اشکِ ندامت

کوئی ہے جو اس کی رحمتوں میں داخل ہونے کے لیے اس کی طرف توجہ دینا چاہتا ہو!

کوئی ہے جو اس کی رحمتوں میں داخل ہونے کے لیے اس کی طرف توجہ دینا چاہتا ہو!:فوٹو : فائل

حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں ''جس گناہ کے بعد ندامت نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ گناہ اسلام سے باہر نہ کردے''

جب دل کی حالت یہ ہوجائے کہ وہ گناہ کے ارتکاب کے بعد ندامت کی اذیت سے دو چار نہ ہوجائے تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اصلاح کے مواقع ختم ہوچکے ہیں۔ ندامت تو ایک احساس ہے، اپنے رب کے روٹھ جانے کا اور جب دل سے یہ احساس ہی مٹ جائے تو اﷲ کی سخت اور اچانک پکڑ کا انتظار کیجیے۔

حضرت عقبہؓ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرمؐ کے حضور میں حاضر ہوا اور عرض کی ''نجات حاصل کرنے کا گُر کیا ہے'' آپؐ نے فرمایا کہ ''اپنی زبان پر قابو رکھ اور چاہیے کہ تیرے گھر میں تیرے لیے گنجائش ہو (یعنی تیرے ماں باپ، بیوی بچے تیری زبان کی سختی اور مزاج کی تلخی کی بنا پر تجھ سے نفرت نہ کریں) اور اپنے گناہوں پر رویا کر۔'' (ترمذی)

بنوامیہ کے پانچویں خلیفہ عبدالملک نے ایک دفعہ مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ سے کہا ''ابُو محمد! اب میری یہ حالت ہے کہ اچھا کام کرتا ہوں تو اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی اور اگر بُرا کام کرتا ہوں تو ندامت نہیں ہوتی''

اس پر حضرت سعید بن مسیبؒ نے فرمایا کہ ''اب تمہارا دل مکمل طور پر مرچکا ہے'' جب دل ہی مردہ ہوجائے تو اپنے گناہوں پر ندامت کیسی؟ ایسے میں اپنے رب کے روٹھ جانے کا احساس کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے اور جب احساس ہی نہیں تو توبہ کیسی ...؟ یہ در حقیقت ڈھٹائی کی انتہائی منزل ہے۔

انسان جب گناہ کا ارتکاب کرکے نادم ہوتا ہے اور توبہ کے لیے آنسو بہاتا ہے تو گویا وہ نیکی کی طرف لوٹ آتا ہے اور ایسے میں اﷲ تعالیٰ بھی اپنی ناراضی دور کرکے اپنے بندے کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

''بے شک اﷲ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا رحم فرمانے والا ہے۔'' (النساء)

نبی اکرمؐ نے فرمایا ''توبہ سے مراد یہ ہے کہ تم سے جب کوئی قصور سرزد ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔''

حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ کرتے دیکھا یعنی توبہ و استغفار کے کلمات زبان سے جلدی جلدی ادا کرتے دیکھا تو فرمایا کہ '' توبۃ الکذّابین'' یعنی بہت جُھوٹوں کی توبہ ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے چھے شرائط ہیں۔

(1) جو کچھ ہوچکا اس پر نادم ہو

(2) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر

(3) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر

(4) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ

(5) آئندہ کے لیے اس گناہ سے بچنے کا عزم کر


(6) اپنے نفس کو اﷲ کی اطاعت میں گُھلا دے (کشاف)

سورۃ النور آیت 31 میں اہل ایمان کو توبہ کی تاکید کی گئی ہے۔ ''اے مومنو! تم سب مل کر اﷲ کے حضور میں توبہ کرو، توقع ہے تم فلاح پاؤگے۔''

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے گرتے ہوئے کاروبار، معاشی تنگ دستی اور لوگوں کی نظروں میں مسلسل گرتے ہوئے اپنے مقام کا اکثر رونا روتے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتے ہیں، اپنے وقار کے بخیے ادھڑتے دیکھتے ہیں، لاچاری اور مفلسی کے باعث خودکشی تک کے دروازے پر جا کھڑے ہوتے ہیں مگر توبہ کی جانب مائل ہونے کو ان مسائل کا حل نہیں سمجھتے۔ خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔

یاد رکھیے! اگر آپ اپنے حالات کو بدلنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو بدلیے۔ حالات خود بہ خود بدل جائیں گے۔ اپنے اندر کی اس سوچ کو بدلیے جو گناہ کو معمولی ثابت کرکے آپ کو ندامت کے دریا میں غوطہ زن نہیں ہونے دیتی۔ اپنے دل پر چڑھے اس سیاہ دھبے کو دور کیجیے، جس نے آپ کو توبہ کی جانب مائل ہونے ہی نہیں دیا۔

ارشادِ خداوندی ہے کہ ''ہرگز نہیں بل کہ در اصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔''

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ بنادیا جاتا ہے پھر جب وہ اس گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور توبہ و استغفار کی جانب مائل ہوتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مٹا کر اس کے دل کی صفائی کردی جاتی ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس نقطے کو بڑھا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ اس کے تمام دل پر چھا جاتا ہے اور پھر یہی وہ حالت ہوتی ہے جب بندے کے دل پر کوئی اچھی بات اثر نہیں کرتی، نماز اور قرآن کی تلاوت اس پر گراں گزرتی ہے۔

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں ''جب بندہ گناہ کے بعد توبہ کرتا ہے تو اس سے خدا کے ساتھ اس کی قربت میں اضافہ ہوتا ہے۔''

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرے۔ (مسلم)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐؐ نے فرمایا کہ اے لوگو! اﷲ کے حضور توبہ کرو، بے شک میں دن میں سو مرتبہ اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔

اپنی بری عادتوں اور گناہوں پر قائم رہتے ہوئے توبہ کی جانب مائل نہ ہونے کا ایک سبب نفس کا یہ فریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ تو بہت غفورُالرحیم ہے، ہم جو کچھ بھی سیاہ و سفید کریں وہ اپنی رحمت سے کام لیتے ہوئے معاف کر ہی دے گا۔ حالاں کہ حدیث میں آیا ہے کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور بے وقوف و بدنصیب وہ ہے جو نفس کو خواہشات کے پیچھے لگائے اﷲ تبارک و تعالیٰ سے امیدیں باندھے۔ (ترمذی)

''اے پیغمبر! میری طرف سے لوگوں کو کہہ دو، اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اﷲ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، اﷲ تعالیٰ تو سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے قصور معاف فرماتا ہے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ خود بندے کو اپنی طرف بلاتے ہیں تاکہ وہ توبہ کرے، ارشاد باری تعالیٰ ہے '' پیغمبروں نے کہا، کیا (تم کو) اﷲ (کے بارے) میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ بخش دے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں '' اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اگرچہ گناہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کی طرف وحی بھیجی ''اے داؤد! مجھ سے منہ پھیرنے والوں کو اگر یہ پتا ہوتا کہ میں کس طرح ان کا انتظار کرتا ہوں، کس قدر میں شفقت والا ہوں تو میری طرف پلٹنے کے شدت شوق کی وجہ سے مر رہے ہوتے''

کوئی ہے جو اس کی رحمتوں میں داخل ہونے کے لیے اس کی طرف توجہ دینا چاہتا ہو!
Load Next Story