ڈاؤ یونیورسٹی کا ایک اوراعزاز سانپ کے زہرکے علاج کی ویکسین تیارکرلی گئی
اینٹی اسنیک ویکسین30مریضوں پر استعمال کی جائے گی، غیر ملکی ویکسین پاکستان میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی
ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پہلی بارسانپوں کے زہر سے اینٹی باڈیزویکسین تیارکرلی جو جانوروں پر تجربے کے بعد انسانوں پر بھی آزمائی جائے گی ، ویکسین ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا میں قائم کی جانے والی سیروبیالوجیکل لیبارٹری میں تیار کی گئی ہے جہاں مستقبل میں پولیو، فلو، ہیپاٹائٹس اور سگ گزیدگی کی بھی ویکسین تیارکی جاسکے گی۔
سانپوں سے نکالے جانے والے زہر کوگھوڑوں میں انجکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے جس کے بعدگھوڑوں کے جسم میں زہر کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیزنکالی جاتی ہے جس سے سانپ کے کاٹے کا علاج ممکن ہوگیا،یہ بات ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خان نے جمعرات کو یونیورسٹی میں پریس کانفرنس کے دوران بتائی ،اس موقع پر سیروبیالوجیکل اینمل لیب کے ڈاکٹر ضمیر احمد ،ڈاکٹرشوکت علی سمیت دیگر بھی موجود تھے، وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں کی ہدایت سیروبیالوجیکل لیب قائم کی ہے جہاں سب سے پہلے سانپ کے کاٹے کے علاج کی ویکیسن (اینٹی اسینک) تیار کی ۔
انھوں نے بتایا کہ ویکسین ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور عالمی ادارہ صحت کے پروٹوکول کے مطابق تیار کرلی گئی جانوروں پر کامیاب ٹرائل بھی مکمل کرلیے اب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے انسانوں پر ٹرائل کی اجازت دیدی ہے ، انھوں نے کہاکہ ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے سرتوڑ کوششوں کے باوجود پہلی بار پاکستان میں پائے جانے والے مختلف سانپوں کے زہر سے ویکسین تیار کرنے کا اعزازحاصل کرلیا ہے انھوں نے کہاکہ تیار کی جانے والی اینٹی اسینک ویکسین 30مریضوں پر استعمال کی جائیگی ۔
اگست میں تھر اور ملحقہ علاقوں مین سانپ کے کاٹے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے ، اگست سے یونیورسٹی کے ماہرین تھر کے علاقوں میں جاکر متاثرہ افراد کو ویکسین لگائیں گے، انھوں نے کہاکہ اینٹی اسینک ویکسین کا پہلا تجربہ گھوڑوں ، چوہوں اور دیگر جانوروں پر کیا گیا جو کامیاب رہا ،پروفیسر مسعوحمید کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سانپ ویکسین پاکستان میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں پائے جانے والے سانپ پاکستان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ان کے زہر سے تیار کی جانے والی ویکسین پاکستان میں زیادہ کامیاب نہیں رہی اس لیے ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں کے زہر سے ویکسین تیار کرلی ہے جو ایک یونیورسٹی کے لیے اعزاز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسن سے سالانہ ہزاروں افراد کی جانیں بچائی جاسکیںگی ، یونیورسٹی سالانہ 30ہزار ویکسین بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ،سندھ میں سالانہ 3ہزار افراد سانپ کے کاٹے سے متاثرہوتے ہیں ان میں سے بیشتر لقمہ اجل بھی ہوجاتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین صرف 6سو روپے میں دستیاب ہوگی ،پروفیسر مسعود حمید خان نے ڈرگ ریگولیٹری اتھاڑتی پاکستان کی رہنمائی کو سراہتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس وقت ڈرگ ریگولیٹری اتھاڑتی کے ضوابط کے مطابق دستاویزات تیارکی جاری ہیں،انھوں نے کہاکہ تجربہ کار ماہرین کی ایک ٹیم پروفیسر ڈاکٹر محمد مسرورکی سربراہی میں کلینکل ٹرائل کیلیے تیار ہے۔
سانپوں سے نکالے جانے والے زہر کوگھوڑوں میں انجکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے جس کے بعدگھوڑوں کے جسم میں زہر کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیزنکالی جاتی ہے جس سے سانپ کے کاٹے کا علاج ممکن ہوگیا،یہ بات ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خان نے جمعرات کو یونیورسٹی میں پریس کانفرنس کے دوران بتائی ،اس موقع پر سیروبیالوجیکل اینمل لیب کے ڈاکٹر ضمیر احمد ،ڈاکٹرشوکت علی سمیت دیگر بھی موجود تھے، وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں کی ہدایت سیروبیالوجیکل لیب قائم کی ہے جہاں سب سے پہلے سانپ کے کاٹے کے علاج کی ویکیسن (اینٹی اسینک) تیار کی ۔
انھوں نے بتایا کہ ویکسین ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور عالمی ادارہ صحت کے پروٹوکول کے مطابق تیار کرلی گئی جانوروں پر کامیاب ٹرائل بھی مکمل کرلیے اب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے انسانوں پر ٹرائل کی اجازت دیدی ہے ، انھوں نے کہاکہ ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے سرتوڑ کوششوں کے باوجود پہلی بار پاکستان میں پائے جانے والے مختلف سانپوں کے زہر سے ویکسین تیار کرنے کا اعزازحاصل کرلیا ہے انھوں نے کہاکہ تیار کی جانے والی اینٹی اسینک ویکسین 30مریضوں پر استعمال کی جائیگی ۔
اگست میں تھر اور ملحقہ علاقوں مین سانپ کے کاٹے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے ، اگست سے یونیورسٹی کے ماہرین تھر کے علاقوں میں جاکر متاثرہ افراد کو ویکسین لگائیں گے، انھوں نے کہاکہ اینٹی اسینک ویکسین کا پہلا تجربہ گھوڑوں ، چوہوں اور دیگر جانوروں پر کیا گیا جو کامیاب رہا ،پروفیسر مسعوحمید کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سانپ ویکسین پاکستان میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں پائے جانے والے سانپ پاکستان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ان کے زہر سے تیار کی جانے والی ویکسین پاکستان میں زیادہ کامیاب نہیں رہی اس لیے ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں کے زہر سے ویکسین تیار کرلی ہے جو ایک یونیورسٹی کے لیے اعزاز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسن سے سالانہ ہزاروں افراد کی جانیں بچائی جاسکیںگی ، یونیورسٹی سالانہ 30ہزار ویکسین بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ،سندھ میں سالانہ 3ہزار افراد سانپ کے کاٹے سے متاثرہوتے ہیں ان میں سے بیشتر لقمہ اجل بھی ہوجاتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین صرف 6سو روپے میں دستیاب ہوگی ،پروفیسر مسعود حمید خان نے ڈرگ ریگولیٹری اتھاڑتی پاکستان کی رہنمائی کو سراہتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس وقت ڈرگ ریگولیٹری اتھاڑتی کے ضوابط کے مطابق دستاویزات تیارکی جاری ہیں،انھوں نے کہاکہ تجربہ کار ماہرین کی ایک ٹیم پروفیسر ڈاکٹر محمد مسرورکی سربراہی میں کلینکل ٹرائل کیلیے تیار ہے۔