ایک اور سماجی کارکن قتل
خرم ذکی ایک پُرجوش سماجی کارکن تھے۔ کچھ عرصہ ٹی وی چینل میں فرائض انجام دیتے رہے۔
KARACHI:
خرم ذکی ایک پُرجوش سماجی کارکن تھے۔ کچھ عرصہ ٹی وی چینل میں فرائض انجام دیتے رہے۔ خرم ذکی کو اتوار کی رات نارتھ کراچی میں ایک ہوٹل کے سامنے نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ ان کے دو ساتھی بھی اس موقعے پر زخمی ہوئے۔ خرم اور ان کے ساتھیوں کو عباسی شہید اور پھر آغا خان اسپتال لے جایا گیا، خرم کے سینے پر پانچ گولیاں ماری گئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے ان کے معائنے کے بعد موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔ خرم ایک بیوہ ایک بیٹی اور بیٹے کو دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔ خرم سے پہلے کراچی میں سبین محمود، پروین رحمان، ڈاکٹر حافظ شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی سمیت سیکڑوں افراد اس طرح کے حملوں میں جاں بحق ہو چکے۔
خرم کے قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہت سے شواہد جمع کر لیے ہیں اور اس وقت استعمال ہونے والے موبائل ٹیلی فون کی الیکٹرانک لہروں کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ خرم ذکی پر حملہ کرنے والی ٹیم کے بعض افراد پہلے سے ہی اس ہوٹل میں موجود تھے جہاں اکثر خرم اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پینے جاتے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ایک ماہ پہلے سے ریکی ہو رہی تھی۔ خرم کی بیوہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو بہت عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں مگر انھیں کبھی پولیس نے سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔
پاکستان میں یوں تو سیاسی، مذہبی اور لسانی عقیدے کی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے ذمے داروں کا سراغ نہیں ملتا مگر دہشت گردی کی جنگ کے آغاز کے بعد صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔ کرائم رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ بعض مقدمات میں پولیس افسروں کو قاتلوں کا علم ہوتا ہے مگر بہت سی وجوہات کی بناء پر وہ کارروائی نہیں کرتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے بعض پولیس افسروں کو ان عناصر سے ہمدردی ہوتی ہے مگر اکثر معاملات میں پولیس افسروں کو ان افراد کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں ہوتی۔ بعض افسر اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے قاتلوں تک پہنچ جاتے ہیں، ان میں سے کچھ خود کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں اور نا معلوم گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ صحافیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض اوقات پولیس والے سنجیدگی سے تحقیقات نہیں کرتے اور ایف آئی آر اور چالان میں غلطیاں رہ جاتی ہیں۔
معروف سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل کا معاملہ بھی ایسی صورتحال کا شکار ہوا تھا جب سول سوسائٹی کی تنظیموں نے سول کورٹ میں عرضداشت داخل کی تو سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے کئی سال تک اس مقدمے کی سنجیدگی سے سماعت کی اور اعلیٰ پولیس افسروں کو بار بار معزز عدالت میں پیش ہونا پڑا، یوں پولیس کو دوبارہ تفتیش کرنی پڑی۔ اس دوران پروین رحمان کی بہن، والدہ اور اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ کے اہلکاروں کو شدید دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے افسروں نے او پی پی کے اورنگی کے صدر دفتر کو بند کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر بہرحال پولیس نے پر وین رحمان کے بڑے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ مگر محض پروین رحمان کے قاتلوں سے یہ معاملہ حل نہیں ہوتا۔ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے تعلیم کے حق اور مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھانے والے انتہا پسندوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے، وہاں سیکولر خیالات کی ترویج کرنے والے دانشوروں کی زندگی خطرے میں ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران بلاگ لکھنے والے چھ دانشوروں کو نامعلوم افراد نے گردن کاٹ کر اور فائرنگ کر کے قتل کیا، ان میں ایک یونیورسٹی کے معروف پروفیسر بھی تھے۔
عوامی لیگ کی حکومت سیکولر نظریات پر یقین رکھتی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دے کر یہ سمجھتی ہے کہ انتہا پسندی کا سدباب ہو رہا ہے مگر وہاں بھی انتہا پسندی جڑیں پکڑ رہی ہے۔ جس طرح بھارت میں انتہا پسندوں کی جارحیت سے صورتحال خراب ہوئی ہے وہاں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کرنے اور پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی توہین کے واقعات رونما ہوئے ہیں، مگر بھارت میں سپریم کورٹ سیکولر سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کی تحریکیں بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل راشٹریہ سیوک سنگھ انتہا پسندی کو پروان چڑھاتی ہے مگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجے میں سیکڑوں دانشوروں، ادیبوں اور فنکاروں نے قومی اعزازات واپس کیے۔ جن ریاستوں میں مودی مخالف جماعتیں برسر اقتدار ہیں وہاں گائے کا گوشت کھلے عام فروخت ہوتا ہے اور پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ پھر بھارتی سپریم کورٹ نے ہر شہری کی اپنی مرضی سے کھانے کے بنیادی حق میں فیصلہ دے کر انتہا پسندوں کے عزائم کو پست کیا ہے۔ یوں سلمان خان اور شاہ رخ خان کے خلاف تحریک چلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔
کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو کراچی میں ہونے والے آپریشن سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ کی شرح بہت کم ہو گئی ہے اور بہت سے انتہا پسند مارے گئے اور سیکڑوں گرفتار ہوئے، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں کے نئے گروہ پیدا ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان عزیز جنہوں نے انتہا پسندی اور میڈیا پر تحقیق کی ہے کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کی سازش ہنوز موجود ہے۔ مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں انتہا پسند ذہنوں کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈاکٹر عرفان کا کہنا ہے کہ یہ اساتذہ انتہا پسندی کے نقصانات سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، پھر انتہا پسند گروہوں کی مالیاتی پائپ لائن برقرار ہے، وفاقی و صوبائی حکومتیں ان پائپ لائنوں کو توڑنے میں ناکام ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ملک میں دولت جمع کرنے والے ذہنی طور پر انتہا پسند سرمایہ دار ان عناصر کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔
عوام اپنی معصومیت میں ان لوگوں کو امداد دیتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیاب پیشرفت کے باوجود ابھی تک اسلحے کی فراہمی کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، اسلحے کی آسانی سے دستیابی ان عناصر کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں مدد دیتی ہے۔ ایک اور سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ بعض ریاستی قوتیں بعض انتہا پسند گروپوں کی اب بھی سرپرستی کرتی ہیں اور انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک مؤثر آپریشن کے باوجود یہ عناصر اپنے ٹارگٹ حاصل کر لیتے ہیں۔
بعض صحافیوں کو خرم ذکی کے خیالات سے سخت اختلاف ہے، ان میں سے کچھ نے اپنے خیالات کا اظہار ای میل اور فیس بک پر بھی کیا ہے مگر ایسے موقعے پر ایسے خیالات سے محض قاتلوں کے لیے ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے۔ ان صحافیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ محض نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر قتل ایک خطرناک روایت ہے۔
پاکستان میں صادق خان کے لندن کے لارڈ میئر بننے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر اس خوشی کا اظہار کرنے والے اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ برطانیہ ایک سیکولر ریاست ہے جہاں خیال کے اظہار پر قتل نہیں ہوتے۔ قائداعظم کا بھی یہی خیال تھا اور انھوں نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن انھی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس صورتحال کا حقیقی حل یہی ہے کہ ریاست کو مکمل طور پر سیکولر بنایا جائے اور خیال کی آزادی کا احترام کیا جائے، ورنہ ہر گروہ کے ماننے والے اپنے پیاروں کے قتل پر ماتم کرتے رہیں گے۔