پہلی تنخواہ کا چیک
معاشی پریشانیوں سے آزاد نوجوانوں کو فضول خرچی کے بجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سب سے زیادہ خوشی نئی ملازمت کے ملنے کی ہوتی ہے، اور یہ خوشی دگنی ہوجاتی ہے جب پہلی تنخواہ کا چیک ہاتھ میں آتا ہے۔
خوشی و سرشاری کا وہ عالم کہ گویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ دوستوں کو ٹریٹ دی جاتی ہے اور یوں مہینے بھر کی محنت کی کمائی مہینے کے آغاز میں ہی ختم ہوجاتی ہے اور پھر عموماً نوجوانوں کو آفس آنے جانے اور دیگر اخراجات کے لیے حسب معمول امی سے پیسے لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
چوں کہ عموماً اس وقت نوجوانوں پرگھر کی ذمے داری نہیں ہوتی۔ والدین بھی گھر میں خرچہ دینے کے لیے زور نہیں دیتے۔ لہٰذا نوجوان بھرپور آزادی سے فضول خرچی کرتے ہیں جس کا احساس انھیں بعد میں ہوتا ہے۔
یہ فضول خرچی پہلی تنخواہ تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ ہر مہینے تنخواہ ملنے کے بعد فضول خرچی کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لڑکے شرٹس ، ٹی شرٹس ، گھومنا پھرنا، فاسٹ فوڈ اور ہوٹلنگ میں اپنی تنخواہ خرچ کرتے ہیں اور لڑکیاں بھی ملبوسات اور مصنوعی زیورات پر تنخواہ خرچ کرتی ہیں۔ یہ فضول خرچی ہے اور ہمیں فضول خرچی سے بچنا چاہیے۔
فی زمانہ مہنگائی میں یہ فضول خرچی کہاں کی عقلمندی ہے۔ اگر ابھی آپ پر کوئی ذمے داریاں نہیں ہیں۔ معاشی ذمے داریاں نہیں ہیں اور آپ ہر قسم کی مالی پریشانیوں سے آزاد ہیں تو اس وقت کو غنیمت جانئیں۔ یہ سنہری موقع ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ محض خواہشات ، شوق اور آسائشوں کے پیچھے پیسہ برباد کرنا کہاں کی دانش مندی ہے، مثلاً اگر موبائل فون ہے تو عموماً نوجوانوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ تنخواہ ملتے ہی نیا ماڈل کا موبائل فون سیٹ لیا جائے۔
اگر کمپیوٹر ہے تولیپ ٹاپ لیا جائے حالاں کہ لیپ ٹاپ کی ضرورت صرف ان افراد کو ہوتی ہے جو کمپیوٹر پر دن رات کام کرتے ہیں، جن کو سفر کے دوران کمپیوٹر کی ضرورت رہتی ہے، عام طور پر سب کو اس طرح سے لیپ ٹاپ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ فی زمانہ نوجوانوں میں مہنگے ترین موبائل سیٹ اور لیپ ٹاپ نمود نمائش کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ہمیں اس دکھاوے کی دوڑ کا حصہ نہیں بننا۔ ہمیں اپنے اپنے مستقبل، اپنے والدین کی ذمے داریوں اور دکھی انسانیت کے متعلق سوچنا ہے اورمحض سوچنا ہی نہیں عمل بھی کرنا ہے۔
ہمیں بچپن سے بچت کرنے اور پیسے جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مٹی کے چھوٹے سے گلک میں اپنی جیب خرچ اور عیدی کو جمع کرتے رہتے اور پھر جب وہ بھرجایا کرتا تو اس کو توڑ کر اس میں سے پیسے نکالتے اور حسب خواہش کوئی بڑا کھلونا، کتاب یا کھیل کا سامان وغیرہ خریدتے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اس عادت کو گویا گزرے زمانے کے قصوں کی مانند فراموش کردیتے ہیں۔ حالاں کہ آج اگر بچت کریں گے تو کل یہی بچت بہترین مستقبل کی ضمانت ہوگی اور معاشی پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔ فی زمانہ والدین بچوں کی شادی کے اخراجات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ آپ اپنی بچت سے والدین کی مدد کرسکتے ہیں، اپنے اخراجات خود برداشت کرسکیں گے۔
اپنی بچت سے سرمایہ کاری کرکے اس کو کئی گنا بڑھا بھی سکتے ہیں، مثلاً اپنی بچت کی رقم سے سونے کا کوئی زیور یا سونے کے سکے خرید کر رکھ دیں، کیوں کہ سونے کی قیمت دن بہ دن بڑھ رہی ہے لہٰذا بیچنے پر خاصی بڑی رقم ملے گی۔ اس کے علاوہ کسی کاروبار میں اپنی رقم لگاکر ماہانہ سود سے پاک منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرح کے بے شمار ایسے طریقے ہیں جن میں اپنی رقم لگاکر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے پاس رقم محفوظ نہیں رکھ سکتے، خرچ ہوجاتی ہے، تو آپ والدین کے پاس رکھوادیں یا کمیٹی ڈال دیں، اس طرح آپ کی رقم محفوظ رہے گی اور جمع ہوتی رہے گی۔
آخر میں ایک چھوٹی سی مگر اہم بات کہ اپنی تنخواہ میں ایک چھوٹا سا حصہ چاہے وہ چند روپوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو وہ غریب اور مستحق افراد کی مدد کے لیے ضرور مختص کریں۔ یہ بہت بابرکت عمل ہے اور اس عمل سے آپ کو جو سچی خوشی کا احساس ہوگا وہ پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی سے کئی گناہ بڑھ کر ہوگا، اور ان دنوں حالیہ سیلاب نے ہمارے دو کروڑ ہم وطنوں کو بے سروسامان کردیا ہے، وہ کھلے آسمان تلے بھوک پیاس کی شدت سے بے حال زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کی امداد کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ کوشش کیجیے اپنی تنخواہ سے ان کی مدد کیجیے کیوں کہ یہ بھی ایک سرمایہ کاری ہے۔یہ آخرت کی سرمایہ کاری ہے، یہ بہترین موقع ہے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی سرمایہ کاری کرلیجیے۔
اپنی تنخواہ میں سے ایک چھوٹا سا حصہ غریب اور مستحق افراد کیلئے مختص کریں، اس سے آپ کو خوشی اور رزق میں برکت ملے گی۔
خوشی و سرشاری کا وہ عالم کہ گویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ دوستوں کو ٹریٹ دی جاتی ہے اور یوں مہینے بھر کی محنت کی کمائی مہینے کے آغاز میں ہی ختم ہوجاتی ہے اور پھر عموماً نوجوانوں کو آفس آنے جانے اور دیگر اخراجات کے لیے حسب معمول امی سے پیسے لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
چوں کہ عموماً اس وقت نوجوانوں پرگھر کی ذمے داری نہیں ہوتی۔ والدین بھی گھر میں خرچہ دینے کے لیے زور نہیں دیتے۔ لہٰذا نوجوان بھرپور آزادی سے فضول خرچی کرتے ہیں جس کا احساس انھیں بعد میں ہوتا ہے۔
یہ فضول خرچی پہلی تنخواہ تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ ہر مہینے تنخواہ ملنے کے بعد فضول خرچی کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لڑکے شرٹس ، ٹی شرٹس ، گھومنا پھرنا، فاسٹ فوڈ اور ہوٹلنگ میں اپنی تنخواہ خرچ کرتے ہیں اور لڑکیاں بھی ملبوسات اور مصنوعی زیورات پر تنخواہ خرچ کرتی ہیں۔ یہ فضول خرچی ہے اور ہمیں فضول خرچی سے بچنا چاہیے۔
فی زمانہ مہنگائی میں یہ فضول خرچی کہاں کی عقلمندی ہے۔ اگر ابھی آپ پر کوئی ذمے داریاں نہیں ہیں۔ معاشی ذمے داریاں نہیں ہیں اور آپ ہر قسم کی مالی پریشانیوں سے آزاد ہیں تو اس وقت کو غنیمت جانئیں۔ یہ سنہری موقع ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ محض خواہشات ، شوق اور آسائشوں کے پیچھے پیسہ برباد کرنا کہاں کی دانش مندی ہے، مثلاً اگر موبائل فون ہے تو عموماً نوجوانوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ تنخواہ ملتے ہی نیا ماڈل کا موبائل فون سیٹ لیا جائے۔
اگر کمپیوٹر ہے تولیپ ٹاپ لیا جائے حالاں کہ لیپ ٹاپ کی ضرورت صرف ان افراد کو ہوتی ہے جو کمپیوٹر پر دن رات کام کرتے ہیں، جن کو سفر کے دوران کمپیوٹر کی ضرورت رہتی ہے، عام طور پر سب کو اس طرح سے لیپ ٹاپ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ فی زمانہ نوجوانوں میں مہنگے ترین موبائل سیٹ اور لیپ ٹاپ نمود نمائش کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ہمیں اس دکھاوے کی دوڑ کا حصہ نہیں بننا۔ ہمیں اپنے اپنے مستقبل، اپنے والدین کی ذمے داریوں اور دکھی انسانیت کے متعلق سوچنا ہے اورمحض سوچنا ہی نہیں عمل بھی کرنا ہے۔
ہمیں بچپن سے بچت کرنے اور پیسے جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مٹی کے چھوٹے سے گلک میں اپنی جیب خرچ اور عیدی کو جمع کرتے رہتے اور پھر جب وہ بھرجایا کرتا تو اس کو توڑ کر اس میں سے پیسے نکالتے اور حسب خواہش کوئی بڑا کھلونا، کتاب یا کھیل کا سامان وغیرہ خریدتے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اس عادت کو گویا گزرے زمانے کے قصوں کی مانند فراموش کردیتے ہیں۔ حالاں کہ آج اگر بچت کریں گے تو کل یہی بچت بہترین مستقبل کی ضمانت ہوگی اور معاشی پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔ فی زمانہ والدین بچوں کی شادی کے اخراجات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ آپ اپنی بچت سے والدین کی مدد کرسکتے ہیں، اپنے اخراجات خود برداشت کرسکیں گے۔
اپنی بچت سے سرمایہ کاری کرکے اس کو کئی گنا بڑھا بھی سکتے ہیں، مثلاً اپنی بچت کی رقم سے سونے کا کوئی زیور یا سونے کے سکے خرید کر رکھ دیں، کیوں کہ سونے کی قیمت دن بہ دن بڑھ رہی ہے لہٰذا بیچنے پر خاصی بڑی رقم ملے گی۔ اس کے علاوہ کسی کاروبار میں اپنی رقم لگاکر ماہانہ سود سے پاک منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرح کے بے شمار ایسے طریقے ہیں جن میں اپنی رقم لگاکر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے پاس رقم محفوظ نہیں رکھ سکتے، خرچ ہوجاتی ہے، تو آپ والدین کے پاس رکھوادیں یا کمیٹی ڈال دیں، اس طرح آپ کی رقم محفوظ رہے گی اور جمع ہوتی رہے گی۔
آخر میں ایک چھوٹی سی مگر اہم بات کہ اپنی تنخواہ میں ایک چھوٹا سا حصہ چاہے وہ چند روپوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو وہ غریب اور مستحق افراد کی مدد کے لیے ضرور مختص کریں۔ یہ بہت بابرکت عمل ہے اور اس عمل سے آپ کو جو سچی خوشی کا احساس ہوگا وہ پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی سے کئی گناہ بڑھ کر ہوگا، اور ان دنوں حالیہ سیلاب نے ہمارے دو کروڑ ہم وطنوں کو بے سروسامان کردیا ہے، وہ کھلے آسمان تلے بھوک پیاس کی شدت سے بے حال زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کی امداد کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ کوشش کیجیے اپنی تنخواہ سے ان کی مدد کیجیے کیوں کہ یہ بھی ایک سرمایہ کاری ہے۔یہ آخرت کی سرمایہ کاری ہے، یہ بہترین موقع ہے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی سرمایہ کاری کرلیجیے۔
اپنی تنخواہ میں سے ایک چھوٹا سا حصہ غریب اور مستحق افراد کیلئے مختص کریں، اس سے آپ کو خوشی اور رزق میں برکت ملے گی۔