پانامالیکس پر ٹی او آرز کے حتمی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا چیف جسٹس

انکوائری کمیشن ایکٹ 1956کا دائرہ کارمحدود ہے اوربادی النظرمیں کمیشن کی کارروائی میں کئی سال لگ سکتے ہیں،انورظہیرجمالی


ویب ڈیسک May 13, 2016
اگرپاناما لیکس کی تحقیقات کیلئےکمیشن بنایاجانا ہےتواس کیلئےباقاعدہ قانون سازی کی جائے،چیف جسٹس کا حکومتی خط پر جواب . فوٹو:فائل

سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے حکومت کی جانب سے لکھے گئے خط پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے جوابی خط وزارت قانون کو ارسال کردیا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹرمز آف ریفرنس کے حتمی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔



ایکسپریس نیوز کے مطابق پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے حکومتی خط پراعتراضات لگاتے ہوئے اس کا جواب وزارت قانون کو ارسال کردیا۔ چیف جسٹس کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے بادی النظر میں حکومتی ٹرمز آف ریفرنس کے تحت پاناما لیکس کی تحقیقات میں کئی سال لگ سکتے ہیں کیوں کہ حکومتی ٹی او آرز وسیع ہیں جس میں کمپنیوں کی فہرست اورشخصیات کے نام نہیں دیئے گئے۔



چیف جسٹس نے جوابی خط میں واضح کیا ہے کہ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956 کا دائرہ کار محدود ہے جب کہ حکومتی خط میں آف شور کمپنیاں رکھنے والے خاندانوں، شخصیات اور کمپنیوں کا ذکر نہیں کیا گیا اس لئے کمیشن کی تشکیل کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔



دوسری جانب وزارت قانون نے چیف جسٹس آف پاکستان کا خط موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے انکوائری کمیشن تشکیل دینے سے انکار نہیں کیا بلکہ حکومت سے چند وضاحتیں مانگی ہیں، امید ہے حکومت کی جانب سے وضاحتیں پیش کئے جانے کے بعد جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا جائے گا۔



واضح رہے کہ حکومت نے 22 اپریل 2016 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو پاناما لیکس کے معاملے پر 3 رکنی کمیشن بنانے کے لیے خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ انیس سو چھپن کےتحت تین رکنی کمیشن تشکیل دیکر اس کی سربراہی ترجیحی بنیاد پر چیف جسٹس خود کریں۔ حکومت کی جانب سے خط میں کہا گیا تھا کہ سیاسی اثرو رسوخ کے ذریعے قرضے معاف کرانے والوں، کرپشن، کمیشن اور کک بیک کے ذریعے بیرون ملک فنڈز کی منتقلی سے متعلق امور کی تحقیقات کی جائیں۔ حکومت نے خط کے ساتھ کمیشن کے ٹرمزآف ریفرنس بھی منسلک کئے گئے جس کے مطابق کمیشن کسی بھی فرد، ٹیکس ماہرین، اکاؤنٹنٹس کو طلب کرنے سمیت کسی بھی قسم کے دستاویزات کے حصول کے لئے تمام عدالتوں، سرکاری افسران یا سرکاری دفاترسے ریکارڈ طلب کرنے کا مجازہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں