میں نے موٹرسائیکل چھوڑ کر بس کا سفر کیوں شروع کیا

دوست نے کہا کہ تم بے وقوف ہو۔ جب گھر سے صرف ایک بس سیدھا دفتر جاتی ہے تو پھر موٹر سائیکل کا سفر کیوں ضروری ہے؟


ہم شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک اور آلودگی سے پریشان رہتے ہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں اِس مشکل حل صرف یہ ہے کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرلیا جائے۔

یہ کوئی آج سے 9 یا 10 سال پہلے کی بات ہے جب آخری مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کیا تھا۔ موٹر سائیکل کے مسلسل استعمال کی وجہ سے منی بس اور کوچوں کی سفری سہولیات و فوائد اور ان میں سفر کرنے والے افراد کی مشکلات کا اندازہ کرنا مشکل ہوچکا تھا۔ حدیث پاک کے مطابق سفر عذاب ایک ٹکڑا ہے اور اِس عذاب کا سامنا ہمیں گزشتہ ہفتے کرنے کا اتفاق ہوا، لیکن سوچتا ہوں کہ اگر اِس عذاب کا سامنا نہ ہوتا تو سکون و راحت کبھی میسر نہیں ہوتا۔ سکون و راحت پر اگر آپ پریشان ہیں تو اِس کی زحمت نہ کریں کہ وجوہات آگے بیان کی جارہی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ گھر سے دفتر جاتے ہوئے میری موٹر سائیکل خراب راستے میں ہی خراب ہوگئی اور اس دن مجھے سخت گرمی میں اپنے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل کو کئی کلومیٹر تک چلانا پڑا۔ ایسا کرنے کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ یہ جمعے کا دن تھا اور یہ دن مکینک کی چھٹی کا دن ہوتا ہے، جس وجہ سے مجبوراً مجھے پرانے گولی مار سے برنس روڈ تک کا سفر یونہی مشکل میں طے کرنا پڑا۔ بس جیسے تیسے کرکے موٹر سائیکل کو وہاں موجود جاننے والے مکینک کے حوالے کیا اور پریشانی کے عالم میں دفتر کے دوست کو بلالیا اور اُسی کے ساتھ ہی دفتر چلا گیا۔

یہ معاملہ تو بہرحال کسی طرح گزر ہی گیا لیکن پریشانی یہ تھی کہ جمعے کی وجہ سے موٹر سائیکل تو آج ٹھیک نہیں ہوسکے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ واپسی کا سفر بس میں کرنا ہے، بس یہی سوچ سوچ کر حالت خراب ہورہی تھی۔ خیر گھر تو جانا تھا۔ دفتر سے واپسی پر بھی ایک دوست کے تعاون سے کراچی کے مرکز ایمپریس مارکیٹ تک پہنچا اور طویل عرصے بعد ایک بس میں سوار ہوا۔ عجیب کیفیت تھی۔ بس کی تمام ہی سیٹیں بھری ہوئی تھی بلکہ کچھ افراد لائن سے بس کی چھت کے ساتھ لگے لوہے کے پائپ کو تھامے کھڑے تھے۔ پھر کیا تھا میں بھی ان کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر بعد ہاتھ میں پیسوں کی گٹھی پکڑے بکھرے بال، گندے سے شلوار قمیض میں ملبوس گٹکا کھاتا ہوا ایک شخص میرے قریب آیا۔ پہلے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آگے آگے ہوجاؤ اور پھر مجھ سے مخاطب ہوا کہ ہاں بھائی کرایہ نکالو۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ کرایہ کیا ہے لیکن پھر بھی 50 روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور اس کے ہاتھوں کی جانب دیکھنے لگا۔ اس نے بڑی مہارت سے میرا دیا ہوا 50 کا نوٹ 10 اور20 روپے کے نوٹوں کے پیچھے چھپا دیا اور پہلے 10 اور20 کا نوٹ نکالا اور جیب سے 5 روپے کا سکہ بھی نکال کر مجھے تھما دیا۔ میں نے 35 روپے اپنی جیب میں رکھے اور بس کی کھڑکی سے موٹرسائیکل سواروں کو حسرت سے دیکھنے لگا جو بڑی تیزی سے ہماری بس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ بہرحال بس کا سفر ختم ہوا اور گھر سے کچھ دور اترا اور پیدل ہی اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔



دوسرے دن ایک بار پھر بس میں سوار ہوکر موٹر سائیکل لینے مکینک کے پاس پہنچا تو اس نے ہماری پریشانیوں میں یہ کہہ کر ایک اور پریشانی کا اضافہ کردیا کہ موٹرسائیکل کا انجن سیز ہوچکا ہے۔ آپ سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے میں نے موٹر سائیکل کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کو دوبارہ سابقہ حالت میں لاسکتا ہوں لیکن اس کے لئے مجھے 2 دن کے ساتھ ساتھ 6 ہزار بھی درکار ہوں گے۔ میں ایک بار پھر اپنی حسرتوں کو دل میں لئے گھر کی جانب روانہ ہوگیا اور محلے میں پہنچ کر ایک دوست سے 2 دن کے لئے موٹر سائیکل کا تقاضہ کیا جس کا مثبت جواب ملا اور دوسرے دن صبح 9 بجے موٹر سائیکل دینے کا وعدہ بھی ہوگیا۔ اب آفس جانے کے لئے سواری کا بندوبست ہوچکا تھا لیکن پھر بھی دل ہی دل میں پریشان گھر کی جانب جارہا تھا کہ گھر کے قریب ایک اور دوست سے ملاقات ہوگئی۔ میری حالت غیر دیکھ کر میری خیریت دریافت کی اور پیدل چلنے کا سبب پوچھا۔ میں نے 2 دن کی کہانی 5 منٹ میں سنادی اور اپنے دوست کی ہمدرد نگاہوں کا منتظر ہوگیا۔ لیکن اس نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے بجائے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ تم کہاں جاتے ہو؟ دفتر کہاں ہے؟ میں نے جب اسے جواب میں اپنے دفتر کا پتہ بتایا تو اس نے ایک اور سوال کرڈالا کہ کیا تم دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کے علاوہ بھی کہیں رکتے ہو؟ کہیں جاتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں بھائی، سیدھا گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کی ہی راہ لیتا ہوں۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ اُس نے مجھے بلاتکلف 'بے وقوف' کا لقب دے دیا۔ میں حیران ہوکر اس کو دیکھنے لگا تو اس نے پھر کہا کہ تم بے وقوف ہو جب گھر سے صرف دفتر ہی جانا ہے تو پھر موٹر سائیکل کا سفر کیوں ضروری ہے؟ میں نے اس کا جواب دینے کے بجائے اس سے سوال کیا کہ پھر کیا کرنا چاہئے؟ اس نے کہا کہ بھیا یہاں سے سیدھا صرف ایک بس تمہارے دفتر جاتی ہے۔ اسی بس پر سوار ہوجاؤ اور گھر سے 2 منٹ کی مسافت پر اترجاؤ۔ ابتداء میں تو مجھے یہ ترکیب پسند نہ آئی کہ کون بس میں پریشان ہوتا رہے لیکن پھر سوچا کہ ایک دن ایسا کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ دوسرے روز بس پر جانے کی حامی بھرلی اور گھر چلا گیا۔ صبح اٹھا تو سب سے پہلے اپنے دوست کو فون کرکے موٹرسائیکل کا منع کردیا اور تیار ہوکر بس اسٹاپ پر چلا گیا۔ مطلوبہ بس پر سوار ہوا اور کرایہ لینے والے شخص کو 50 روپے کا نوٹ دے کر اپنی منزل کا نام لیا۔ جب اُس نے مجھے 30 روپے واپس کئے تو میں نے اپنی منزل کا ایک بار پھر نام لیا۔ اس نے غصے سے کہا کہ ہاں بھائی لے جائیں گے اگر تم پہلی بار جارہے ہو تو میں بتا دوں گا اتر جانا۔ میں پریشان اِس لیے نہیں تھا کہ مجھے اپنے دفتر کے بارے میں علم نہیں تھا، بلکہ حیران تو اس لیے تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی موٹر سائیکل کی ٹینکی میں ایک سو روپے کا پیٹرول ڈلواتا ہوں اور بس میں یہ خرچ گھٹ کر 40 روپے ہوگیا ہے۔ میں اپنی منزل پر تقریباً پونے گھنٹے میں پہنچ گیا۔ یہ امر بھی میرے لئے حیران کن تھا کیونکہ میں موٹرسائیکل پر تقریباً ایک گھنٹے میں پہنچتا تھا۔ بس کا تجربہ میں نے 3 دن تک دہرایا اور مجھے ایسا کرنے میں فائدہ نظر آیا۔ اب میں نے چھٹی کے دن مکینک سے موٹر سائیکل لی اور گھر جاکر کھڑی کردی اور مسلسل بس کا سفرشروع کردیا۔



یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اِس سے بڑا بھی المیہ اور کوئی ہوسکتا ہے کہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر کراچی اب تک پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہے۔ یہ اُس شہر کی بات ہورہی ہے جو کسی ملک کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ معاشی حب بھی ہے۔ سنا ہے مادہ پرست دنیا میں مال و دولت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن پاکستان وہ ملک ہے جو جہاں سے کماتا ہے وہیں سوراخ کرتا ہے۔ یہ شہر معاشی حب ہے اسی وجہ سے ملک بھر سے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے یہاں آتے ہیں، لیکن یہاں کی حکومتیں کمال ہیں، یہاں خرچ کرنے کے بجائے سونے کی مرغی سمجھ کر بس انڈے لیے جارہی ہے لیے جارہی ہے، لیکن اِس شہر نے بھی بڑا دل پایا ہے، اُف تک نہیں کرتا، بلکہ اِس آس پر انڈے دیے جارہا ہے دیے جارہا ہے کہ ایک دن آئے جب اِس کے آنسووں پر بھی کوئی رحم کھائے گا۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں مختلف روٹس پر اب سے کچھ عرصہ پہلے 20 ہزار بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی تھیں لیکن اب ان کی تعداد کم ہو کر 13 ہزار تک رہ گئی ہے، جو کراچی کے لاکھوں افراد کی آمد و رفت کیلئے انتہائی قلیل تعداد ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد 38 لاکھ ہے۔ اِس تمام تر پریشانی کے باوجود عوام کو کسی نہ کسی حد تک سہولت پہنچانے والے چنگچی رکشوں اور اس کے بعد سی این جی رکشوں پر حفاظتی وجوہات کی بناء پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ یعنی سہولت تو کوئی نہیں دینی، بلکہ جو سہولت ہے اُس سے بھی لے لیا جاتا ہے۔

ہم اکثر پریشان رہتے ہیں کہ شہر میں ٹریفک بہت ہوگیا ہے، آلودگی بڑھ گئی ہے، ناجانے اِس سے نجات کیسے ملے گی۔ میری ذاتی رائے میں اِس مشکل کا حل صرف یہ ہے کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرلیا جائے۔ یقین کریں کہ بڑھتی مہنگائی کی موجودگی میں کوئی یہ نہیں چاہتا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں روپے خرچ کرکے دفتر پہنچے۔ اگر اُن کو صاف ستھری ٹرانسپورٹ میسر ہوگی جو وقت پر منزل مقصود کو پہنچانے کا فریضہ انجام دے سکے تو اِس شہر کی اکثریت بسوں میں ہی سفر کرے گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ہوتا ہی یہ ہے کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا استعمال گھر سے بس اسٹاپ اور بس اسٹاپ سے گھروں تک کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔

اگر ایسا نظام یہاں بھی لے آیا جائے تو معاملات بہت خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔ ویسے عقل پر زور دیا جائے تو سابق ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کی نظامت کے دور میں شہر نے اچھی ٹرانسپورٹ کی صورت دیکھی تھی جب لوگ کم کرایوں میں ائیر کنڈیشنڈ بسوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں نے اپنی اپنی سروس چلائی کہ نعمت اللہ خان کی جانب سے چلائی جانے والی بہترین بسوں کو اڈوں پر کھڑا کرکے نئی بسیں سڑکوں پر لائی گئیں، لیکن ان دونوں ادوار میں لوگوں کو بہت حد تک سکون و راحت نصیب ہوا تھا۔

لیکن جو غلطیاں اُن ادوار میں ہوئی اگر اُن پر قابو پاکر سرکار ٹرانسپورٹ مافیا کے خوف سے نکل کر مزید بہتر ٹرانسپورٹ لانے کی نیت کرلے تو یہاں سب ممکن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں