ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت و حالات کے آگے سینہ سپر ہوسکیں۔
نوجوان طبقہ ہی کسی بھی ملک کی ترقی میں اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر یہ اکائیاں مثبت طرز پر متحد ہوجائیں، تو معاشرہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے ، لیکن ان کا بہائواگر منفی سمت پھرجائے، تو پھرہر طرف فتنہ و فساد کا طوفان تباہی مچا دیتاہے۔ نوجوانوں کی مخلصانہ کوششوں سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہو پاتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دور کا نوجوان بہت حساس فطرت کا حامل ہے۔ معاشرے میں پھیلی تفریق و امتیاز اس پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
مسلسل ناکامی کسی بھی انسان کے اندر منفی رویوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ نوکری کے حصول میں ناکامی ،معاشی ناہمواریاں، فرقہ وارانہ منافرت، بدعنوانیاں اور ناانصافیاں ایسے اسباب ہیں جو کسی بھی ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ مسائل جب کسی بھی نوجوان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو تے ہیں، تواس کے جذبات بپھر جاتے ہیں، وہ نفسیا تی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسامنفی فکر و انداز اپنالیتے ہیں، جو نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ اس کے اپنے لیے بھی ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان سماجی آفتوں کو سہہ سہہ کر بے حسی کا شکار ہوجاتے ہیں، پھردنیا میں بھلے کچھ بھی ہوتا رہے،وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ایسے متضاد رویے کسی بھی معاشرے کی تنزلی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نئے دور کا نوجوان ہی امید کی وہ جلتی شمع ہے، جو بدعنوانیوں اور لاقانویت کے گھور اندھیرے معاشرے میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔کیوں کہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ نہ صرف خود اعلی مقام تک پہنچ سکتاہے، بلکہ اس کا ملک بھی دنیا میں نمایاں مقام پر کھڑا نظر آئے گا۔
کسی بھی ملک کو جب دشمنوں سے دفاع کا خدشہ ہو،قومی حمیت کا معاملہ ہو، یا جب اس کی خودمختاری کو خطرات لاحق ہو تو یہ نوجوان طبقہ ہی ہوتا ہے جو دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑا ہوجاتا ہے۔ چاہے اس کے لیے اس کو اپنی زندگی کا چین و سکون دائو پر لگانا پڑے مگر وہ بے لوثی سے وطن کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
صرف حالت جنگ میں نہیں بلکہ امن و امان کے زمانے میں بھی پسماندہ معاشرے کے نوجوانوں نے ہی ہمت دکھائی،بیداری کی مہم چلا کر محنت اورتعلیم کو اپنانصب العین بنایا، جس سے ان کا ملک ترقی راہوں پرگامزن ہو گیا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال پڑوسی دوست ملک چین کی ہے، کثیر آبادی رکھنے والے اس ملک کو آج دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوتیں رکھنے والے ممالک میں سے ایک تسلیم کیا جارہا ہے، جنہوں نے قلیل مدت میںاپنی معیشت کو پروان چڑھایا ہے۔ چین کے نوجوانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی ، تعلیم اور صنعتی ترقی، کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔ اب ایک ایسا یونیورسل کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے، جس میں جہالت ،غربت اور بدعنوانی کے شکار مما لک کے لیے کوئی مقام نہیں۔ ایسے میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو سینہ ٹھوک کے میدان میں اترنا ہوگا ۔ والدین اور اساتذہ پر یہ بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔تاکہ آگے چل کر وہ پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہوں۔ ان میں تعلیم کے حصول کا جنون پیدا ہو۔ ان کے افکار و نظریات کو ایسی راہ ملے کہ وہ ارض پاک کی ترقی میں اپنا معاون کردار ادا کر سکیں۔
ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو میں ہے۔ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کی راہ نکالیں۔آج کے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت و حالات کے آگے سینہ سپر ہوں۔ کیوں کہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں،بلکہ ایک ملک دوسرے ملک کو معاشی شکست سے دوچار کرنے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی، معاشی اور اقتصادی شعبے اتنے مضبوط بنائیں کہ وہ کسی بھی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔
اگر یہ اکائیاں مثبت طرز پر متحد ہوجائیں، تو معاشرہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے ، لیکن ان کا بہائواگر منفی سمت پھرجائے، تو پھرہر طرف فتنہ و فساد کا طوفان تباہی مچا دیتاہے۔ نوجوانوں کی مخلصانہ کوششوں سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہو پاتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دور کا نوجوان بہت حساس فطرت کا حامل ہے۔ معاشرے میں پھیلی تفریق و امتیاز اس پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
مسلسل ناکامی کسی بھی انسان کے اندر منفی رویوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ نوکری کے حصول میں ناکامی ،معاشی ناہمواریاں، فرقہ وارانہ منافرت، بدعنوانیاں اور ناانصافیاں ایسے اسباب ہیں جو کسی بھی ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ مسائل جب کسی بھی نوجوان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو تے ہیں، تواس کے جذبات بپھر جاتے ہیں، وہ نفسیا تی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسامنفی فکر و انداز اپنالیتے ہیں، جو نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ اس کے اپنے لیے بھی ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان سماجی آفتوں کو سہہ سہہ کر بے حسی کا شکار ہوجاتے ہیں، پھردنیا میں بھلے کچھ بھی ہوتا رہے،وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ایسے متضاد رویے کسی بھی معاشرے کی تنزلی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نئے دور کا نوجوان ہی امید کی وہ جلتی شمع ہے، جو بدعنوانیوں اور لاقانویت کے گھور اندھیرے معاشرے میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔کیوں کہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ نہ صرف خود اعلی مقام تک پہنچ سکتاہے، بلکہ اس کا ملک بھی دنیا میں نمایاں مقام پر کھڑا نظر آئے گا۔
کسی بھی ملک کو جب دشمنوں سے دفاع کا خدشہ ہو،قومی حمیت کا معاملہ ہو، یا جب اس کی خودمختاری کو خطرات لاحق ہو تو یہ نوجوان طبقہ ہی ہوتا ہے جو دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑا ہوجاتا ہے۔ چاہے اس کے لیے اس کو اپنی زندگی کا چین و سکون دائو پر لگانا پڑے مگر وہ بے لوثی سے وطن کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
صرف حالت جنگ میں نہیں بلکہ امن و امان کے زمانے میں بھی پسماندہ معاشرے کے نوجوانوں نے ہی ہمت دکھائی،بیداری کی مہم چلا کر محنت اورتعلیم کو اپنانصب العین بنایا، جس سے ان کا ملک ترقی راہوں پرگامزن ہو گیا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال پڑوسی دوست ملک چین کی ہے، کثیر آبادی رکھنے والے اس ملک کو آج دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوتیں رکھنے والے ممالک میں سے ایک تسلیم کیا جارہا ہے، جنہوں نے قلیل مدت میںاپنی معیشت کو پروان چڑھایا ہے۔ چین کے نوجوانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی ، تعلیم اور صنعتی ترقی، کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔ اب ایک ایسا یونیورسل کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے، جس میں جہالت ،غربت اور بدعنوانی کے شکار مما لک کے لیے کوئی مقام نہیں۔ ایسے میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو سینہ ٹھوک کے میدان میں اترنا ہوگا ۔ والدین اور اساتذہ پر یہ بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔تاکہ آگے چل کر وہ پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہوں۔ ان میں تعلیم کے حصول کا جنون پیدا ہو۔ ان کے افکار و نظریات کو ایسی راہ ملے کہ وہ ارض پاک کی ترقی میں اپنا معاون کردار ادا کر سکیں۔
ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو میں ہے۔ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کی راہ نکالیں۔آج کے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت و حالات کے آگے سینہ سپر ہوں۔ کیوں کہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں،بلکہ ایک ملک دوسرے ملک کو معاشی شکست سے دوچار کرنے کے لیے پر تول رہا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی، معاشی اور اقتصادی شعبے اتنے مضبوط بنائیں کہ وہ کسی بھی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔