دہشتگردی سے چھٹکارہ کیسے
سیاسی، مذہبی اور لسانی گروہوں اور مافیا کی کھلی مداخلت پولیس کی کارکردگی صفر کردیتی ہے۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کی مذہبی، سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ قسم کی دہشت گردی ہوتی رہی ہے، لیکن نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں جاری مستقل بدامنی اور دہشت گردی کے راج نے پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں سیکیورٹی کے نام پر 19 کھرب 67 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی، لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ سندھ حکومت نے سیکیورٹی بجٹ میں 34 فیصد اضافہ کیا، لیکن رواں مالی سال میں اس صوبے میں بلکہ صرف کراچی میں دو ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں، اغواء برائے تاوان ایک منظم صنعت اور قتل عام ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے،گرفتار قاتل اپنی زبان سے سپاری لے کر قتل کرنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ وزیراعظم کا بیٹا شکوہ زن ہے کہ ان کو تحفظ نہیں دیا جا رہا اور انھیں اپنی جان کا خطرہ ہے۔ خود انسداد دہشتگردی کی عدالتیں اپنی عمارات کو غیر محفوظ قرار دے رہی ہیں۔
عدالتوں کے اندر فائرنگ کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، سی آئی اے سینٹر اور حساس ادارے دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ صنعتکار وتاجر اپنی صنعتیں اورکاروبار بنگلہ دیش، سری لنکا، دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان ، بھتے، بدامنی اور قتل وغارت گری کا شکار اعلیٰ تعلیم کے حامل اور ماہرین کے علاوہ عام شہری، طلبا، ملازمین ملک سے باہر نکلنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ جو لوگ باہر جانا قطعی طور پر پسند نہیں کرتے تھے یا جو والدین بچوں کو باہر نہیں بھیجنا چاہتے تھے وہ بھی اولاد کو تعلیم، ملازمت اور تحفظِ جان کے لیے ملک سے باہر جانے کی تلقین کرتے نظر آرہے ہیں، جس سے برین ڈرین، اسکل ڈرین اور مین پاور ڈرین کا سلسلہ جاری ہے۔
سرمایہ بھی منتقل ہورہا ہے جس کے نتائج منفی صورت میں سامنے آئیں گے۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی کئی بار ڈیڈ لائن دینے والے اور پھر جرات اخلاق سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنیوالے موجودہ وزیراعظم نے عوام کو پھر خوشخبری دی ہے کہ کراچی کے حالات چند روز میں ٹھیک ہوجائیں گے، کچھ ملک دشمن عناصر جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات خود بخود بہتر ہوجائیں گے یا حکومت اس کے لیے کوئی حکمت عملی وضع کر رہی ہے؟
دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد اگر کچھ وقت کے لیے سستانے لگتے ہیں یا کوئی نئی حکمت عملی یا پلان ترتیب دینے لگتے ہیں تو اس مختصر عرصے کو حکومت امن کے قیام سے تعبیر کرنے لگتی ہے اور دہشتگردی کے یہ واقعات پھر نئی تروتازہ توانائیوں کے ساتھ رونما ہونے لگتے ہیں اور حکومت عوام کو نمائشی قسم کے اقدامات سے طفل تسلیاں دینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ کیا وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس میں متحارب سیاسی، لسانی گروہ اور مذہبی رہنماؤں کے اِن ڈور اجلاس کرکے یا شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخواہ میں ورائٹی پروگرامز اور ویڈیو شاپ کھلوا کر امن قائم کیا جاسکتا ہے؟
کیا ڈبل سواری اور موٹرسائیل سواری پر پابندی، دفعہ 144 کے نفاذ سے عوام کو تحفظ میسر آسکتا ہے؟ کیا فیئر ٹرائل اور گواہوں کے تحفظ جیسے بے سوچے سمجھے اور غیر حقیقی قسم کے بلز دہشت گردی کی بیخ کنی اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں؟ جن کی حزب اختلاف کے علاوہ خود حکومتی بنچوں سے رضا ربانی اور بابر اعوان جیسے لوگ بھی مخالفت کر رہے ہیں۔
حالیہ ایک نمائش کے موقعے پر جب اعلیٰ حکومتی اکابرین کراچی میں موجود تھے، تو ایک جانب وی آئی پی موومنٹ پر پولیس کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں تو دوسری جانب کراچی میں دہشتگردی کا سلسلہ انتہائی تیز رفتاری سے جاری تھا۔ ڈبل سواری پر پابندی کے پہلے دن دو درجن سے زائد افراد گولیوں کا نشانہ بنے، مدرسے کے 6 طلباء کو گولیوں سے بھوننے والے بھی موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر آئے تھے اور اطمینان سے کارروائی کرکے روانہ ہوگئے۔ ایسے مواقعوں پر پولیس غائب ہوتی ہے یا پھر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے، حالات زیادہ خراب ہوں تو دروازوں میں تالے ڈال کر تھانوں میں بند ہوجاتی ہے۔
ان کی نہ تو تربیت ہوتی ہے نہ ان کے پاس مطلوبہ اسلحہ اور استعداد کار ہوتی ہے، نہ جانوں اور ملازمت کا تحفظ ہوتا ہے نہ ان کے اور ان کے خاندان کی سماجی تحفظ کی کوئی پالیسی۔ سیاسی، مذہبی اور لسانی گروہوں اور مافیا کی کھلی مداخلت پولیس کی کارکردگی صفر کردیتی ہے۔ ان عوامل کا تدارک کیے بغیر پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں بنائی جاسکتی۔ حکومت کو کوئی بھی اقدام اُٹھاتے وقت یا قانون سازی کرتے وقت عوامی مشکلات اور اس کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
موٹرسائیکل کی سواری پر پابندی، کاروبار اور موبائل فونز کی بندش جیسے اقدامات سے پہلے حکومت کو سوچنا چاہیے تھا کہ کراچی میں رجسٹرڈ اور بیرون کراچی کی موٹرسائیکلوں کی تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے جس میں صرف ملازمت پیشہ افراد ہی نہیں، پولیس والے، اخبار والے،کوریئر سروسز والے، پِیزاور فوڈ سپلائی کرنے والے، دودھ سپلائی کرنے والے جیسے لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں، اس اقدام سے ساراکام اور معمولات درہم برہم ہوسکتے تھے، کراچی کے بازار جمعہ کے بعد 3 بجے کھلتے ہیں تو پھر 5 بجے کیسے بند کیے جاسکتے ہیں؟ تاجر نمائندوں کے مطابق اس اقدام سے 3 سے 4 ارب روپے کا نقصان ہوتا۔
صرف خدشات کی بنا پر عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ پابندی پر خاتمے نے ان خدشات کو بے بنیاد بھی ثابت کردیا ہے۔ دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے اور مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حکومت گواہوں کے تحفظ اور ملزمان کو طویل عرصہ قید اور پرتفتیش رکھنے کی قانون سازی کر رہی ہے۔ اس کے تحت گواہان اپنی شناخت چھپا سکیں گے، فرضی نام اور ماسک استعمال کریں گے، ان کے تحفظ کے لیے رہائش اور مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کسی مشتبہ شخص کا وارنٹ جاری کرسکے گا، اس شخص کو 90 دنوں تک قید اور زیر تفتیش رکھا جاسکے گا، ان کے مقدمات عدالتوں کی بجائے خصوصی ٹریبونل میں چلائے جائیں گے، جس کے تین ممبران میں سے دو کا انتخاب ایجنسی کے سربراہ کریں گے، ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل بورڈ بنایا جائے گا جس کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ کے 9 اراکین پر مشتمل کمیٹی خفیہ ایجنسی کے معاملات کو مانیٹر کرے گی۔ صدر محتسب کا ادارہ بھی قائم کرے گا جو کسی طاقتور گروہ کے خلاف ملنے والی شکایات کی تفتیش کرے گا۔
کسی ملازم کے اختیارات سے تجاوز پر سات سال تک قید کی سزا دے سکے گا۔اس قسم کی قانون سازی کے نتیجے میں عدم شفافیت، عدم انصاف، انتقام، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، بلیک میلنگ کے واضح امکانات ہوں گے اور یہ عدالتی اختیارات میں مداخلت اور آئین کی خلاف ورزی بھی ہوگی جس کو عدالت کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔
ایسا قانون پارلیمنٹ، خفیہ اداروں اور عدالتوں کے درمیان کھنچاؤ اور تصادم کی کیفیت بھی پیدا کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے حکومتی ارکان رضاربانی اور بابر اعوان بھی اس پر اپنے تحفظات کا برملا اور دو ٹوک اظہار کرچکے ہیں اس قسم کے قوانین نہ صرف حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ مستقبل میںوہ خود بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور ملک کے شہریوں میں احساس محرومی کو مزید گہرا کرسکتے ہیں۔ حکومت کو کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے جرم کی وجوہات، اس کی نفسیات اور اپنے سیاسی و معروضی حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں سیکیورٹی کے نام پر 19 کھرب 67 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی، لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ سندھ حکومت نے سیکیورٹی بجٹ میں 34 فیصد اضافہ کیا، لیکن رواں مالی سال میں اس صوبے میں بلکہ صرف کراچی میں دو ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں، اغواء برائے تاوان ایک منظم صنعت اور قتل عام ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے،گرفتار قاتل اپنی زبان سے سپاری لے کر قتل کرنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ وزیراعظم کا بیٹا شکوہ زن ہے کہ ان کو تحفظ نہیں دیا جا رہا اور انھیں اپنی جان کا خطرہ ہے۔ خود انسداد دہشتگردی کی عدالتیں اپنی عمارات کو غیر محفوظ قرار دے رہی ہیں۔
عدالتوں کے اندر فائرنگ کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، سی آئی اے سینٹر اور حساس ادارے دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ صنعتکار وتاجر اپنی صنعتیں اورکاروبار بنگلہ دیش، سری لنکا، دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان ، بھتے، بدامنی اور قتل وغارت گری کا شکار اعلیٰ تعلیم کے حامل اور ماہرین کے علاوہ عام شہری، طلبا، ملازمین ملک سے باہر نکلنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ جو لوگ باہر جانا قطعی طور پر پسند نہیں کرتے تھے یا جو والدین بچوں کو باہر نہیں بھیجنا چاہتے تھے وہ بھی اولاد کو تعلیم، ملازمت اور تحفظِ جان کے لیے ملک سے باہر جانے کی تلقین کرتے نظر آرہے ہیں، جس سے برین ڈرین، اسکل ڈرین اور مین پاور ڈرین کا سلسلہ جاری ہے۔
سرمایہ بھی منتقل ہورہا ہے جس کے نتائج منفی صورت میں سامنے آئیں گے۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی کئی بار ڈیڈ لائن دینے والے اور پھر جرات اخلاق سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنیوالے موجودہ وزیراعظم نے عوام کو پھر خوشخبری دی ہے کہ کراچی کے حالات چند روز میں ٹھیک ہوجائیں گے، کچھ ملک دشمن عناصر جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات خود بخود بہتر ہوجائیں گے یا حکومت اس کے لیے کوئی حکمت عملی وضع کر رہی ہے؟
دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد اگر کچھ وقت کے لیے سستانے لگتے ہیں یا کوئی نئی حکمت عملی یا پلان ترتیب دینے لگتے ہیں تو اس مختصر عرصے کو حکومت امن کے قیام سے تعبیر کرنے لگتی ہے اور دہشتگردی کے یہ واقعات پھر نئی تروتازہ توانائیوں کے ساتھ رونما ہونے لگتے ہیں اور حکومت عوام کو نمائشی قسم کے اقدامات سے طفل تسلیاں دینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ کیا وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس میں متحارب سیاسی، لسانی گروہ اور مذہبی رہنماؤں کے اِن ڈور اجلاس کرکے یا شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخواہ میں ورائٹی پروگرامز اور ویڈیو شاپ کھلوا کر امن قائم کیا جاسکتا ہے؟
کیا ڈبل سواری اور موٹرسائیل سواری پر پابندی، دفعہ 144 کے نفاذ سے عوام کو تحفظ میسر آسکتا ہے؟ کیا فیئر ٹرائل اور گواہوں کے تحفظ جیسے بے سوچے سمجھے اور غیر حقیقی قسم کے بلز دہشت گردی کی بیخ کنی اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں؟ جن کی حزب اختلاف کے علاوہ خود حکومتی بنچوں سے رضا ربانی اور بابر اعوان جیسے لوگ بھی مخالفت کر رہے ہیں۔
حالیہ ایک نمائش کے موقعے پر جب اعلیٰ حکومتی اکابرین کراچی میں موجود تھے، تو ایک جانب وی آئی پی موومنٹ پر پولیس کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں تو دوسری جانب کراچی میں دہشتگردی کا سلسلہ انتہائی تیز رفتاری سے جاری تھا۔ ڈبل سواری پر پابندی کے پہلے دن دو درجن سے زائد افراد گولیوں کا نشانہ بنے، مدرسے کے 6 طلباء کو گولیوں سے بھوننے والے بھی موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر آئے تھے اور اطمینان سے کارروائی کرکے روانہ ہوگئے۔ ایسے مواقعوں پر پولیس غائب ہوتی ہے یا پھر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے، حالات زیادہ خراب ہوں تو دروازوں میں تالے ڈال کر تھانوں میں بند ہوجاتی ہے۔
ان کی نہ تو تربیت ہوتی ہے نہ ان کے پاس مطلوبہ اسلحہ اور استعداد کار ہوتی ہے، نہ جانوں اور ملازمت کا تحفظ ہوتا ہے نہ ان کے اور ان کے خاندان کی سماجی تحفظ کی کوئی پالیسی۔ سیاسی، مذہبی اور لسانی گروہوں اور مافیا کی کھلی مداخلت پولیس کی کارکردگی صفر کردیتی ہے۔ ان عوامل کا تدارک کیے بغیر پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں بنائی جاسکتی۔ حکومت کو کوئی بھی اقدام اُٹھاتے وقت یا قانون سازی کرتے وقت عوامی مشکلات اور اس کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
موٹرسائیکل کی سواری پر پابندی، کاروبار اور موبائل فونز کی بندش جیسے اقدامات سے پہلے حکومت کو سوچنا چاہیے تھا کہ کراچی میں رجسٹرڈ اور بیرون کراچی کی موٹرسائیکلوں کی تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے جس میں صرف ملازمت پیشہ افراد ہی نہیں، پولیس والے، اخبار والے،کوریئر سروسز والے، پِیزاور فوڈ سپلائی کرنے والے، دودھ سپلائی کرنے والے جیسے لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں، اس اقدام سے ساراکام اور معمولات درہم برہم ہوسکتے تھے، کراچی کے بازار جمعہ کے بعد 3 بجے کھلتے ہیں تو پھر 5 بجے کیسے بند کیے جاسکتے ہیں؟ تاجر نمائندوں کے مطابق اس اقدام سے 3 سے 4 ارب روپے کا نقصان ہوتا۔
صرف خدشات کی بنا پر عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ پابندی پر خاتمے نے ان خدشات کو بے بنیاد بھی ثابت کردیا ہے۔ دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے اور مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حکومت گواہوں کے تحفظ اور ملزمان کو طویل عرصہ قید اور پرتفتیش رکھنے کی قانون سازی کر رہی ہے۔ اس کے تحت گواہان اپنی شناخت چھپا سکیں گے، فرضی نام اور ماسک استعمال کریں گے، ان کے تحفظ کے لیے رہائش اور مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کسی مشتبہ شخص کا وارنٹ جاری کرسکے گا، اس شخص کو 90 دنوں تک قید اور زیر تفتیش رکھا جاسکے گا، ان کے مقدمات عدالتوں کی بجائے خصوصی ٹریبونل میں چلائے جائیں گے، جس کے تین ممبران میں سے دو کا انتخاب ایجنسی کے سربراہ کریں گے، ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل بورڈ بنایا جائے گا جس کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ کے 9 اراکین پر مشتمل کمیٹی خفیہ ایجنسی کے معاملات کو مانیٹر کرے گی۔ صدر محتسب کا ادارہ بھی قائم کرے گا جو کسی طاقتور گروہ کے خلاف ملنے والی شکایات کی تفتیش کرے گا۔
کسی ملازم کے اختیارات سے تجاوز پر سات سال تک قید کی سزا دے سکے گا۔اس قسم کی قانون سازی کے نتیجے میں عدم شفافیت، عدم انصاف، انتقام، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، بلیک میلنگ کے واضح امکانات ہوں گے اور یہ عدالتی اختیارات میں مداخلت اور آئین کی خلاف ورزی بھی ہوگی جس کو عدالت کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔
ایسا قانون پارلیمنٹ، خفیہ اداروں اور عدالتوں کے درمیان کھنچاؤ اور تصادم کی کیفیت بھی پیدا کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے حکومتی ارکان رضاربانی اور بابر اعوان بھی اس پر اپنے تحفظات کا برملا اور دو ٹوک اظہار کرچکے ہیں اس قسم کے قوانین نہ صرف حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ مستقبل میںوہ خود بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور ملک کے شہریوں میں احساس محرومی کو مزید گہرا کرسکتے ہیں۔ حکومت کو کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے جرم کی وجوہات، اس کی نفسیات اور اپنے سیاسی و معروضی حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔