک دن جب وہ بمبئی سے باہر مہابلی ایشور نامی تفریحی مقام پر چھٹیاں منارہے تھے کہ ان کے ایک دوست نے انھیں نیند سے جگا کر بتایا کہ انھیں مہاراشٹرکے وزیراعلیٰ کی طرف سے شیرف مقررکیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا رد عمل دیتے، دوست نے ان سے کہا کہ انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے،کیونکہ ان کی تقرری کا اعلان ریڈیو پرکیا جاچکا ہے۔ مزید تصدیق کے لیے وہ ریڈیو سے خود یہ اعلان سن سکتے ہیں۔ واقعی یہی ہوا، ان کی تقرری کا اعلان ریڈیو سے ہورہا تھا۔
یہ دلیپ کمارکے عروج کا زمانہ تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ اپنے ملک کے مقبول ترین رہنما تھے، لیکن دلیپ کمار بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ہوا یہ کہ دونوں ایک ہی وقت ایک ہوائی اڈے پر ایک ہی اڑان سے اترے۔ زیادہ لوگ دلیپ کمارکے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ پنڈت نہرو بڑے زیرک سیاستدان تھے۔ وہ خود چل کر دلیپ کمار سے جا ملے۔ اس طرح اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔
دلیپ کمار نے بحیثیت شیرف 1سال کے دوران بڑھ چڑھ کر اپنے شہر کی خدمت کی۔ بمبئی کے ہوائی اڈے سے لے کر شہر کی ایک بڑی کچی آبادی، جسے وہاں کے اصطلاح میں جھونپڑ پٹی کہا جاتا ہے،اس میں واش روم بنوائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس جھونپڑپٹی کی آبادی توکافی ہے لیکن وہاں لوگوں کے رہن سہن کے لیے سہولیات کا فقدان رہا ہے، لیکن انتخابات میں پارٹیوں کو ووٹ ملتے ہیں، جیسا کہ ہمارے ملک میں بھی ہے۔ اس لیے کوئی بھی پارٹی وہاں سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جھونپڑپٹی کے رہائشی ایک بچے نے کون بنے گا کروڑ پتی کی طرز پر ایک مقابلے میں ایک کروڑ روپے کا انعام جیتا تھا، جس پر اردو اور انگریزی میں فلمیں بنی تھیں۔ انگریزی فلم کا نام تھا Slumdog Billionaire۔
اس کے علاوہ انھوں نے نابینا افرادکے لیے بھی کام کیا۔ ہوا یوں کہ انھیں فلم دیدارمیں نابینا ہیروکا کردار ادا کرنا تھا۔ انھوں نے ڈائریکٹر سے کہا کہ وہ کیمرے کے سامنے نابیناکا کردار کیسے نباہ سکیں گے۔ ڈائریکٹر نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ ریلوے اسٹیشن جائیں، جہاں انھیں ایک نابینا فقیر بیٹھا ملے گا، اس کی حرکات وسکنات کا بغورمشاہدہ کریں، انھوں نے وہاں جانا شروع کیا۔کچھ دنوں بعد وہاں ایک دوسرا نابینا فقیر بھی آکر بیٹھا۔ جب اس نابینا فقیر نے دلیپ کمار کو بولتے سنا تو پوچھا کہ تم کون ہو، تمہاری آواز تو ایک فلم کے اداکار سے ملتی جلتی ہے۔
دلیپ کمار نے اس فقیر سے پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میری آواز اس اداکار سے ملتی جلتی ہے؟ فقیر نے کہا میں نے وہ فلم دیکھی ہے۔ دلیپ کمار نے اس سے پوچھا کہ تم توآنکھوں سے نابینا ہو، تم نے اس اداکار کو دیکھا بھی نہیں تو اس کی آوازکیسے پہچانی؟ فقیر نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔ جناب، چیزیں صرف دیکھنے سے پہچانی نہیں جاتیں، دل کی آنکھوں سے دیکھی بھی جاتی ہیں اور حواس سے پہچانی بھی جاتی ہیں۔ اس دن سے دلیپ کمار کے دل میں آیا کہ وہ نابیناؤں کے بھلے کے لیے کوئی کام کریں۔
انھوں نے نابیناؤں کی ایک ایسوسی ایشن بنائی اوراس کے صدر بنے اوران کے لیے بریل کی کتابیں درآمد کیں اوردیگر سہولیات فراہم کیں۔ اب ان کے سامنے مسئلہ تھا کہ اس کام کے لیے عام لوگوں کوکیسے شامل کیا جائے؟ انھیں معلوم ہوا کہ سال میں ایک مرتبہ بمبئی ریلوے اسٹیشن سے پونا تک رگبی کے میچ کے لیے ایک اسپیشل ٹرین چلائی جاتی ہے۔ انھوں نے محکمہ ریلوے سے ایک اسپیشل ٹرین چلانے کی اجازت لی اوراس ٹرین کے ہر ڈبے میں جا کر مسافروں سے بالمشافہ ملے اوران سے اس نیک کام میں شامل ہونے کے لیے اپیل کی۔ لوگوں نے اس کام کو سراہا اور دل کھول کرچندہ دیا۔اس کام شروع کرنے سے پہلے انھوں نے خود 000 50 روپے کے چندے کا اعلان کیا۔ وہ اس کام کو ہر سال دہراتے رہے۔ جب بھی ملک میں قدرتی آفات آتیں تو اپنی اداکار برادری کواکٹھا کرکے وہاں پہنچتے۔
انھیں پشاور، جو کہ ان کی جنم بھومی ہے، سے ایک بلڈ بینک کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ اس وقت ضیاالحق صدر پاکستان تھے، انھوں نے دلیپ کمارکے اس دورے کو سرکاری دعوت میں تبدیل کردیا سب لوگوں کو سرکاری میزبانی کا شرف دیا۔ یہ سرکاری دعوت کسی بھارتی شخصیت کے لیے بڑی اہمیت اور اعزاز تھا۔ دلیپ کمارکو دوسری مرتبہ ضیاالحق نے پاکستان کے سب سے بڑے سِول اعزاز، نشان پاکستان سے نوازا اور انھیں پاکستان آکر وہ اعزاز لینے کی دعوت دی۔کچھ انتہا پسند لوگوں نے انھیں وہ اعزاز قبول کرنے کی مخالفت کی۔
انھوں نے وزیر اعظم اٹل بہار واجپائی سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے نہ صرف اجازت دی، بلکہ کہا کہ یہ نہ صرف دلیپ کمار کے لیے اعزاز ہے، بلکہ بھارت کے لیے بھی اور دلیپ کمار بھی یقینا اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ دلیپ کمارکا کہنا ہے کہ اعزاز لیتے وقت انھیں اپنے والد صاحب بہت یاد آئے، جن کی تمنا تھی کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں اور برطانیہ کا اعلیٰ اعزاز O.B.E (Order of the British Empire) حاصل کروں۔ البتہ دلیپ کمارکو اس بات کی خوشی تھی کہ یہ اعزاز بھی اس اعزازکے برابر تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دلیپ کمار اتنی مصروفیت کے باوجودکتابوں کے مطالعے کے بڑے شوقین ہیں۔کچھ دن پہلے ان کے طبیعت ناسازہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہ اسپتال میں داخل ہوئے، پھر سنبھلنے پر واپس اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ان کی تیمارداری ان کی بیوی سائرہ بانوکر رہی ہیں۔ انھوں نے سالہا سال تک برصغیر کے کروڑہا شائقین کی دلوں پر راج کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی زندگی میں آسانیاں عطا فرمائے ۔(آمین)