عوامی جمہوریت کا ہر دروازہ بند
بڑے بڑے جلسے جلوس پاکستان کی سیاست کا لازمی حصہ بن گئے ہیں
بڑے بڑے جلسے جلوس پاکستان کی سیاست کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ اگرچہ جلسے جلوسوں کی روایت بہت پرانی ہے لیکن 2014ء کے بعد اس میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ خواتین ان جلسوں جلوسوں میں بہت بڑی تعداد میں شرکت کرنے لگی ہیں۔ اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ جلسوں میں نامور گلوکاروں کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جلسوں کی رونق دوبالا ہو رہی ہے۔
2013ء کے الیکشن کے دوران بھی سیاسی رہنماؤں کے جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں کرسیاں لگائی جاتی تھیں اور کرسیاں بھرنے کے لیے بھرتی کے لوگوں کو بڑی تعداد میں لایا جاتا تھا۔ انتخابات کے موقعے پر امیدواروں کا عوام میں جانا ضروری اس لیے ہوتا ہے کہ امیدوار اپنے پروگراموں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری سیاست مختلف سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں سے عبارت ہے۔
لہٰذا جلسوں میں پارٹی کے منشور سے حاضرین کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے لیکن ان ملکوں میں نہ لاکھوں عوام کے جلسے منعقد کیے جاتے ہیں نہ 2،2 کلو میٹر لمبے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ امیدواروں کے تعارف کا اہتمام سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں اور اس کا خرچ پورا کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں عوام سے انتخابی فنڈز جمع کرتی ہیں، امیدوار عموماً چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے پارٹیوں کے پروگرام عوام تک پہنچتے ہیں۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے، اس غریب ملک کے جلسوں جلوسوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ چونکہ ہماری سیاست کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے، لہٰذا ''پختہ کار'' سیاست دانوں کے لیے کروڑوں کا انتخابی بجٹ نہ حیران کن ہے نہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ اس ملک میں الیکشن پر کروڑوں کا سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ کیا وہ فی سبیل اﷲ ہوتا ہے؟ نہیں یہ ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہوتی ہے جس میں ایک کے اکیس وصول کیے جاتے ہیں یہ ایسا اوپن سیکریٹ ہے جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔
انتخابات میں اتنی بھاری سرمایہ کاری نہ مزدور کر سکتا ہے نہ کسان نہ غریب طبقات اس عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟ جمہوریت کا جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں ملک کی اکثریت غریب عوام انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ اس کا جواب مکمل نفی میں آتا ہے جس جمہوریت میں عوام کی نوے فی صد سے زیادہ اکثریت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکتے، پھر اس کا نام جمہوریت کیسے ہو سکتا ہے۔
نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، نہ غریب عوام کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کے فنڈز ہوں گے نہ وہ قانون ساز اداروں میں پہنچیں گے نہ عوامی مفاد میں قانون سازی ہو گی۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ بلدیاتی نظام دنیا بھر میں موجود ہے اور بلدیاتی نظام علاقائی مسائل کے حل کے لیے تشکیل دیا گیا ہے تا کہ علاقائی نظام میں علاقائی لوگ منتخب ہو کر عوام کے مسائل حل کر سکیں۔
اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے منتخب نمایندوں کو مکمل مالیاتی اور انتظامی اختیارات دیے جاتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ بلدیاتی اداروں کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں وہ بلدیاتی نظام کو صوبائی حکومت کے زیر تسلط رکھنا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے انتخابات کو ایک عرصہ گزرنے کے باوجود فعال نہیں کیا گیا ہے، یہ ہے ہماری جمہوریت کی شرمناک حقیقت کہ وہ عوامی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔
کیوں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عوام سے صرف جلسے جلوسوں میں زبردستی یا دہاڑی پر شرکت کے علاوہ صرف ایک جمہوری اختیار دینا چاہتی ہے اور وہ اختیار ہے پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر اپنے طبقاتی دشمنوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کا اختیار۔ ایلیٹ کی اس نفسیات اور طبقاتی ضرورتوں نے ہمارے انتخابی نظام کو بانجھ بنا کر رکھ دیا ہے اس خصوصی بانجھ نظام میں نچلے طبقات سے قیادت پیدا ہی نہیں ہو سکتی، کیونکہ نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کا ہر راستہ بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
ہر ملک میں خاص طور پر ایسے ملکوں میں جہاں اشرافیائی جمہوریت نافذ ہے، مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں اشرافیائی جمہوریت کے عوام دشمن اقدامات اور پالیسیوں کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی بھرمار ہے اور یہ تمام جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔ ہمارے ملک میں درجنوں قوم پرست جماعتیں موجود ہیں یہ ساری جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں ہمارے ملک میں لسانی حوالوں سے تشکیل پانے والی جماعتیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں، ہمارے ملک میں فقہی بنیادوں پر منظم کی جانے والی جماعتیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔
ہمارے ملک میں ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئرز پر مشتمل تنظیمیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔ اصولاً ان جماعتوں اور تنظیموں کو سیاسی اشرافیہ کی طبقاتی آمریت کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے لیکن جبہ و دستار سے لے کر وائٹ کالر تک تمام جماعتیں تمام تنظیمیں یا تو چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں یا سیاسی اشرافیہ کی چھتری تلے ہی میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہیں۔
ہمارے مڈل کلاس اہل علم، اہل قلم، اہل دانش بجا طور پر یہ فرماتے ہیں کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی تو کبھی نہ کبھی عوامی جمہوریت کے آنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
ہو سکتا ہے یہ خواہش تھیوری کے حساب سے درست ہو لیکن اگر ہم پریکٹیکل کے حوالے سے اس جمہوریت پر نظر ڈالیں تو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا کیوں کہ سیاسی اشرافیہ نے ولی عہدوں کے ریوڑ تیار کر کے کئی نسلوں تک اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ اس رکاوٹ کے علاوہ ایک امید بلدیاتی نظام سے کی جا سکتی تھی کہ شاید بلدیاتی نظام سے عوامی جمہوریت پیدا ہو لیکن ہماری عیار اشرافیہ نے اس نظام کو بھی بانجھ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں بس ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ تباہ حال عوام انقلاب فرانس کے راستے پر چل پڑیں اور ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے کی کوئی سبیل نکل آئے۔
2013ء کے الیکشن کے دوران بھی سیاسی رہنماؤں کے جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں کرسیاں لگائی جاتی تھیں اور کرسیاں بھرنے کے لیے بھرتی کے لوگوں کو بڑی تعداد میں لایا جاتا تھا۔ انتخابات کے موقعے پر امیدواروں کا عوام میں جانا ضروری اس لیے ہوتا ہے کہ امیدوار اپنے پروگراموں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری سیاست مختلف سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں سے عبارت ہے۔
لہٰذا جلسوں میں پارٹی کے منشور سے حاضرین کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے لیکن ان ملکوں میں نہ لاکھوں عوام کے جلسے منعقد کیے جاتے ہیں نہ 2،2 کلو میٹر لمبے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ امیدواروں کے تعارف کا اہتمام سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں اور اس کا خرچ پورا کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں عوام سے انتخابی فنڈز جمع کرتی ہیں، امیدوار عموماً چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے پارٹیوں کے پروگرام عوام تک پہنچتے ہیں۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے، اس غریب ملک کے جلسوں جلوسوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ چونکہ ہماری سیاست کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے، لہٰذا ''پختہ کار'' سیاست دانوں کے لیے کروڑوں کا انتخابی بجٹ نہ حیران کن ہے نہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ اس ملک میں الیکشن پر کروڑوں کا سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ کیا وہ فی سبیل اﷲ ہوتا ہے؟ نہیں یہ ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہوتی ہے جس میں ایک کے اکیس وصول کیے جاتے ہیں یہ ایسا اوپن سیکریٹ ہے جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔
انتخابات میں اتنی بھاری سرمایہ کاری نہ مزدور کر سکتا ہے نہ کسان نہ غریب طبقات اس عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب کیا ہے؟ جمہوریت کا جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں ملک کی اکثریت غریب عوام انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ اس کا جواب مکمل نفی میں آتا ہے جس جمہوریت میں عوام کی نوے فی صد سے زیادہ اکثریت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکتے، پھر اس کا نام جمہوریت کیسے ہو سکتا ہے۔
نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، نہ غریب عوام کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کے فنڈز ہوں گے نہ وہ قانون ساز اداروں میں پہنچیں گے نہ عوامی مفاد میں قانون سازی ہو گی۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ بلدیاتی نظام دنیا بھر میں موجود ہے اور بلدیاتی نظام علاقائی مسائل کے حل کے لیے تشکیل دیا گیا ہے تا کہ علاقائی نظام میں علاقائی لوگ منتخب ہو کر عوام کے مسائل حل کر سکیں۔
اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے منتخب نمایندوں کو مکمل مالیاتی اور انتظامی اختیارات دیے جاتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ بلدیاتی اداروں کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں وہ بلدیاتی نظام کو صوبائی حکومت کے زیر تسلط رکھنا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے انتخابات کو ایک عرصہ گزرنے کے باوجود فعال نہیں کیا گیا ہے، یہ ہے ہماری جمہوریت کی شرمناک حقیقت کہ وہ عوامی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔
کیوں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عوام سے صرف جلسے جلوسوں میں زبردستی یا دہاڑی پر شرکت کے علاوہ صرف ایک جمہوری اختیار دینا چاہتی ہے اور وہ اختیار ہے پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر اپنے طبقاتی دشمنوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کا اختیار۔ ایلیٹ کی اس نفسیات اور طبقاتی ضرورتوں نے ہمارے انتخابی نظام کو بانجھ بنا کر رکھ دیا ہے اس خصوصی بانجھ نظام میں نچلے طبقات سے قیادت پیدا ہی نہیں ہو سکتی، کیونکہ نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کا ہر راستہ بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
ہر ملک میں خاص طور پر ایسے ملکوں میں جہاں اشرافیائی جمہوریت نافذ ہے، مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں اشرافیائی جمہوریت کے عوام دشمن اقدامات اور پالیسیوں کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی بھرمار ہے اور یہ تمام جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔ ہمارے ملک میں درجنوں قوم پرست جماعتیں موجود ہیں یہ ساری جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں ہمارے ملک میں لسانی حوالوں سے تشکیل پانے والی جماعتیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں، ہمارے ملک میں فقہی بنیادوں پر منظم کی جانے والی جماعتیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔
ہمارے ملک میں ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئرز پر مشتمل تنظیمیں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔ اصولاً ان جماعتوں اور تنظیموں کو سیاسی اشرافیہ کی طبقاتی آمریت کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے لیکن جبہ و دستار سے لے کر وائٹ کالر تک تمام جماعتیں تمام تنظیمیں یا تو چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں یا سیاسی اشرافیہ کی چھتری تلے ہی میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہیں۔
ہمارے مڈل کلاس اہل علم، اہل قلم، اہل دانش بجا طور پر یہ فرماتے ہیں کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی تو کبھی نہ کبھی عوامی جمہوریت کے آنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
ہو سکتا ہے یہ خواہش تھیوری کے حساب سے درست ہو لیکن اگر ہم پریکٹیکل کے حوالے سے اس جمہوریت پر نظر ڈالیں تو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا کیوں کہ سیاسی اشرافیہ نے ولی عہدوں کے ریوڑ تیار کر کے کئی نسلوں تک اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ اس رکاوٹ کے علاوہ ایک امید بلدیاتی نظام سے کی جا سکتی تھی کہ شاید بلدیاتی نظام سے عوامی جمہوریت پیدا ہو لیکن ہماری عیار اشرافیہ نے اس نظام کو بھی بانجھ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں بس ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ تباہ حال عوام انقلاب فرانس کے راستے پر چل پڑیں اور ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے کی کوئی سبیل نکل آئے۔