خدارا کراچی پر رحم کیجیے…
اس شہر یا آبادی کا کیا علاج ہے جن کے پاس یہ ساری نعمتیں موجود تھیں اور اپنے ہاتھوں ضایع کردی گئی ہیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم کا شہر ہے۔
پہلا دارالحکومت رہ چکا ہے، آزادی کے بعد سب سے بڑا صنعتی شہر رہ چکا ہے 1947 میں ساڑھے چار لاکھ کی آبادی کا شہر صرف چھ دہائیوں میں ڈیڑھ کروڑ کی آبادی سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس شہر کی پہچان امن وآشتی اورکاروبار زندگی کو بہتر بنانے کے مواقعے کے لیے بلا امتیاز دین وزبان کے شہر کی حیثیت رہی ہے۔
پرانے شہر کی سڑکیں انسانوں اور جانوروں کے لیے پانی کی سبیلیں اور ضروریات کی فراغت کے لیے شہر میں مختلف مقامات کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی یہ شہر آدمیوں اورمہذب افراد کا شہر رہ چکا ہے، آبادی بڑھ چکی ہے، گاڑیاں اور مکانات کی صفیں ہر سُو عام ہیں، سڑکیں بائی پاس اورانڈر پاس میں اضافہ ہوچکا ہے، لیکن کیا آج یہ مہذب یا محفوظ شہر کہلاسکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ جواب نفی میں ہوگا، مذہبی انتہاپسندی، سماجی اور علاقائی نفرت، غربت اور امارات کا بہت بڑا فرق، انگریزی ایئرکنڈیشن اسکول، پیلے اُردو اسکول اور مذہبی مدارس نے پورے شہرکو تیزی سے ذہنی،مالی اخلاقی اور سیاسی تقسیم کے عمل سے منتشر کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس جو نعمتیں نہیں ہیں ان کے لیے کوشش کی جاسکتی ہے، جو علم نہیں ہے اُس کے لیے کام کیا جاسکتا ہے ، جو کچے مکانات ہیں انھیں محلوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، جو لاقانونیت کے شاہکار ہیں انھیں قانون کے تابع کیا جا سکتا ہے، لیکن اُس شہر یا آبادی کا کیا علاج ہے جن کے پاس یہ ساری نعمتیں موجود تھیں اور اپنے ہاتھوں ضایع کردی گئی ہیں، کراچی پاکستان کا دماغ کہا جاتا تھا، کراچی میں گھڑیوں کی سُوئیاں ہر لمحے ملک کے لیے معاشی اعداد میں اضافے کا سبب رہی ہیں، لانڈھی، کورنگی سمیت دیگر صنعتی علاقے تین شفٹوں میں ہر دم پیکار تھے۔ آج ہم کہاں ہیں؟ اب یہ شہر خوف، دہشت، لاقانونیت اور معاشی تنزلی کی پستی میں پہنچ چکا ہے۔
2012 کا سال اختتام پر ہے ، جمہوریت کے پانچ برس پورے ہورہے ہیں اور خیال ہے کہ تمام تر برائیوں اور بدحالیوں کے باوجود اب شاید جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کرلے۔ ہر سیاسی پارٹی ایک دوسرے پر الزام تراشی کے باوجود اس بار صبروتحمل سے کام لے رہی ہے۔ اس لیے اُمید ہے کہ شاید ہم یہاں سے اپنی اُس منزل کا تعین کرسکیں جو قائد اعظم کی منزل تھی، جسے ہم نے اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا۔
کراچی کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے انڈونیشیا کا شہر جکارتا، کوریا کا شہر سیول، برازیل کا شہر ساڈیاؤلو، روس کا شہر ماسکو، ہندوستان کے شہر ممبئی اور دہلی، چین کے شہر بیجنگ اور شنگائی اور ترکی کا شہر استنبول۔ ہمارے اقتدار اعلیٰ کو صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ دس شہر کہاں کھڑے تھے اور آج یہ کہاں پہنچ چکے ہیں، ہمیں خود معلوم ہوجائے گا کہ ترقی کی رفتار میں ہم سب سے پیچھے اور تنزلی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
عمومی طور پر پورے پاکستان اور خصوصی طور پر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور بڑے شہروں میں رویّوں پر توجہ کی ضرورت ہے، رویے تبدیل کرنے کے لیے اربابِ اقتدار کو اپنی شکل اور عقل بدلنے کی ضرورت ہے، نشتر ، سہروردی، فضل الحق اور دولتانہ آسمان سے اُترے ہوئے لیڈر نہیں تھے۔ لیاقت شہید ہوئے تو عوامی روش میں تبدیلی نہیں آئی، سیکیورٹی کا ڈراما نہیں چایا گیا، پولیس اور رینجرز کے حوالے شہر نہیں کیا گیا، وردی کو عوام کی نظروں سے حتی الامکان دور رکھا گیا کہ وردی کا اپنا کام اور احترام ہے جو ایک بار گیا تو پھر نہ حسنی مبارک کا خوف نہ صدام کا دبدبہ نہ قذافی کا فلسفہ کام آتا ہے، عوام کو سب سے آزاد کردیتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایوب دور سے یہ فلسفہ رائج پایا کہ قومیں خوف سے قابو میں آتی ہیں اور آج یہ حال ہے کہ دانشوروں کی محفل میں بھی یہ مزاحیہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ اس قوم کا علاج ڈنڈا ہے یہ رویّوں کی مار ہے، یہ سوچ کا دیوالیہ پن ہے جو پانچ دہائیوں میں ہمارے رگ و پے میں سرائیت کرچکا ہے، کم ازکم دو دہائیاں اسے صاف کرنے میں لگیں گی، لیکن اس کے لیے سیاست دانوں کا اور اہلِ علم کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ صرف چند بنیادی تجاویز اس شہر میں بسنے والوں کے لیے ڈربل یا یوگا کا کام کرسکتی ہیں۔
1۔سگنل توڑنا یا قطار سے آگے دبا کر گاڑیاں لے جانا بڑا جرم قرار پائے۔ 2۔فٹ پاتھ عوام کے چلنے کی جگہ ہے کسی طور کسی فرد یا جماعت کے لیے اس پر قبضے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ 3۔پورے شہر میں کوئی سیاسی اور مذہبی بینرز کی اجازت نہیں ہوگی اپنا پرچار آپ Facebook پر اور پمفلٹ، لٹریچر بھیج کر کرسکتے ہیں۔ 4۔اسلحے کی نمائش ہر طور پر بڑا جرم ہوگی۔
آپ اگر اپنی جان سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ چور ہیں یا دشمنوں میں رہتے ہیں، ایسی صورت میں اپنی گاڑی کے اندر اپنے محافظ کو بٹھا سکتے ہیں، اپنی کار کے پیچھے ایک کھلی گاڑی میں محافظوں کا بیٹھنا بڑا جرم قرار پائے۔
5۔لیڈر خاموشی سے سادے لباس میں اپنے محافظوں کے ساتھ سڑکوں سے گزر جائیں کیونکہ کل جب یہ اقتدار میں نہیں ہوں گے تو کیا کریں گے۔ 6۔سوائے صدر اور وزیراعظم کے کسی طور سڑکیں عوام کے لیے بند نہ کی جائیں۔ 7۔بڑے دفاتر یا بڑے لوگوں کے دفاتر کے باہر گلیاں یا سڑکوں پر رکاوٹ کی اجازت کسی طور نہ ہو۔ کیونکہ ہر فرد خاندان یا ادارہ اپنی حفاظت یا سیکیورٹی اپنے احاطے کے اندر سے شروع کرتا ہے۔
اپنے مکان کی حفاظت کے لیے پوری سڑک بند کرنا غیر قانونی، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی ہے۔ بینک اور کاروباری عمارتوں میں کوئی سیاسی پوسٹر یا پارٹی لیڈر کی تصویر لگانا بڑا جرم ہو، کیونکہ یہ عوامی مراکز ہیں کسی پارٹی کی جاگیر نہیں ہیں۔ 8۔بڑے بازار اور بڑے کاروباری مال کے باہر سڑکوں پر صرف ایک صف کی پارکنگ کی اجازت دی جائے، پچاس دکانوں کی مارکیٹ کے لیے دس لاکھ افراد روزانہ مسلسل ذہنی کوفت یا عذاب سے گزریں کسی طور اس کا عقلی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔
پارکنگ کے لیے ہر کمرشل علاقے میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کون تک میں ایک پارکنگ کی عمارت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 9۔شہر میں لاقانونی طور پر پارکنگ کرکے تھانے اور چند مافیا افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 10۔ٹھیلے لگانے کے لیے باقاعدہ لائسنس دیئے جائیں جو صرف پانچ سو روپوں سالانہ پر بھی کافی ہے، لیکن ٹھیلے کی تفصیل اور جگہ کی نشاندہی باقاعدہ ہو۔ اُس جگہ کی صفائی اور گندے پانی کی نکاسی اُس کی ذمے داری ہو۔
11۔ایک ٹھیلے اور دوسرے ٹھیلے میں کم ازکم سوگز کا فاصلہ ہو، ایک جگہ دس خوانچے یا ٹھیلوں کی اجازت کسی طور نہ دی جائے اس طرح کی بے شمار اصلاحات جن میں نہ کوئی خرچہ ہے نہ عوام کی مخالفت ہے پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔گویا یہ شہر میں عوام کی اخلاقی، سیاسی تربیتی کورس کا پہلا سبق ہوگا۔ پانچ برسوں کی کوششوں سے اگر اصلاحات پچاس فیصد بھی کامیاب ہوگئیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی، پھر بتدریج اس میں اضافہ کیا جائے۔
1۔مثلاً کسی موقعے پر آتشی اسلحے کا استعمال یعنی شادی بیاہ، یومِ آزادی یا نئے سال کے موقعے پر نہ صرف خلافِ قانون بلکہ بڑی سزائیں دی جائیں۔ 2۔کاروبار کے اوقات میں بتدریج تبدیلی کی جائے، اور کوشش کی جائے کہ صبح سے شام تک محدود کردیا جائے شام کے بعد کا وقت خاندان اور بچوں کے لیے ہے۔ 3۔صرف صنعتی علاقوں میں رات دیر گئے تک ریسٹورنٹ یا کیفے کی اجازت ہو۔ ورنہ ہر حال میں دس بجے تمام فاسٹ فوڈز اور ریسٹورنٹ بند کردیئے جائیں، کھلی جگہوں، فاسٹ فوڈز کو دس بجے کے بعد ہرگز کاروبار کی اجازت نہ دی جائے۔ 4۔بازار اور عام مارکیٹ مغرب کی اذان کے ساتھ مکمل بند کردی جائے جیساکہ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ فارمیسی اور عمارت کے اندر ریسٹورنٹ کو ہر پانچ میل کے فاصلے پر شہر میں رات دیر تک کھلے رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جو لوگ کراچی سے واقف ہیں اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ستّر(70) کی دہائی تک کراچی کے چائے خانے اور اخبارات کے ٹھیلے علی الصبح فجر کے وقت کھل جاتے تھے۔ اور مارکیٹ مغرب کے بعد بند ہوجاتی تھی، لیکن اسّی (80) کی دہائی کے بعد ان میں جان بوجھ کر تبدیلی لائی گئی اور اب حال یہ ہے کہ دُکانیں اور کاروبار دوپہر کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ طبی سائنس کے اُصولوں پر بھی پرکھا جائے تو انسان کے لیے بہترین کام کا وقت صبح کے چار گھنٹے ہوتے ہیں۔ مغرب کے بعد کے کاروبار پوری دنیا میں اپنی الگ حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
یہ اپنا شہر اور اپنا ملک ہے، زمین اور ملک قائم رہتے ہیں، قومیں آگے بڑھتی رہتی ہیں، فرد ساٹھ ستر برس تک اس دنیا کے لیے آتا ہے، ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی ذات کو اس وقت تک محدود رکھیں، ہزاروں برس کی تیاری نہ کریں۔ محل، جائیدادیں، طاقت، دولت سب یہیں رہ جائیں گی۔ شیر شاہ سوری صرف پانچ برس رہا، لیکن مغلوں کی صدیوں پرانی تاریخ پر بھاری رہا، کیونکہ اس کا کارنامہ ہمارے سامنے ہے، مغلوں کے خاندان میں اکبر بھی پیدا ہوئے جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی اور بہادر شاہ ظفر بھی پیدا ہوا جس نے پوری سلطنت اونے پونے برباد کردی۔ کراچی کو ماڈل شہر بنائیے، اپنے رویّوں میں تبدیلی لائیے، تھوڑی سی نظم اور تھوڑے سے ضبط کی ضرورت ہے۔