کامیاب زندگی کے اسباق جو ہم دوسری مخلوقات سے سیکھ سکتے ہیں

بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو بڑے بڑے کام کرتے ہیں، بلکہ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو چھوٹے کاموں کو بڑے انداز میں کرتے ہیں۔


Syed Samar Ahmed November 18, 2012
ایک لیٹر شہد پیدا کرنے کے لیے نکھیوں کو مجموعی طور پہ تین لاکھ کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر کے یوتھ ٹرینرز (Youth Trainers) دیگر مخلوقات سے سیکھنے کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟

اس لیے کہ یہ درندے اور پرندے ، چوپائے اور دوپائے فطرت سے ہم رنگ ہیں۔ اور ہم آج مجموعی طور پہ فطرت سے بیگانہ ہیں۔ لہذا یہاں سے ہمیں وہ خالص مثالیں مل جاتی ہیں جو زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ لوگ اس نام نہاد مصروف زندگی کے جھمیلوں سے کٹ کر سکون کی تلاش میں کہیں پہاڑوں پہ جا بسیرا کرتے ہیں، یا جن کے گائوں ہوتے ہیں، وہ اُدھر کا رخ کرتے ہیں۔کوئی ساحل کی ریت کو ٹٹولتا، ہوا کے جھونکوں کو اپنے اندر دخل اندازی کی اجازت دیتا ہے اور پرسکون شور کو دم سادھے سنتا ہے۔

جو لوگ ان کاموں کو فضول گردانتے ہیں، وہ گویا مشین کی طرح زندگی کے دن کاٹتے ہیں۔ ایک طرح سے ان کے انسان ہونے کی حیثیت چھن جاتی ہے۔ گدھے کی طرح صبح سے شام کرنے کے عذاب سے گزرنے والے لوگ، بتدریج ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ فطرت کی آغوش میں جہاں انسان کو سکون ملتا ہے، وہاں کھلی آنکھوں سے دوسری مخلوقات کی زندگی کا مشاہدہ کرنے سے، بہت سے قیمتی اسباق بھی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مثالیں، جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، عام آدمی کی زندگی میں کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔

منتشرہدف:

ہرن شیر سے زیادہ تیز دوڑتا ہے۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ شیر بہ آسانی ہرن پر قابو پا لیتاہے۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ ماہرین بتاتے ہیں کہ ہرن دوڑتے ہوئے شیر کو دھوکا دینے کے لیے زگ زیگ دوڑتا ہے۔ بار بار نگاہوں کو پیچھے کی طرف بھی دوڑاتا ہے۔ اپنا اور شیر کا فاصلہ ماپتا ہے۔ یہ تینوں چیزیں ہرن کی اصل رفتار کو کم کر دیتی ہیں۔ جب کہ شیر ایک واضح ہدف کا پیچھا کر تا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بغیر منتشر ہوئے اپنے شکار کو جالیتا ہے۔ عملی زندگی میں بھی غیر واضح مقاصد لیے ہوئے آدمی کامیاب ہوتے نہیں دیکھے گئے۔ معمولی معمولی فائدوں پر اپنا وقت ضایع کردینے والے آخرکار حسرتوں سے ہی دوچار نظر آئے ہیں۔

منفی ذہنیت:

عام بات ہے کہ مکھی سارا جسم چھوڑ کے زخم پر بیٹھتی ہے۔ لیکن خاص بات ہے کہ ناکام آدمی کی بھی یہی نشانی ہوتی ہے۔ وہ زمانے کا شکوہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسے سب لوگ خراب اور فراڈ نظر آتے ہیں۔ وہ شر سے جہان کو بھرا دیکھتا ہے۔ اسے معاشرے میں کوئی خوبصورتی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ہر خیر سے مایوس نظر آتا ہے۔ ہر بھلی بات کرنے والے کو شک بھری طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے ہم سب کو واسطہ پڑتا ہے، جو خود کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور چاہتے بھی ہیں کہ سب کچھ بدل جائے۔ یہ لوگ ہر وقت زمانے اوررویوںکے شاکی نظر آتے ہیں۔ یہ مایوسی کے پیامبر اور تاریکی کے علمبردار ہوتے ہیں۔

غور کریں تو ہر وقت غصے کی آگ میں بھنتے یہ لوگ شہر میں آئی بیماری کا سب سے پہلا شکار بنتے ہیں، کیونکہ ان کا اعصابی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ دفاعی میکنزم بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جنہوں نے نیچے سے اوپر تک کا سفر کیا ہوتا ہے، بالعموم ٹھنڈے اور خوبصورت ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہر شر سے خیر برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پرسکون رہتے ہیں۔

اتفاق کی برکت:

شہد کی مکھیوں کے گھر کیا گھر ہوتے ہیں۔ زنان خانہ الگ، مردانہ خانہ الگ۔ ملکہ مکھی کا کمرہ الگ۔ تازہ ہوائوں کی گزرگاہ کمرے، ایک نقشہ کے مطابق بنے ہوئے۔ ایک ترتیب سے مرصع۔ نر کا کام الگ، مادہ کا الگ۔ کارکن کی ذمے داریاں علاحدہ، ملکہ کی الگ۔ ایک لیٹر شہد پیدا کرنے کے لیے مجموعی طور پہ تین لاکھ کلومیٹر کا سفر ۔ غلط پھول کا رس چوس کر آنے والی مکھی کو سزائے موت۔ اب اور کیا کہا جائے۔ یہ دنیا کی سب سے بہترین جراثیم کش دوا،غذا اور مٹھائی کا کارنامہ ہے۔

یہ معمولی معمولی مکھیاں جن کی عمر صرف چھے ماہ ہوتی ہے، محض مل جل کر کام کرنے کی وجہ سے ان حیران کن نتائج کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔کامیابی کی سمجھ رکھنے والے بھی سب صلاحیتیں خود حاصل کرلینے کے عادی نہیں ہوتے۔ یہ کام بانٹنے اور ٹیم بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ کوئی انسان سب کام نہیں کرسکتا۔ ہر انسان کو قدرت نے خاص صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے۔ لہذا اپنے اپنے کردار کو ہر کوئی اچھے انداز میں نبھائے تو ہی کسی خوش کن منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

خودغرضی:

کہا جاتا ہے کہٹھٹھرتے موسم میں جب کھانے کا قحط پڑ جاتا ہے تو بھیڑیوں کا معمول ہوتا ہے کہ رات کو دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف گھورتے اور غراتے رہتے ہیں۔ یہ زندگی موت کا مرحلہ ہوتا ہے۔ کسی کی آنکھ لگی اور وہ زندگی کی حد پار کرگیا۔ سب مل کر اسے بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔اس کی بوٹی بوٹی نچ جاتی ہے۔ خود غرضوں کی دنیا بھی اس سے کچھ الگ نہیں ہوتی۔ یہ سب بظاہر دوست درحقیقت مفاد کے غلام ہوتے ہیں۔ اعلی ظرفی ، ایثار، محبت، سخاوت، قربانی جیسی چیزیں ان کے نزدیک فضول باتوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ ان کا اندھا، لولالنگڑاعشق اور مذہب صرف اپنا مفاد ہوتا ہے۔ یہ دوسروں کو ذاتی مفاد کی عینک سے دیکھتے اور مسترد کرتے ہیں۔

ان میں سے ہر ایک پوری دنیا میں صرف خو د کو کا عقل مند سمجھتا ہے، اپنے آپ کو تیس مار خان گردانتا ہے۔ ہر دوسرے کی ٹانگ کھینچتا ہے اور اپنی ٹانگ کھنچواتا ہے ۔ سمجھتا ہے میں آگے بڑھتا ہوں مگر سب کے سب اپنی جگہ پستی میں موجود رہتے ہیں۔ با لکل اسی طرح جیسے کیکڑوں کو پکڑ کے کھلے منہ کے برتن میں رکھنے والوں کو ان کے بھاگنے کا ڈر نہیں ہوتا ۔کیونکہ جونہی کوئی آگے بڑھ کر نکلنا چاہتا ہے، دوسرا اس کی ٹانگ پکڑ کے کھینچ لیتا ہے اور نتیجہ یہ کہ سب وہیں ضلالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ روزمرہ کا معمول ہے کہ مرغی والا ہزار گرام کو نوسو گرام تول کے دیتا ہے اور سمجھتا ہے میں نے پیسے بچالیے۔

کپڑے والا اسی مرغی والے کو میٹر کی بجائے گز ناپ کے دیتا ہے، سمجھتا ہے میں نے پیسے بچالیے۔ دودھ والا اس کپڑے والے کو پانی ملا کے دودھ دیتا ہے، سمجھتا ہے میں نے پیسے بچا لیے۔ ڈاکٹر دودھ والے کی جیب پہ نظر رکھتا مرض پر نہیں، تو ہر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر سمجھتا ہے کہ میں آگے بڑھ رہا ہوں لیکن اس اپنی ٹانگ پیچھے سے کھینچی جارہی ہوتی ہے۔ تو مجموعی طور پر خود غرض معاشروں میں یہ ماحول بن جاتا ہے، وہی جو قحط کے وقت بھیڑیوں کا معمول ہوتا ہے۔

ایثار کی برکت:

ایک ایک غار میں کروڑوں چمگاڈر ہوسکتے ہیں۔ یہ رات کو فضائوں پہ راج کرتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے غذا اور جانوروں کا خون ان کا مشروب ہوتا ہے ۔ یہ روزانہ شام کو ایک طوفان کی صورت نکلتے ہیں، انسان ان کی کثرت تعداد ہی سے پریشان ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی کسی مجبوری کی بنا پہ نہ نکل سکے اور بھوکا مرنے لگے تو کوئی چمگاڈراپنا پیا گیا خون اس میں منتقل کر دیتا ہے اور اس کی زندگی بچالیتا ہے، یہ اس احسان کو نہیں بھولتے ۔ جب محسن پر ایسا سخت وقت آتا ہے تو یہ بھی اپنی محنت سے حاصل کیا گیا خون، اس کے جسم میں منتقل کرکے اس کی زندگی بچاتے ہیں۔ ایثار کہتے ہی اس کو ہیں کہ اپنی ضرورت قربان کرکے دوسرے کی ضرورت پوری کرنا۔ یہ لوگ انسانوں کا جوہر ہوتے ہیں، نہ خود ڈوبتے ہیں نہ کسی کو ڈوبنے دیتے ہیں۔

غیرت ہے بڑی چیز:

جب ہتھنی کے بچہ جننے کا وقت آتا ہے، تو عین اس لمحے کوئی نر ہاتھی اس کے قریب نہیں ہوتا۔ مادہ ہتھنیاں اس کے گرد گھیرا بنا لیتی ہیں۔ نر ہاتھی اس وقت میں تمام جنگل کا محاصرہ کر لیتے ہیں اور کسی جانور کو اس حد میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ہاتھی انسان دوست اور شریف ترین جانور سمجھا جاتاہے۔ اس دیو قامت غیور جانور سے شیر بھی ڈرتا ہے۔ یہ غیرت مند معزز جانور ہے۔ غیرت کے لفظ کو گالی بنانے والے جانیں کہ اس کا الٹ بے غیرتی ہوتا ہے، اور یہ منفی صفت انفرادی و اجتماعی، سیاسی و معاشی، معاشرتی و نفسیاتی سطح پر گہرئے اثرات مرتب کرتی ہے۔

یہ پابندیاں نہیں:

بے بی زرافہ پیدا ہوتے ہی نیچے گر تا ہے۔ معصوم ابھی دنیا میں آیاہی ہے ۔ ماں کو ترس آنے کی بجائے کیا غصہ آتا ہے کہ اسے مارنے لگتی ہے؟ اسے چوٹ بھی لگتی ہے اور زخم بھی آتے ہیں۔ ماں اسے زبردستی اٹھاتی اور اپنے سموں سے مارتی ہے۔ شاید نام نہاد رحم دل اسے شقاوت قرار دیں۔ لیکن محققین بتاتے ہیں کہ ایسا کرنا اس بچے کی زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔اگر نہ کیا جائے تو کچھ دیر میں جنگلی جانور اسے آکر کھا جائیں گے۔

گویا ماں اسے اپنے قدموں پہ کھڑا کرتی ہے۔ یہ ظلم نہیں عین عدل ہے۔ ایسے ہی بعض اوقات ہم نوجوان بڑوں کی باتوں اور کچھ پابندیوں کو جکڑبندی تصور کر لیتے ہیں۔ اسے آزادی کی راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ لیکن تجربہ کار لوگ ہمیں غلطیوں سے بچانے کے لیے اپنی کوشش کر تے ہیں۔ لہذا یہ نفرت نہیں بلکہ محبت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر سگریٹ ہمیں نقصان دیتا ہے تو یہ کہنا فضول ہے کہ پہلے تم چھوڑو پھر ہم چھوڑیں گے۔ پس دنیا کے اندھے پجاری نہ بنو۔ بلکہ اقبال کے مطابق ''اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے''

چھوٹی چیزیں حقیر نہیں:

میںاپنی ورکشاپس میں سوال کرتا ہوں، دنیا میں سب سے زیادہ جانی نقصان کس مخلوق نے پہنچایا ہے؟ لوگ کبھی تو انسان کا نام لیتے ہیں لیکن پھر مدعا سمجھ کر مختلف جواب دیتے ہیں۔ کچھ مچھر کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں،کچھ سانپ کو اور کچھ شیروں ، مگرمچھوں کو۔ میرا سوال ہوتا ہے کہ آخر ان سب کے نتیجے میں کتنے لوگ مرتے ہیں۔ شاید سال بھر میں چند ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ نقصان جراثیموں نے پہنچایا ہے۔ جو آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتے۔ مچھر بھی وائرس کا کیرئیر ہے، خود موت کا باعث نہیں۔ جانو کہ چھوٹی چیزیں غیر اہم نہیں ہوتیں۔ دوا تھوڑی ہوتی ہے، صحت بڑی لاتی ہے۔ انسان ٹھوکر ہمیشہ چھوٹے پتھروں سے کھاتا ہے، بڑوں سے تو ہر ایک بچ کے گزر جاتاہے۔ غلط فہمیاں عموما چھوٹی چھوٹی بظاہر غیر اہم باتوں کے بطن سے نکلتی اور زندگیاں برباد کر ڈالتی ہیں۔ بڑے بڑے کام سب باقاعدہ منصوبہ بندی سے کر لیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام نظر انداز کر دیتے ہیں، اور یہی انھیں لے ڈوبتے ہیں۔ اس لیے معمولی نظر آنے والے کاموں پہ توجہ دینا اور ایکسیلنس کی جدوجہد کرنا کامیابی کی ضمانت دیتی ہیں۔

میرے استاد حسن ایم جعفری نے پوچھا، ''بڑے لوگ کون ہوتے ہیں؟'' ''جو بڑے بڑے کام کرتے ہیں، جیسے قائد اعظم، علامہ اقبال۔'' میں نے جواب دیا۔ استاد نے فرمایا، ''یوں تو بڑے لوگ بہت کم ہو جائیں گے۔'' ''پھر آپ ہی بیان فرمائیں۔'' ارشاد ہوا، ''بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو بڑے بڑے کام کرتے ہیں، بلکہ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو چھوٹے کاموں کو بڑے انداز میں کرتے ہیں۔ جوتا پہننا، پانی پینا، کھانا کھانا، قرینے سے گفتگو کرنا ، مہذب خاموشی، باوقار چال، ان کی ہر ادا میں بڑا پن پایا جاتا ہے۔ یہ جھاڑو بھی دیتے ہیں تونفاست سے دیتے ہیں۔'' ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کثرت سے پان کھاتے ہیں لیکن ان کے دانت موتیوں کی طرح چمکتے ہیں اور کپڑوں پر کوئی داغ نہیں ہوتا۔ بات صرف سلیقے کی ہے۔ بس اب عظیم لوگ ڈھونڈو، اور عظمت کے راستوں کے مسافر بھی بنو۔ معمولی چیزوں کو بھی حقیر نہ جانو اور کامیاب ہوجائو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں