صحرائے تھر میں پانی کا پہاڑ
نگر پارکر میں بارشوں کے بعد کارونجھر پہاڑی سلسلے پر بند بنا کر پانی کے بڑے ذخائر سے زراعت کو ممکن بنایا جارہا ہے۔
اگر آپ ضلع تھر پارکر کے لوگوں سے پوچھیں کہ انہیں کیا چاہئے تو اکثریت کا ایک ہی جواب ہوگا،
'' پانی'ُ
تھر پارکر سے دریا اتنی دور ہے کہ اس کی ہوا بھی یہاں نہیں پہنچتی ، قدرتی جھیلیں نہ ہونے کے برابر، کنووں کی اکثریت کڑوے پانی سے بھری ہے۔ اگر کسی کنویں میں میٹھا پانی نکل آئے تو پورا گاؤں اس کے اردگرد بس جاتا ہے اور ایسے کئی دیہات اس کے گواہ ہیں۔ لیکن اب بری خبر یہ ہے کہ تھر کے کنووں کا پانی فلورائیڈ کی بہتات اور سنکھیا ( آرسینک) سے آلودہ ہیں جن کے مضر اثرات بھی تھری عوام پر مرتب ہورہے ہیں۔
لیکن لاتعداد مسائل میں گھرے تھر میں جہاں بھوک ہے تو وہیں زراعت بھی موجود ہے۔ یہاں مفلسی ہے تو معدنیات اور سیاحت کے لاتعداد امکانات بھی ۔ لیکن ضروری ہے کہ یہاں میٹھے اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔۔ واضح رہے کہ تھر میں اب بھی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق پورا ضلع تھرپارکر کم تر سے شدید خشک سالی تک کا شکار ہے کیونکہ 98 فیصد بارشیں مون سون نظام کی محتاج ہیں جن کی آمد سے تھر میں زندگی کی لہر دوڑجاتی ہے اور یہاں موجود 50 لاکھ سے زائد مویشیوں کے لیے زندہ رہنے کی آس پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن نگر پارکر کے گاؤں ساڈورس کے ایک بوڑھے کسان سادن واس نے بتایا کہ گزشتہ 8،10 سال سے بارشوں کا معمول متاثر ہوا ہے۔
سادن واس نے بتایا کہ اس برس بھی صرف ایک بار بارش ہوئی ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ نگرپارکر میں جون کی بارش اگست میں ہوئی ہے یعنی بارش کا وقت بدل رہا ہے۔ اب اس حالت میں ہم کیا اُگائیں اور کیا کھائیں۔
اگر سادن کی یہ صدا پاکستانی زرعی ماہرین پڑھ رہے ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل ایسی فصلوں پر کام کرنا ہوگا جو کم برسات میں تیار ہوجائیں یا بارشوں کے وقت کے لحاظ سے فروغ پائیں جسے ' زراعتی کیلنڈر' کی تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو آب و ہوا میں تبدیلی سے سب سے ذیادہ متاثر ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
سادن واس سے کچھ دور بیٹھی ایک خاتون نے پانی کی اہمیت دہراتے ہوئے کہا کہ اگر پانی میسر آجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ خاتون نے پانی کے ساتھ ایک اور تقاضہ کردیا کہ اگر گاؤں میں لیڈی ڈاکٹر میسر آجائے تو یہ بڑی نعمت ہوگی۔
نگرپارکر میں پانی کا پہاڑ اور 'دولت ڈیم'
کراچی سے 460 کلومیٹر دور نگرپارکر میں ہی بھارتی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر 'کارونجھر' نامی پہاڑی سلسلے کی اطراف ریچارج ایبل یا ڈیلے ایکشن ڈیم کے معجزے دیکھ کر ہمیں تھر کے انسائیکلوپیڈیا علی نواز کھوسو مرحوم کے وہ الفاظ یاد آگئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کارونجھر ( سندھی زبان میں کالی دھاریوں والی) پہاڑیوں سے بارشوں کے بعد بہت پانی بہتا رہتا ہے ۔ اس پانی کو روک کر استعمال کیا جائے تو کم ازکم نگرپارکر میں انقلاب آجائے گا لیکن یہ قیمتی پانی بہہ کر رن کچ بھارت میں جاگرتا ہے۔
کارونجھر سلسلہ کئی کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور بارش ہونے کے بعد یہاں وقتی ندیاں بن جاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے پہاڑی کے دامن کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اس پر بندھ بناکر اس پانی کو روکا جاسکتا ہے۔ یہاں پہلا ڈیم 1994 میں ایک تنظیم بانہہ بیلی نے بنایا تھا جس نے نگرپارکر کی زرخیز لیکن پیاسی زمینوں پر زراعت کو ممکن بنادیا تھا۔ تھرکے لوگ اس ڈیم سے اتنے خوش ہوئے کہ اسے 'مایا' (دولت) ڈیم کا نام دیا تھا ۔
اب یہاں سندھ اسمال ڈیمز ڈویژن اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے کئی مقامات پر پانی کو روک کر چیک ڈیم بنائے گئے ہیں ۔ پانی جمع ہوکر دھیرے دھیرے زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے اور ڈیم سے کچھ فاصلے پر گہرے کنووں میں اسےجمع کرلیا جاتا ہے۔ بھر اس پانی سے یہاں کی مشہور آرگینک پیاز کے علاوہ، گندم ، چارہ ، باجرا اور دیگر اجناس اگائی جارہی ہیں۔
ایک ڈیم سے چند سو میٹر دور شنکر نامی شخص نے پیاز کی فصل اگائی ہے جہاں دور تک سبز پیاز موجود ہے۔ شنکر نے بتایا کہ 2 سال پہلے یہاں ڈیم نہ تھا اور نہ ہی فصل، لیکن اب ڈیزل سے چلنے والے واٹر پمپ کے ذریعے فصل کو سیراب کیا جارہا ہے۔ شنکرکے مطابق فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور یہ پیاز 4 لاکھ روپے میں فروخت ہوجائے گی۔
اس سے قریب ہی کاسبو مندر کے باہر ایک اور کسان نے بتایا کہ ڈیم بننے سے قبل وہ مزدوری کرتا تھا اور اب کھیتی باڑی کرکے پہلے سے 3 گنا زائد رقم کما رہا ہے۔
تھر دیپ رورل ڈیولمپنٹ پروگرام (ٹی آر ڈی پی ) نے بھی یہاں کئی ڈیم بنائے ہیں جو کارونجھر کو پانی کی پہاڑی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تنظیم سے وابستہ علی محمد جونیجو نے بتایا کہ اب تک کاسبو، سکھ پور اور سابو سنڑ کے مقام پر تین ڈیم ان کی تنظیم نے قائم کیے ہیں۔
' ڈیم سے پانی رس کر زیرِ زمین راستہ خود بناتا ہے اور ہر ایک ہزار فٹ کے فاصلے پر ایئر پاکٹ بنانے کے لیے پی وی سی پائپ لگائے گئے ہیں تاکہ پانی کی فراہمی جاری رہے۔ پھر یہ پانی ایک کنویں میں گرتا ہے جہاں سے اسے فصلوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔
علی محمد کے مطابق ایک مقام پر 2 سال سے فصلوں کو پانی دیا جارہا ہے اور پانی اب بھی موجود ہے ۔ پہلے یہاں زمین کی قیمت 35 ہزار روپے فی ایکڑ تھی جو اب بڑھ کرایک لاکھ روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے۔
ایک ڈیم کی سیدھ میں ایک ہی مقام پر ایسے 10 کے قریب کنویں موجود ہیں جو کیچ ڈیم سے پانی کھینچ کر نگرپارکر کو سبزہ اور خوراک دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کنویں ٹھیکے پر ہیں جس کے بدلے کسانوں سے ایک سال میں 50 ہزار سے ایک لاکھ کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔ اس طرح کسانوں کے ساتھ کنویں کے مالکان بھی اچھی رقم کمارہے ہیں۔
ماحولیات اور بارانی علاقہ جات کے ماہر نوراحمد جھانجی کے مطابق کارونجھر پہاڑی سلسلے میں بارش کے بعد 16 کے قریب چشمے سے پھوٹ پڑتے ہیں جنہیں انہوں نے ندی کا نام دیا ہے۔ ان میں سے گردھورو اور بٹھیانی ندی پر ڈیم بنے ہوئے ہیں اور مشہور ندیوں میں ماؤ، مدرو، سدرن، مالجی ، کاسبو، مہرو کولہی ، سوراچند اور دیگر شامل ہیں۔
ںور احمد کے مطابق پہاڑ کے شمال مشرقی حصے پر بارش کا پانی زیادہ بہتا ہے اور وہاں مزید ڈیم بن سکتے ہیں لیکن اس سے قبل پانی کے بہاؤ سمیت مکمل تحقیق کرنا ہوگی کیونکہ زیادہ بارشوں کی صورت میں ڈیم ٹوٹ کر آبادی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں جس کی ایک مثال کیری تاس ڈیم تھا جو پانی کے دباؤ سے ٹوٹ گیا تھا۔
سندھ اسمبلی میں 4 فروری 2014 کو ہونے والی کارروائیوں کے نوٹس میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بتایا تھا کہ کیرتھر پہاڑی سلسلے یعنی کوہستان اور نگرپارکر میں کم ازکم 101 مقامات پر ایسے ہی چھوٹے ٹیم بنائے جاسکتے ہیں ۔ اسی اجلاس میں نگرپارکر میں مزید ڈیم بنانے پربھی زوردیا گیا تھا۔
'' پانی'ُ
تھر پارکر سے دریا اتنی دور ہے کہ اس کی ہوا بھی یہاں نہیں پہنچتی ، قدرتی جھیلیں نہ ہونے کے برابر، کنووں کی اکثریت کڑوے پانی سے بھری ہے۔ اگر کسی کنویں میں میٹھا پانی نکل آئے تو پورا گاؤں اس کے اردگرد بس جاتا ہے اور ایسے کئی دیہات اس کے گواہ ہیں۔ لیکن اب بری خبر یہ ہے کہ تھر کے کنووں کا پانی فلورائیڈ کی بہتات اور سنکھیا ( آرسینک) سے آلودہ ہیں جن کے مضر اثرات بھی تھری عوام پر مرتب ہورہے ہیں۔
لیکن لاتعداد مسائل میں گھرے تھر میں جہاں بھوک ہے تو وہیں زراعت بھی موجود ہے۔ یہاں مفلسی ہے تو معدنیات اور سیاحت کے لاتعداد امکانات بھی ۔ لیکن ضروری ہے کہ یہاں میٹھے اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔۔ واضح رہے کہ تھر میں اب بھی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق پورا ضلع تھرپارکر کم تر سے شدید خشک سالی تک کا شکار ہے کیونکہ 98 فیصد بارشیں مون سون نظام کی محتاج ہیں جن کی آمد سے تھر میں زندگی کی لہر دوڑجاتی ہے اور یہاں موجود 50 لاکھ سے زائد مویشیوں کے لیے زندہ رہنے کی آس پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن نگر پارکر کے گاؤں ساڈورس کے ایک بوڑھے کسان سادن واس نے بتایا کہ گزشتہ 8،10 سال سے بارشوں کا معمول متاثر ہوا ہے۔
سادن واس نے بتایا کہ اس برس بھی صرف ایک بار بارش ہوئی ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ نگرپارکر میں جون کی بارش اگست میں ہوئی ہے یعنی بارش کا وقت بدل رہا ہے۔ اب اس حالت میں ہم کیا اُگائیں اور کیا کھائیں۔
اگر سادن کی یہ صدا پاکستانی زرعی ماہرین پڑھ رہے ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل ایسی فصلوں پر کام کرنا ہوگا جو کم برسات میں تیار ہوجائیں یا بارشوں کے وقت کے لحاظ سے فروغ پائیں جسے ' زراعتی کیلنڈر' کی تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو آب و ہوا میں تبدیلی سے سب سے ذیادہ متاثر ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
سادن واس سے کچھ دور بیٹھی ایک خاتون نے پانی کی اہمیت دہراتے ہوئے کہا کہ اگر پانی میسر آجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ خاتون نے پانی کے ساتھ ایک اور تقاضہ کردیا کہ اگر گاؤں میں لیڈی ڈاکٹر میسر آجائے تو یہ بڑی نعمت ہوگی۔
نگرپارکر میں پانی کا پہاڑ اور 'دولت ڈیم'
کراچی سے 460 کلومیٹر دور نگرپارکر میں ہی بھارتی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر 'کارونجھر' نامی پہاڑی سلسلے کی اطراف ریچارج ایبل یا ڈیلے ایکشن ڈیم کے معجزے دیکھ کر ہمیں تھر کے انسائیکلوپیڈیا علی نواز کھوسو مرحوم کے وہ الفاظ یاد آگئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کارونجھر ( سندھی زبان میں کالی دھاریوں والی) پہاڑیوں سے بارشوں کے بعد بہت پانی بہتا رہتا ہے ۔ اس پانی کو روک کر استعمال کیا جائے تو کم ازکم نگرپارکر میں انقلاب آجائے گا لیکن یہ قیمتی پانی بہہ کر رن کچ بھارت میں جاگرتا ہے۔
کارونجھر سلسلہ کئی کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور بارش ہونے کے بعد یہاں وقتی ندیاں بن جاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے پہاڑی کے دامن کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اس پر بندھ بناکر اس پانی کو روکا جاسکتا ہے۔ یہاں پہلا ڈیم 1994 میں ایک تنظیم بانہہ بیلی نے بنایا تھا جس نے نگرپارکر کی زرخیز لیکن پیاسی زمینوں پر زراعت کو ممکن بنادیا تھا۔ تھرکے لوگ اس ڈیم سے اتنے خوش ہوئے کہ اسے 'مایا' (دولت) ڈیم کا نام دیا تھا ۔
اب یہاں سندھ اسمال ڈیمز ڈویژن اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے کئی مقامات پر پانی کو روک کر چیک ڈیم بنائے گئے ہیں ۔ پانی جمع ہوکر دھیرے دھیرے زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے اور ڈیم سے کچھ فاصلے پر گہرے کنووں میں اسےجمع کرلیا جاتا ہے۔ بھر اس پانی سے یہاں کی مشہور آرگینک پیاز کے علاوہ، گندم ، چارہ ، باجرا اور دیگر اجناس اگائی جارہی ہیں۔
ایک ڈیم سے چند سو میٹر دور شنکر نامی شخص نے پیاز کی فصل اگائی ہے جہاں دور تک سبز پیاز موجود ہے۔ شنکر نے بتایا کہ 2 سال پہلے یہاں ڈیم نہ تھا اور نہ ہی فصل، لیکن اب ڈیزل سے چلنے والے واٹر پمپ کے ذریعے فصل کو سیراب کیا جارہا ہے۔ شنکرکے مطابق فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور یہ پیاز 4 لاکھ روپے میں فروخت ہوجائے گی۔
اس سے قریب ہی کاسبو مندر کے باہر ایک اور کسان نے بتایا کہ ڈیم بننے سے قبل وہ مزدوری کرتا تھا اور اب کھیتی باڑی کرکے پہلے سے 3 گنا زائد رقم کما رہا ہے۔
تھر دیپ رورل ڈیولمپنٹ پروگرام (ٹی آر ڈی پی ) نے بھی یہاں کئی ڈیم بنائے ہیں جو کارونجھر کو پانی کی پہاڑی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تنظیم سے وابستہ علی محمد جونیجو نے بتایا کہ اب تک کاسبو، سکھ پور اور سابو سنڑ کے مقام پر تین ڈیم ان کی تنظیم نے قائم کیے ہیں۔
' ڈیم سے پانی رس کر زیرِ زمین راستہ خود بناتا ہے اور ہر ایک ہزار فٹ کے فاصلے پر ایئر پاکٹ بنانے کے لیے پی وی سی پائپ لگائے گئے ہیں تاکہ پانی کی فراہمی جاری رہے۔ پھر یہ پانی ایک کنویں میں گرتا ہے جہاں سے اسے فصلوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔
علی محمد کے مطابق ایک مقام پر 2 سال سے فصلوں کو پانی دیا جارہا ہے اور پانی اب بھی موجود ہے ۔ پہلے یہاں زمین کی قیمت 35 ہزار روپے فی ایکڑ تھی جو اب بڑھ کرایک لاکھ روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے۔
ایک ڈیم کی سیدھ میں ایک ہی مقام پر ایسے 10 کے قریب کنویں موجود ہیں جو کیچ ڈیم سے پانی کھینچ کر نگرپارکر کو سبزہ اور خوراک دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کنویں ٹھیکے پر ہیں جس کے بدلے کسانوں سے ایک سال میں 50 ہزار سے ایک لاکھ کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔ اس طرح کسانوں کے ساتھ کنویں کے مالکان بھی اچھی رقم کمارہے ہیں۔
ماحولیات اور بارانی علاقہ جات کے ماہر نوراحمد جھانجی کے مطابق کارونجھر پہاڑی سلسلے میں بارش کے بعد 16 کے قریب چشمے سے پھوٹ پڑتے ہیں جنہیں انہوں نے ندی کا نام دیا ہے۔ ان میں سے گردھورو اور بٹھیانی ندی پر ڈیم بنے ہوئے ہیں اور مشہور ندیوں میں ماؤ، مدرو، سدرن، مالجی ، کاسبو، مہرو کولہی ، سوراچند اور دیگر شامل ہیں۔
ںور احمد کے مطابق پہاڑ کے شمال مشرقی حصے پر بارش کا پانی زیادہ بہتا ہے اور وہاں مزید ڈیم بن سکتے ہیں لیکن اس سے قبل پانی کے بہاؤ سمیت مکمل تحقیق کرنا ہوگی کیونکہ زیادہ بارشوں کی صورت میں ڈیم ٹوٹ کر آبادی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں جس کی ایک مثال کیری تاس ڈیم تھا جو پانی کے دباؤ سے ٹوٹ گیا تھا۔
سندھ اسمبلی میں 4 فروری 2014 کو ہونے والی کارروائیوں کے نوٹس میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بتایا تھا کہ کیرتھر پہاڑی سلسلے یعنی کوہستان اور نگرپارکر میں کم ازکم 101 مقامات پر ایسے ہی چھوٹے ٹیم بنائے جاسکتے ہیں ۔ اسی اجلاس میں نگرپارکر میں مزید ڈیم بنانے پربھی زوردیا گیا تھا۔