آخری سوال روٹی کا ہے
بڑی بڑی این جی اوز اور فلاحی کام کرنے والی انجمنیں اکثر کہا کرتی ہیں کہ چائلڈ لیبر ایک جرم ہے۔
بڑی بڑی این جی اوز اور فلاحی کام کرنے والی انجمنیں اکثر کہا کرتی ہیں کہ چائلڈ لیبر ایک جرم ہے۔ یہ بات درست بھی ہے۔ اس لیے کہ کم عمر بچوں کو پڑھنا چاہیے اور کھیل کود میں اپنا وقت گزارنا چاہیے۔ صائمہ تو ابھی صرف پندرہ سال کی بچی ہے، اسے نویں جماعت میں پڑھنا چاہیے تھا۔ لیکن کیا کرے؟ باپ کو روز مزدوری ملتی نہیں اور جب مل بھی جاتی ہے تو سارے پیسے خود ہی ہتھیا لیتا ہے، بیوی کی کیا مجال کہ اس سے پیسے مانگ لے۔ جب کبھی کچھ زیادہ کما لیتا ہے تو نشے کی دنیا میں چلاجاتا ہے ، اپنے آپ کو کھونے کے لیے منشیات بھی استعمال کرلیتا ہے۔ وہ پانچ بچیوں کا باپ ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اب گھر چلانے کے لیے بچوں کی ماں رخسانہ جو کہ 45 سال کی ہوگی، گھروں میں جھاڑو پوچا کرتی ہے، بیٹی صائمہ بھی ساتھ ہوتی ہے۔ بیٹی میرے گھر میں اور ماں اوپر والے فلیٹ میں کام کرتی ہے۔ ہر گھر سے مشکل سے ہزار روپے ملتے ہیں۔ صبح سے شام تک بمشکل چھ سات گھر میں کام کرلیتی ہیں۔
کل ملا کر آٹھ ہزار روپے بھی مل جاتے ہیں تو اس میں سے پانچ ہزار روپے گھر کا کرایہ دینے میں چلا جاتا ہے، وہ بھی عظیم پورہ میں جہاں بیشتر لوگ محنت کش ہیں، ورنہ شاہ فیصل کالونی، الفلاح سوسائٹی، ڈرگ روڈ اور رفاع عام سوسائٹی میں تو سات آٹھ ہزار روپے سے کم نہ ملے گا۔ رخسانہ جنوبی پنجاب کی ہے، وہ سرائیکی بولتی ہے۔ سرائیکی (جنوبی پنجاب) علاقے میں جاگیرداروں کے پاس زمین کے بہت بڑے بڑے رقبے ہیں تو دوسری جانب بے زمین کسانوں کی کھیپ۔ شاید اسی لیے پنجابی کے معروف انقلابی شاعر بابا نجمی نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ:
اکو تیرا میرا پیو،
اکو تیری میری ماں،
اکو ساڈے جنم بھوں،
تو سردار میں کمی کیوں؟
رخسانہ ایک روز کہنے لگی کہ یہ بچی تو اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ سن کر ہم دم بخود ہوگئے، اس لیے بھی کہ میری بیٹی اسے بہت پیار کرتی ہے اور ہم بھی اسے بہت شفقت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بچی بھی ایسی معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ خاموشی سے کام کرتی ہے اور جانے کے وقت صرف یہ کہتی ہے کہ انکل یا آنٹی میں جارہی ہوں۔ کبھی جواب دیتی ہے اور نہ زور سے بولتی ہے۔
یا تو اس کا بہت ہی مہذب اور شریف ماحول ہے یا پھر سہمی ہوئی ہوتی ہے۔ زیادہ تر اس بات کا ہی امکان ہے کہ گھروں میں کام کروانے والے ایسے بچوں کو اپنے بچوں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے کمتر سمجھتے ہیں۔ اگر وہ مکینوں کو ڈانٹ پھٹکار کا جواب دے تو اس کی وہاں سے چھٹی ہو جائے گی اور ہزار روپے سے بھی جائے گی، اس لیے بہتر ہے کہ خاموش ذلت آمیز زندگی گزارتے ہوئے کام کیے جائے۔ میں نے جب اس کی ماں سے پوچھا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو چند دنوں کی مہمان کیوں کہا؟ اس پر وہ کہنے لگی کہ میں اس کی بہت جلد شادی کروانے والی ہوں۔
میں نے کہا کہ اس کی ابھی عمر ہی کیا ہے، بیس سال تو ہونے دو۔ تو وہ دردناک انداز میں بتانے لگی کہ 'میرا شوہر دوسری شادی کرنے کی تیاری میں ہے اور جہاں اپنی شادی کرنا چاہتا ہے، اسی خاندان کے ایک ادھیڑ عمر کے شخص سے اپنی بیٹی صائمہ کی شادی کروانا چاہتا تھا۔ مگر میرے لیے خوش قسمتی یہ ہوئی کہ بیس بائیس سال کا ایک لڑکا مل گیا اور ان کے والدین میری بیٹی سے شادی کروانے پر آمادہ ہوگئے، ورنہ صائمہ کی شادی اس ادھیڑ عمر کے آدمی سے ہوجاتی۔ اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟ رخسانہ نے یہ سوال کرکے میرے سارے فلسفے، ساری دانش اور ساری عقل کو نہ صرف یکسر خاموش بلکہ لاجواب کردیا۔ میرے پاس کوئی جواب، کوئی ترکیب یا کوئی متبادل تجویز نہیں تھی۔ اس لیے کہ ہمارے سماج میں خواتین پڑھی لکھی ہیں، نہ اتنا شعور ہے اور نہ دانش۔ ہزار میں سے چند خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سال سسرالیوں کے بہیمانہ تشدد، کاروکاری میں باپ یا بھائی کی جانب سے ہلاک کرنے اور ریپ کے بعد چھ ہزار خواتین کا قتل ہوا۔ صرف ریڈ ہیموگلوبین کی کمی کی وجہ سے ایک لاکھ میں سے ساڑھے چار سو خواتین زچگی کے دوران جان سے جاتی رہتی ہیں۔ یہ تو دڑبے کی مرغی یا پنجرے کے کبوتر ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ دڑبے کی مرغیوں اور کبوتروں کو صبح کو کھولا تو جاتا ہے اور وہ کھلی فضا میں اڑتے اور بھاگتے ہیں لیکن ہماری خواتین تو 'فارم کی مرغیاں' ہیں۔ وہ باڑے میں رہتی ہیں، وہیں کھاتی ہیں اور وہیں سوجاتی ہیں، پھر آخری ایام میں قصائی خانے میں یا پھر قبرستان کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ میں یہ کوئی افسانہ نہیں لکھ رہا ہوں۔
آپ باہر نکلیں، کسی فٹ پاتھ پر، کسی پارک میں، کسی ہوٹل میں، کسی گلی میں، کسی چھت پہ یا کسی نہر میں خواتین یا لڑکیوں کو کھیلتے، بھاگتے، تیرتے، بیٹھے یا قہقہے لگاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ میری بیٹی جب پانچ چھ برس کی تھی تو ایک روز اس نے مجھ سے بڑا معصومانہ سوال کیا کہ 'بابا ہوٹلوں اور میدانوں میں لڑکیاں کیوں نہیں ہیں، یہاں تو صرف لڑکے ہی لڑکے ہیں'۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمارا معاشرہ مردوں کی اجارہ داری والا معاشرہ ہے، لڑکیاں اور عورتیں یہاں دہرے بلکہ تہرے استحصال کی شکار ہیں۔ ایک مردوں، دوسرا سماج اور تیسرا مذہبی رہنما۔ شاید اس وقت یہ بات اس کے سر سے گزر گئی ہو، مگر اب نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ میرے کیے ہوئے غلط اقدام پر تنقید کرکے لاجواب کردیتی ہے۔
یہ اس لیے بھی کہ ہم میاں بیوی دونوں کمیونسٹ ہیں اور اسی ناتے انسانوں کو رنگ و نسل، ذات پات، جنس، مذہب اور فرقوں میں تقسیم کرنے کے بجائے نسل انسانی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں سب کے ہاں ایسا ماحول نہیں ہے۔ اب رخسانہ کو ہی لے لیں۔ اس کا ایک سماج ہے، خاندان ہے، بچے ہیں اور رشتے دار ہیں۔ بغاوت بھی کردے تو کہاں جائے گی، کہاں رہے گی؟ کچھ پڑھی لکھی عورت تو کچھ نہ کچھ کرلے گی یا این جی اوز والی خواتین، شعور کی آگہی کے نام پر چند لیکچر دے کر کچھ خواتین کے ذہنوں کو تبدیل تو کرسکتی ہیں مگر سارے سماج کو نہیں۔ اس کے لیے اس طبقاتی معاشرے کو ختم کرنا ہوگا۔
مرد اور عورت کو مل کر نجی ملکیت، جائیداد، طبقات، جاگیرداری، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مسلسل بغاوت، تحریک اور جدوجہد کی پرپیچ اور تکلیف دہ راہوں سے گزرنا ہوگا۔ آپ خود دیکھیں کہ اندرونی یا بیرونی یا خواتین کے دباؤ کی وجہ سے پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حق میں ایک بل منظور کیا، جس پر مذہبی جماعتوں نے بہت شور مچایا جب کہ 2015 میں گھریلو تشدد سے ہزاروں خواتین جان سے جاتی رہیں اور کسی بھی مذہبی وسیاسی جماعت نے ریلی نکالی اور نہ ہڑتال کی۔ ہر روز دو چار خواتین کا غیرت کے نام پر اور بدچلنی کے نام پر قتل ہوتا ہے، مگر کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ جب کہ مرد اجتماعی ریپ کرکے اور انفرادی زیادتی کرکے لڑکیوں کو قتل کردیتے ہیں اور قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ رخسانہ نے تو پھر بھی ان این جی اوز والی خواتین سے بہتر عقل مندی کا کام کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ این جی اوز اور بورژوا (سرمایہ دار) پارٹیاں بل پاس کروانے کے ساتھ ساتھ طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی تبدیلی لانے کی جدوجہد کریں۔
ایک روز رخسانہ شکل سے کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ تم شکل سے پریشان کیوں لگ رہی ہو؟ تم نے تو خوشی کا اظہار کیا کہ بچی کی شادی طے کردی ہے۔ تو کہنے لگی کہ میری مزید چار بچیاں ہیں، صائمہ کی شادی ہوجانے سے میری کمائی کم ہوجائے گی اور اس کی شادی کے اخراجات کے پیسے کہاں سے لاؤں گی؟ بات تو درست ہے۔ شادی ہو، سماجی بندھن ہو، جبر ہو یا خوشی، آخری سوال روٹی کا ہے۔ جو اسے بچی کی شادی طے کرنے کے بعد بھی ستا رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اب گھر چلانے کے لیے بچوں کی ماں رخسانہ جو کہ 45 سال کی ہوگی، گھروں میں جھاڑو پوچا کرتی ہے، بیٹی صائمہ بھی ساتھ ہوتی ہے۔ بیٹی میرے گھر میں اور ماں اوپر والے فلیٹ میں کام کرتی ہے۔ ہر گھر سے مشکل سے ہزار روپے ملتے ہیں۔ صبح سے شام تک بمشکل چھ سات گھر میں کام کرلیتی ہیں۔
کل ملا کر آٹھ ہزار روپے بھی مل جاتے ہیں تو اس میں سے پانچ ہزار روپے گھر کا کرایہ دینے میں چلا جاتا ہے، وہ بھی عظیم پورہ میں جہاں بیشتر لوگ محنت کش ہیں، ورنہ شاہ فیصل کالونی، الفلاح سوسائٹی، ڈرگ روڈ اور رفاع عام سوسائٹی میں تو سات آٹھ ہزار روپے سے کم نہ ملے گا۔ رخسانہ جنوبی پنجاب کی ہے، وہ سرائیکی بولتی ہے۔ سرائیکی (جنوبی پنجاب) علاقے میں جاگیرداروں کے پاس زمین کے بہت بڑے بڑے رقبے ہیں تو دوسری جانب بے زمین کسانوں کی کھیپ۔ شاید اسی لیے پنجابی کے معروف انقلابی شاعر بابا نجمی نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ:
اکو تیرا میرا پیو،
اکو تیری میری ماں،
اکو ساڈے جنم بھوں،
تو سردار میں کمی کیوں؟
رخسانہ ایک روز کہنے لگی کہ یہ بچی تو اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ سن کر ہم دم بخود ہوگئے، اس لیے بھی کہ میری بیٹی اسے بہت پیار کرتی ہے اور ہم بھی اسے بہت شفقت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بچی بھی ایسی معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ خاموشی سے کام کرتی ہے اور جانے کے وقت صرف یہ کہتی ہے کہ انکل یا آنٹی میں جارہی ہوں۔ کبھی جواب دیتی ہے اور نہ زور سے بولتی ہے۔
یا تو اس کا بہت ہی مہذب اور شریف ماحول ہے یا پھر سہمی ہوئی ہوتی ہے۔ زیادہ تر اس بات کا ہی امکان ہے کہ گھروں میں کام کروانے والے ایسے بچوں کو اپنے بچوں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے کمتر سمجھتے ہیں۔ اگر وہ مکینوں کو ڈانٹ پھٹکار کا جواب دے تو اس کی وہاں سے چھٹی ہو جائے گی اور ہزار روپے سے بھی جائے گی، اس لیے بہتر ہے کہ خاموش ذلت آمیز زندگی گزارتے ہوئے کام کیے جائے۔ میں نے جب اس کی ماں سے پوچھا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو چند دنوں کی مہمان کیوں کہا؟ اس پر وہ کہنے لگی کہ میں اس کی بہت جلد شادی کروانے والی ہوں۔
میں نے کہا کہ اس کی ابھی عمر ہی کیا ہے، بیس سال تو ہونے دو۔ تو وہ دردناک انداز میں بتانے لگی کہ 'میرا شوہر دوسری شادی کرنے کی تیاری میں ہے اور جہاں اپنی شادی کرنا چاہتا ہے، اسی خاندان کے ایک ادھیڑ عمر کے شخص سے اپنی بیٹی صائمہ کی شادی کروانا چاہتا تھا۔ مگر میرے لیے خوش قسمتی یہ ہوئی کہ بیس بائیس سال کا ایک لڑکا مل گیا اور ان کے والدین میری بیٹی سے شادی کروانے پر آمادہ ہوگئے، ورنہ صائمہ کی شادی اس ادھیڑ عمر کے آدمی سے ہوجاتی۔ اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟ رخسانہ نے یہ سوال کرکے میرے سارے فلسفے، ساری دانش اور ساری عقل کو نہ صرف یکسر خاموش بلکہ لاجواب کردیا۔ میرے پاس کوئی جواب، کوئی ترکیب یا کوئی متبادل تجویز نہیں تھی۔ اس لیے کہ ہمارے سماج میں خواتین پڑھی لکھی ہیں، نہ اتنا شعور ہے اور نہ دانش۔ ہزار میں سے چند خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سال سسرالیوں کے بہیمانہ تشدد، کاروکاری میں باپ یا بھائی کی جانب سے ہلاک کرنے اور ریپ کے بعد چھ ہزار خواتین کا قتل ہوا۔ صرف ریڈ ہیموگلوبین کی کمی کی وجہ سے ایک لاکھ میں سے ساڑھے چار سو خواتین زچگی کے دوران جان سے جاتی رہتی ہیں۔ یہ تو دڑبے کی مرغی یا پنجرے کے کبوتر ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ دڑبے کی مرغیوں اور کبوتروں کو صبح کو کھولا تو جاتا ہے اور وہ کھلی فضا میں اڑتے اور بھاگتے ہیں لیکن ہماری خواتین تو 'فارم کی مرغیاں' ہیں۔ وہ باڑے میں رہتی ہیں، وہیں کھاتی ہیں اور وہیں سوجاتی ہیں، پھر آخری ایام میں قصائی خانے میں یا پھر قبرستان کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ میں یہ کوئی افسانہ نہیں لکھ رہا ہوں۔
آپ باہر نکلیں، کسی فٹ پاتھ پر، کسی پارک میں، کسی ہوٹل میں، کسی گلی میں، کسی چھت پہ یا کسی نہر میں خواتین یا لڑکیوں کو کھیلتے، بھاگتے، تیرتے، بیٹھے یا قہقہے لگاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ میری بیٹی جب پانچ چھ برس کی تھی تو ایک روز اس نے مجھ سے بڑا معصومانہ سوال کیا کہ 'بابا ہوٹلوں اور میدانوں میں لڑکیاں کیوں نہیں ہیں، یہاں تو صرف لڑکے ہی لڑکے ہیں'۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمارا معاشرہ مردوں کی اجارہ داری والا معاشرہ ہے، لڑکیاں اور عورتیں یہاں دہرے بلکہ تہرے استحصال کی شکار ہیں۔ ایک مردوں، دوسرا سماج اور تیسرا مذہبی رہنما۔ شاید اس وقت یہ بات اس کے سر سے گزر گئی ہو، مگر اب نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ میرے کیے ہوئے غلط اقدام پر تنقید کرکے لاجواب کردیتی ہے۔
یہ اس لیے بھی کہ ہم میاں بیوی دونوں کمیونسٹ ہیں اور اسی ناتے انسانوں کو رنگ و نسل، ذات پات، جنس، مذہب اور فرقوں میں تقسیم کرنے کے بجائے نسل انسانی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں سب کے ہاں ایسا ماحول نہیں ہے۔ اب رخسانہ کو ہی لے لیں۔ اس کا ایک سماج ہے، خاندان ہے، بچے ہیں اور رشتے دار ہیں۔ بغاوت بھی کردے تو کہاں جائے گی، کہاں رہے گی؟ کچھ پڑھی لکھی عورت تو کچھ نہ کچھ کرلے گی یا این جی اوز والی خواتین، شعور کی آگہی کے نام پر چند لیکچر دے کر کچھ خواتین کے ذہنوں کو تبدیل تو کرسکتی ہیں مگر سارے سماج کو نہیں۔ اس کے لیے اس طبقاتی معاشرے کو ختم کرنا ہوگا۔
مرد اور عورت کو مل کر نجی ملکیت، جائیداد، طبقات، جاگیرداری، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مسلسل بغاوت، تحریک اور جدوجہد کی پرپیچ اور تکلیف دہ راہوں سے گزرنا ہوگا۔ آپ خود دیکھیں کہ اندرونی یا بیرونی یا خواتین کے دباؤ کی وجہ سے پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حق میں ایک بل منظور کیا، جس پر مذہبی جماعتوں نے بہت شور مچایا جب کہ 2015 میں گھریلو تشدد سے ہزاروں خواتین جان سے جاتی رہیں اور کسی بھی مذہبی وسیاسی جماعت نے ریلی نکالی اور نہ ہڑتال کی۔ ہر روز دو چار خواتین کا غیرت کے نام پر اور بدچلنی کے نام پر قتل ہوتا ہے، مگر کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ جب کہ مرد اجتماعی ریپ کرکے اور انفرادی زیادتی کرکے لڑکیوں کو قتل کردیتے ہیں اور قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ رخسانہ نے تو پھر بھی ان این جی اوز والی خواتین سے بہتر عقل مندی کا کام کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ این جی اوز اور بورژوا (سرمایہ دار) پارٹیاں بل پاس کروانے کے ساتھ ساتھ طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی تبدیلی لانے کی جدوجہد کریں۔
ایک روز رخسانہ شکل سے کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ تم شکل سے پریشان کیوں لگ رہی ہو؟ تم نے تو خوشی کا اظہار کیا کہ بچی کی شادی طے کردی ہے۔ تو کہنے لگی کہ میری مزید چار بچیاں ہیں، صائمہ کی شادی ہوجانے سے میری کمائی کم ہوجائے گی اور اس کی شادی کے اخراجات کے پیسے کہاں سے لاؤں گی؟ بات تو درست ہے۔ شادی ہو، سماجی بندھن ہو، جبر ہو یا خوشی، آخری سوال روٹی کا ہے۔ جو اسے بچی کی شادی طے کرنے کے بعد بھی ستا رہا ہے۔