ٹرمپ کا حشر گولڈ اسمتھ جیسا ہو سکتا ہے
قدرتی طور پر ہر الیکشن کے دوران اقوام تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے
میرے ایک امریکی صحافی دوست جو اٹلانٹک کونسل کے صدر بھی ہیں' وہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد ہونا امریکا کے سیاسی منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر چکا ہے۔ بلاشبہ پوری دنیا کو امریکا کی اس نئی سیاسی صورتحال کے بارے میں حیرت اور تشویش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکا کے صدارتی امیدواروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکا کسی خوف میں مبتلا ہے اور سیاسی طور پر قوم جس طرح تقسیم ہوئی ہے' اس سے پہلے کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔
قدرتی طور پر ہر الیکشن کے دوران اقوام تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی ڈیمو کریٹ اور ریپبلکن پارٹیوں میں گہری تقسیم نمایاں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 41 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکا خارجی معاملات میں ضرورت سے زیادہ توانائی اور وسائل صرف کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 27 فیصد کا ماننا ہے کہ اس سے بھی زیادہ کرنے کی ضرورت ہے جب کہ 28 فیصد امریکی عوام کے مطابق امریکا مناسب خارجی اقدامات کر رہا ہے۔
48 فیصد امریکی یہ کہتے ہیں کہ امریکا کو افریقہ' ایشیا اور لاطینی امریکا کے غریب ممالک کی بیرونی امداد بڑھانی چاہیے۔ 50 فیصد امریکی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بہت سے اتحادی ممالک کا خیال ہے کہ امریکا کوئی بھی اقدام کرتے ہوئے اتحادیوں کی منظوری یا مشاورت نہیں لیتا۔ 51 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرتے وقت اتحادیوں کی رائے بھی لینا چاہیے۔ 40 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں جب کہ تقریباً 70 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکا کی دنیا میں لیڈر شپ مساوی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
47 فیصد ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں ایک بڑی تعداد میں ریپبلکن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کو دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے اپنے داخلی معاملات سلجھانے چاہئیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ لگ بھگ 67 فیصد رجسٹرڈ ریپبلکن اور وہ آزاد امیدوار جن کا جھکاؤ ریپبلکن پارٹی کی جانب ہے بھی ایسے خیالات رکھتے ہیں۔ اسی طرح 54 فیصد ڈیمو کریٹس جو کہ برنی سینڈرز کی حمایت کر رہے ہیں' ان کا بھی ماننا ہے کہ امریکا کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس 52 فیصد رجسٹرڈ ڈیمو کریٹس اور وہ آزاد امیدوار جن کا جھکاؤ ہلیری کلنٹن کی طرف ہے' وہ امریکا کی بیرونی ممالک کی امداد بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ قریباً 66 فیصد ریپبلکن امریکا کی بیرونی ممالک کی امداد کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے 78 فیصد حمایتی بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف 62 فیصد ڈیمو کریٹس گمان رکھتے ہیں کہ امریکا کو بیرونی امداد بڑھانی چاہیے۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے امریکنوں کے خوف میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور وہ دفاع پر اور زیادہ اخراجات کرنے کو تیار ہیں۔ 60 فی صد سے زیادہ ریپبلکن کا کہنا ہے کہ امریکا کو اپنے مسائل حل کرنے چاہیے اور دوسروں کے مسائل دوسروں کے لیے ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔ سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا البتہ یہ کہنا ہے کہ امریکا اگر صرف اندرونی مسائل میں ہی الجھ کر رہ گیا تو اس سے دنیا نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی اور زیادہ خطرناک ہو جائے گی۔
وہ تبصرہ نگار جو اس سے قبل پیش گوئی کر رہے تھے کہ ٹرمپ کبھی ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار نہیں بن سکے گا لیکن اب وہ اس کی جیت کے امکانات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف جنھیں ٹرمپ کی امکانی کامیابی کا یقین ہے وہ بھی یہی غلطی کر رہے ہیں کہ ریاست آئی اووا اور نیوہمپشائر کی پرائمریوں میں ٹرمپ کو کامیابی نہیں مل سکی۔ اس سلسلے میں جو عوامی جائزہ لیا گیا تھا اس میں ریپبلکن ووٹر کامیاب رہے تھے لیکن یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس جائزے پر یقین نہیں کیا۔ آخر مضبوط اور باصلاحیت امیدواروں کا کوئی گروہ ٹرمپ کی نامزدگی کو کس طرح روک سکتا ہے۔
جس چیز کو یہ لوگ نظر انداز کر گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ٹرمپ اس پوری بھیڑ میں سب سے مختلف شخصیت کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریپبلکن ووٹر اس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ انتخابی عمل میں سفید فام ووٹروں کی شرح اب 69 فی صد تک پہنچ چکی ہے جب کہ پچھلے الیکشن سے 2 فیصد کم ہے کیونکہ ہسپانوی' سیاہ فام اور ایشیائی ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ووٹ دینے کے اہل افراد کی تعداد 10.7 ملین تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت غیر سفید فام گروپوں پر مشتمل ہے۔ ٹرمپ کو اگر جیتنا ہے تو وہ صرف سفید فام ووٹ سے ہی جیت سکے گا۔ بصورت دیگر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشتہ 3 عشروں میں ٹرمپ جتنا مقبول عام امیدوار صدارتی نامزدگی کے لیے منظرعام پر نہیں آیا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹرمپ کو سیاہ فاموں اور لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی حمایت بھی ملے۔ فلوریڈا میں 87 فیصد ووٹروں کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے جو کہ مجموعی ووٹروں کا 84 فیصد ہیں لیکن یہ لوگ ٹرمپ کے نظریات کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔ لاطینی امریکی ووٹروں کی بڑی تعداد ریاست کو لوراڈو اور نیواڈا میں بھی موجود ہے جن کی شرح علی الترتیب 91 فیصد اور 87 فی صد ہے۔
اگر ٹرمپ پورے ملک سے لاطینی امریکا کے ووٹروں کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو اس کے مقابلے میں ڈیمو کریٹس کو 80 لاکھ مزید ووٹروں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے بارے میں سیاہ فام ووٹروں کا ابھی تک سروے نہیں کیا جا سکا البتہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاہ فام ووٹ کی تعدد 80 سے 90 فی صد کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کو اگر سیاہ فاموں کے 15 فیصد ووٹ بھی حاصل ہو جائیں تو وہ ڈیموکریٹس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ 60 سالوں میں ریپبلکن پارٹی کو سیاہ فاموں کے فیصد 15 ووٹ بھی نہیں مل سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ابھی تک ریپبلکن پارٹی کی طرف سے متحدہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف ڈیمو کریٹک پارٹی پوری طاقت کے ساتھ ملک بھرمیں ڈونلڈ کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ ملک کی اقتصادیات ترقی پذیر ہے اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے مالدار لوگ آپس میں گہرے روابط رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر جیتنا ہے تو اسے ایک بالکل مختلف شخص کی حیثیت سے نمودار ہونا پڑے گا۔ ریپبلکنز کے برعکس ڈیمو کریٹس ٹرمپ پر چاروں طرف سے حملے کریں گے اور اس کی ان کمزوریوں کو اجاگر کریں گے جن کی طرف ریپبلکنز نے ابھی تک توجہ نہیں دی۔ وہ ٹرمپ کی نسل پرستی اور لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی داستانوں کو اجاگر کریں گے۔
وہ عام لوگوں کی کہانیاں کو رنگ آمیزی کے ساتھ بیان کریں گے جن کو ٹرمپ کی بدسلوکی سے زک پہنچی ہو گی۔ ریپبلکن ووٹروں کی بڑی تعداد اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور جب ٹرمپ نے روایتی سیاستدانوں کے برج الٹا دیے تو اس کے حامیوں نے زبردست نعرہ بازی کی۔ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے اعلانات کیے اس سے نسل پرستوں کو بے حد مسرت ہوئی لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ لندن کے انتخابات میں جو حشر زیک گولڈ اسمتھ کا ہوا وہی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نہ ہو۔
قدرتی طور پر ہر الیکشن کے دوران اقوام تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی ڈیمو کریٹ اور ریپبلکن پارٹیوں میں گہری تقسیم نمایاں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 41 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکا خارجی معاملات میں ضرورت سے زیادہ توانائی اور وسائل صرف کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 27 فیصد کا ماننا ہے کہ اس سے بھی زیادہ کرنے کی ضرورت ہے جب کہ 28 فیصد امریکی عوام کے مطابق امریکا مناسب خارجی اقدامات کر رہا ہے۔
48 فیصد امریکی یہ کہتے ہیں کہ امریکا کو افریقہ' ایشیا اور لاطینی امریکا کے غریب ممالک کی بیرونی امداد بڑھانی چاہیے۔ 50 فیصد امریکی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بہت سے اتحادی ممالک کا خیال ہے کہ امریکا کوئی بھی اقدام کرتے ہوئے اتحادیوں کی منظوری یا مشاورت نہیں لیتا۔ 51 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرتے وقت اتحادیوں کی رائے بھی لینا چاہیے۔ 40 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں جب کہ تقریباً 70 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکا کی دنیا میں لیڈر شپ مساوی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
47 فیصد ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں ایک بڑی تعداد میں ریپبلکن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کو دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے اپنے داخلی معاملات سلجھانے چاہئیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ لگ بھگ 67 فیصد رجسٹرڈ ریپبلکن اور وہ آزاد امیدوار جن کا جھکاؤ ریپبلکن پارٹی کی جانب ہے بھی ایسے خیالات رکھتے ہیں۔ اسی طرح 54 فیصد ڈیمو کریٹس جو کہ برنی سینڈرز کی حمایت کر رہے ہیں' ان کا بھی ماننا ہے کہ امریکا کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس 52 فیصد رجسٹرڈ ڈیمو کریٹس اور وہ آزاد امیدوار جن کا جھکاؤ ہلیری کلنٹن کی طرف ہے' وہ امریکا کی بیرونی ممالک کی امداد بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ قریباً 66 فیصد ریپبلکن امریکا کی بیرونی ممالک کی امداد کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے 78 فیصد حمایتی بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف 62 فیصد ڈیمو کریٹس گمان رکھتے ہیں کہ امریکا کو بیرونی امداد بڑھانی چاہیے۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے امریکنوں کے خوف میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور وہ دفاع پر اور زیادہ اخراجات کرنے کو تیار ہیں۔ 60 فی صد سے زیادہ ریپبلکن کا کہنا ہے کہ امریکا کو اپنے مسائل حل کرنے چاہیے اور دوسروں کے مسائل دوسروں کے لیے ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔ سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا البتہ یہ کہنا ہے کہ امریکا اگر صرف اندرونی مسائل میں ہی الجھ کر رہ گیا تو اس سے دنیا نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی اور زیادہ خطرناک ہو جائے گی۔
وہ تبصرہ نگار جو اس سے قبل پیش گوئی کر رہے تھے کہ ٹرمپ کبھی ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار نہیں بن سکے گا لیکن اب وہ اس کی جیت کے امکانات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف جنھیں ٹرمپ کی امکانی کامیابی کا یقین ہے وہ بھی یہی غلطی کر رہے ہیں کہ ریاست آئی اووا اور نیوہمپشائر کی پرائمریوں میں ٹرمپ کو کامیابی نہیں مل سکی۔ اس سلسلے میں جو عوامی جائزہ لیا گیا تھا اس میں ریپبلکن ووٹر کامیاب رہے تھے لیکن یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس جائزے پر یقین نہیں کیا۔ آخر مضبوط اور باصلاحیت امیدواروں کا کوئی گروہ ٹرمپ کی نامزدگی کو کس طرح روک سکتا ہے۔
جس چیز کو یہ لوگ نظر انداز کر گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ٹرمپ اس پوری بھیڑ میں سب سے مختلف شخصیت کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریپبلکن ووٹر اس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ انتخابی عمل میں سفید فام ووٹروں کی شرح اب 69 فی صد تک پہنچ چکی ہے جب کہ پچھلے الیکشن سے 2 فیصد کم ہے کیونکہ ہسپانوی' سیاہ فام اور ایشیائی ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ووٹ دینے کے اہل افراد کی تعداد 10.7 ملین تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت غیر سفید فام گروپوں پر مشتمل ہے۔ ٹرمپ کو اگر جیتنا ہے تو وہ صرف سفید فام ووٹ سے ہی جیت سکے گا۔ بصورت دیگر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشتہ 3 عشروں میں ٹرمپ جتنا مقبول عام امیدوار صدارتی نامزدگی کے لیے منظرعام پر نہیں آیا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹرمپ کو سیاہ فاموں اور لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی حمایت بھی ملے۔ فلوریڈا میں 87 فیصد ووٹروں کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے جو کہ مجموعی ووٹروں کا 84 فیصد ہیں لیکن یہ لوگ ٹرمپ کے نظریات کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔ لاطینی امریکی ووٹروں کی بڑی تعداد ریاست کو لوراڈو اور نیواڈا میں بھی موجود ہے جن کی شرح علی الترتیب 91 فیصد اور 87 فی صد ہے۔
اگر ٹرمپ پورے ملک سے لاطینی امریکا کے ووٹروں کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو اس کے مقابلے میں ڈیمو کریٹس کو 80 لاکھ مزید ووٹروں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے بارے میں سیاہ فام ووٹروں کا ابھی تک سروے نہیں کیا جا سکا البتہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاہ فام ووٹ کی تعدد 80 سے 90 فی صد کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کو اگر سیاہ فاموں کے 15 فیصد ووٹ بھی حاصل ہو جائیں تو وہ ڈیموکریٹس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ 60 سالوں میں ریپبلکن پارٹی کو سیاہ فاموں کے فیصد 15 ووٹ بھی نہیں مل سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ابھی تک ریپبلکن پارٹی کی طرف سے متحدہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف ڈیمو کریٹک پارٹی پوری طاقت کے ساتھ ملک بھرمیں ڈونلڈ کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ ملک کی اقتصادیات ترقی پذیر ہے اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے مالدار لوگ آپس میں گہرے روابط رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر جیتنا ہے تو اسے ایک بالکل مختلف شخص کی حیثیت سے نمودار ہونا پڑے گا۔ ریپبلکنز کے برعکس ڈیمو کریٹس ٹرمپ پر چاروں طرف سے حملے کریں گے اور اس کی ان کمزوریوں کو اجاگر کریں گے جن کی طرف ریپبلکنز نے ابھی تک توجہ نہیں دی۔ وہ ٹرمپ کی نسل پرستی اور لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی داستانوں کو اجاگر کریں گے۔
وہ عام لوگوں کی کہانیاں کو رنگ آمیزی کے ساتھ بیان کریں گے جن کو ٹرمپ کی بدسلوکی سے زک پہنچی ہو گی۔ ریپبلکن ووٹروں کی بڑی تعداد اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور جب ٹرمپ نے روایتی سیاستدانوں کے برج الٹا دیے تو اس کے حامیوں نے زبردست نعرہ بازی کی۔ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے اعلانات کیے اس سے نسل پرستوں کو بے حد مسرت ہوئی لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ لندن کے انتخابات میں جو حشر زیک گولڈ اسمتھ کا ہوا وہی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نہ ہو۔