ہمیشہ صرف شوہر ہی غلط نہیں ہوا کرتے

سدرہ صاحبہ انصاف کی بات کریں اورانصاف یہی ہےکہ دونوں طرف کی غلطیوں کواجاگر ہونا چاہیےتاکہ صحیح اورغلط کا اندازہ ہوجائے


عثمان فاروق May 13, 2016
کسی بھی خاتون سے اس طرح کا رویہ اپنایا جائے تو یقیناً دل دکھتا ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جو کچھ اِس ویڈیو کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ من و عن مان لی جائے؟ فوٹو: فیس بک


میرا نام سدرہ ہے اور میرا تعلق پشاور سے ہے۔ 2008ء میں میری شادی ہوئی اور 2009ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی۔ 2010ء تک مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا شوہر میری اور میری بیٹی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میں نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا اور نو مہینے کی بیٹی کو لے کر پاکستان سے چلی گئی۔ لوگوں نے بہت کچھ بولا مگر میں نے پرواہ نہیں کی۔ دن رات محنت کرکے میں نے اپنی اور اپنی بیٹی کی زندگی بہتر بنائی اور آج میں جس مقام پر ہوں مجھے اس پر فخر ہے۔ اس دوران میں نے بیٹی کے باپ کو اپنی زندگی کا حصہ بننے کا پورا موقع دیا لیکن معاملہ نہیں بنا جس کے بعد میں نے طلاق لے لی۔ آج میری بیٹی ماشاءاللہ 6 سال کی ہوگئی ہے اور کچھ دن پہلے اس نے مجھ سے وہ سوال پوچھا جس سے میں سب سے زیادہ گبھراتی تھی اور وہ سوال تھا کیا میرا باپ مجھ سے پیار کرتا ہے؟ افسوس میں اُسے کوئی جواب نہیں دے سکی۔ 2010ء سے لے کر ابتک صرف میرے جاننے والوں میں 12 لڑکیوں کی طلاق ہوچکی ہے اور سب کی وجہ خاوندوں کی غیر ذمہ داری اور بے حسی ہے۔ پاکستان میں طلاق کی شرح 200 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے مردوں کو تعلیم یافتہ عورتوں کے ساتھ برتاو کرنا نہیں سکھایا۔

پس منظر میں افسردہ میوزک کے ساتھ سدرہ نامی ایک خاتون پاکستانی قوم سے پلے کارڈز کے ذریعے خطاب کررہی تھیں۔ یہ ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بہت مقبول ہوچکی ہے اور اب تک اس ویڈیو کو تقریباً 8 لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں جن میں سے 29 ہزار سے زائد لوگوں نے شئیر کرلیا ہے۔ کسی بھی خاتون سے اس طرح کا رویہ اپنایا جائے تو یقیناً دل دکھتا ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جو کچھ اِس ویڈیو کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ من و عن مان لیا جائے؟ اختلاف کا حق تو آزاد معاشرے میں ملنا چاہیے نا؟ بس یہی حق ہم استعمال کرنا چاہتے ہیں، اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِس میں خاتون نے جس یکطرفہ انداز میں مردوں کو گناہ گار اور قصور وار قرار دیا گیا ہے یہ مناسب نہیں، کیونکہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ لیکن ہم یہاں صرف اختلاف نہیں کریں گے بلکہ اُس اختلاف کی وجوہات بھی بتائیں گے۔ تو آئیں وجوہات پر بات کرتے ہیں۔
میرا نام سدرہ ہے اور میرا تعلق پشاور سے ہے۔ 2008ء میں میری شادی ہوئی

آپ کا نام سدرہ ہے بہت اچھی بات ہے آپ کا تعلق پشاور سے ہے یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ آپ کی شادی جب ہوئی تو یقیناً اِس سے قبل لڑکے کے بارے میں مکمل طور پر جانچ پڑتال کی گئی ہوگی، اور پھر آپ نے بھی اپنے طور پر کچھ نہ کچھ سوالات پوچھے ہونگے کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ کیا شوق رکھتا ہے؟ زندگی میں کامیاب ہے یا بس آوارہ گردی کرتا ہے، اور بھی درجنوں سوال ہوتے ہیں جن کے بارے میں کی جانے والی چھان بین کرتے ہیں اور اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سب کرنا بہت ضروری ہے، بلکہ جو یہ نہیں کرتا وہ غلط ہوتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی اُمید کرتے ہیں کہ جب آپ کو تمام سوالوں کے جوابات مثبت ملے ہونگے تبھی آپ نے ہاں کی ہوگی۔ اس کے بعد اگر لڑکے میں خرابی نکلی تو کچھ تو خرابی تحقیقات میں بھی تو ہونگی نا؟
2010ء تک مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا شوہر میری اور میری بیٹی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے

محترمہ سدرہ صاحبہ نہایت ادب سے گزارش ہے کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوا کہ وہ آپ کے شوہر آپ کی ذمہ داری نہیں اٹھارہے؟ اُنہوں نے لازماً آپ کو کھانے کو روٹی، آسمان پر چھت اور پہننے کو لباس مہیا کیا ہوگا؟ اگر ایسا نہیں کیا تو اندازہ لگانے میں اتنی تاخیر آپ نے کیوں کی؟ اور اگر سب کچھ فراہم کیا گیا ہے تو کونسی کمی رکھی گئی ہے؟ یہ آپ بتانا بھول گئیں پھر ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ ''میری بیٹی'' کیا ہوتا ہے؟ کیا آپ کی بیٹی جتنی آپ کی بیٹی تھی اتنی ہی آپ کے شوہر کی بیٹی نہیں تھی؟ آپ نے خود ہی یہ فیصلہ کیسے کرلیا کہ یہ بیٹی صرف آپ کی بیٹی ہے؟ آپ نے کہا آپ کا شوہر آپ کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا کیا، لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ خود شوہر کی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار نہیں تھیں؟ آپ نے یہ تو بتایا کہ شوہر سے آپ کو حقوق نہیں ملے مگر آپ نے اس کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا کہ کیا آپ نے شوہر کے حوالے سے اپنے فرائض پورے کیے؟
میں نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا اور 9 ماہ کی بیٹی کو لے کر پاکستان سے چلی گئی

گویا شوہر سے مسائل آپ کے تھے لیکن اُس کی سزا آپ نے ایک نو ماہ کی بچی کو اُس کے باپ سے جدا کرکے دی، کیا آپ کا یہ عمل ٹھیک تھا؟ وہ بچی جتنی آپ کو پیاری تھی لازماً اُس کے باپ کو بھی اتنی ہی پیاری ہوگی مگر آپ اُسے لے کر پاکستان سے فرار ہوگئیں، آپ کے اِس عمل کو کیا کہا جائے؟
آج میری بیٹی ماشاءاللہ 6 سال کی ہے اور کچھ دن پہلے اس نے مجھ سے وہ سوال پوچھا جس سے میں سب سے زیادہ گبھراتی تھی اور وہ سوال تھا کیا میرا باپ مجھ سے پیار کرتا ہے؟ افسوس میں اسے کوئی جواب نہیں دے سکی

ایک 6 سال کی معصوم بچی جسے 9 ماہ کی عمر میں اُس کے باپ سے جدا کردیا گیا ہو تو ظاہر ہے جب وہ شروع سے ہی باپ کو خود سے دور دیکھے گی تو یہ سوال کرنا تو اُس کا حق ہے۔ لیکن کیا آپ یہ نہیں سمجھتیں کہ اِس سوال کی قصوروار آپ ہیں کیونکہ آپ ہی وہ فرد ہیں جنہوں نے ایک بچی کو باپ سے دور کرنے کا گناہ کیا ہے، اور اب آپ نے یہ ویڈیو بنا کر پوری دنیا کے سامنے صفائی کا موقع دیے بغیر اپنے شوہر کا ایک ظالمانہ تاثر قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
2010ء سے لے کر اب تک صرف میرے جاننے والوں میں 12 لڑکیوں کی طلاق ہوچکی ہے اور سب کی وجہ خاوند کی غیر ذمہ داری اور بے حسی ہے

محترمہ سدرہ صاحبہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ کسی بھی طلاق کے پیچھے کسی ایک کا ہاتھ نہیں ہوتا، بلکہ کہیں نہ کہیں دوسرے کی بھی غلطی ہوتی ہے۔ اگر آپ یوں ہی دوسروں کو ظالم اور خود کو ہر غلطی سے مبرا ثابت کرتی رہیں گی تو معاشرے میں بہتری کی کوئی توقع نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاوند کا موقف بھی سامنے آجائے، یوں صرف دنیا کو ہی نہیں بلکہ آپ کی اپنی بیٹی کو بھی معلوم ہو کہ اُس کا باپ اُس سے محبت کرتا ہے یا نہیں۔

محترمہ سدرہ صاحبہ انصاف کی بات کریں، اور انصاف کی بات یہی ہے کہ دونوں طرف کی غلطیوں کو اجاگر ہونا چاہیے، پھر پتا چلے گا کہ کون غلطی کرتا ہے اور کون ٹھیک۔

اب آخری بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے ویڈیو پیغام میں ''بیوی کی ذمہ داری'' اٹھانے پر بہت زور دیا تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ذمہ داری ''اولاد'' کی اٹھائی جاتی ہے جبکہ میاں بیوی کا رشتہ باہمی تعاون سے چلتا ہے جس کا انحصار دونوں کے حقوق و فرائض پر ہوتا ہے کہ کون کتنا اپنے فرائض کو پورا کررہا ہے۔ امید ہے آپ کو بات سمجھ آگئی ہوگی۔

[poll id="1111"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں