پوچھ نہ کیا لاہور میں دیکھا
تاریخ ادھڑی ہوئی ہے‘ مناظر بھدے ہو چکے ہیں‘ تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی سمٹے سمٹے سے تھے
تاریخ ادھڑی ہوئی ہے' مناظر بھدے ہو چکے ہیں' تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی سمٹے سمٹے سے تھے۔ جھوٹی سچی تاریخ دونوں ہی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ جھوٹی تاریخ بادشاہوں نے لکھوائی تھی' سچی تاریخ در و دیوار صدیوں سے بیان کر رہے ہیں۔ پرانے شہر میں گھس جائیں' تو رستے گلیاں بولنے لگتے ہیں۔ ناریوں کے گہرے رنگیں آنچل لہرانے لگتے ہیں' پازیبوں کی مدھر جھنکار' لچکتے بدن' نظریں اٹھیں تو قیامت' جھکیں تو قیامت ' شہر کیا تھا چند دروازے تھے جن میں شہر بند تھا۔ گلیاں' کوچے بازار کیا کہوں! بس مصوری تھی۔
وقت کا کیا ہے ' گزرتا ہے' اور نئے نقش ابھرتے جاتے ہیں۔ دروازوں میں بند شہر باہر نکل آیا۔ صدیوں کی روایات کہاں معدوم ہوتی ہیں' سو باہر نکل کر بھی مصوری کے اعلیٰ شاہکار زمین پر ابھرتے گئے ' باغ' پانی کی روشیں' فوارے' بارہ دریاں' پھولوں کے تختے' راہداریاں' بادشاہ نے کیا خوب باغ بنوایا اور شالامار نام دیا۔ باغوں کا شہر تھا' شہر سے ذرا دور ایک شہزادی نے باغ بنوایا ' چار برجوں والا دروازہ بنوایا' وقت کے ہاتھوں باغ تو اجڑ پھچڑ گیا ' چوبرجی دروازہ قائم ہے۔ یہ دروازہ بڑا نمایاں تھا۔ مگر اب بھیڑ میں کھو گیا ہے۔ بڑھتا پھلتا پھولتا شہر' حسن و رعنائی کھا گیا۔ لمبے اور کہیں کہیں بل کھاتے پل چھا گئے ہیں۔
آج کل میں اسی باغوں والے شہر میں موجود ہوں' تقریباً پورا شہر کھدا ہوا ہے۔ دھول مٹی اڑ رہی ہے' رستے بند سے ہیں' لوگوں کا بڑا گھوم پھر کے جانا آنا ہو رہا ہے۔ بھاری مشینری سے تعمیراتی کام جاری ہیں ۔ اربوں روپے لگ چکے ہیں' اربوں ہی اور لگیں گے' پھر کہیں بکھرا کام سمٹے گا۔ دھڑکا اس بات کا ہے کہ سب کیا دھرا ' دھرا کا دھرا نہ رہ جائے۔ حکومت پر بڑا ہی بھرپور وار کیا گیا ہے' اگر مخالفین کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اربوں روپوں کی تعمیرات کو منسوخ کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ یہ نقصان کس کے کھاتے میں جائے گا۔
غریب کا تو اس سارے کھلواڑ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ غریب بیچارہ تو وہی رہے گا' جو وہ ہے۔ یہ تو اللہ کی زمین پر قابض' وسائل پر مسلط ' ظالم حکمرانوں کا آپس کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں کون جیتے' کون ہارے ۔ یہ ہارنے والے جانے یا جیتنے والے جانے۔ غریب تو کبھی جیتا ہی نہیں نہ وہ کبھی جیت سکتا ہے۔ غریب تو ازل کا ہارا ہوا ہے۔
ایک بیان چلا تھا۔ حکمران جماعت کے ایک لیڈر نے کہاتھا۔ ''اگر کوئی رائیونڈ کی طرف آیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ادھر بنی گالہ والوں کا بھی یہ فرمانا ہے کہ ''اگر کوئی بنی گالہ آیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔'' غریب بیچارا دونوں اطراف کے ٹانگیں توڑنے والے اعلان پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہے۔ مگر بے وقوف غریب کو پتا نہیں ہے کہ یہ نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا' نہ کوئی جاتی امرا جائے گا اور نہ کوئی بنی گالہ جائے گا۔ ''حکمرانوں'' کی ٹانگیں سلامت رہیں گی' اور اگر ایسا ہو جائے کہ دونوں حکمران طبقے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑ دیں' تو غریب بیچارے کو کیا ملے گا' کچھ بھی نہیں۔
پانامہ لیکس آیا' اور چھا گیا' بہت سے کرپشن کے کیس' دب سے گئے ہیں' ڈاکٹر عاصم' عزیر بلوچ' عبدالقادر چائنہ کٹنگ' زمینوں پر قبضے ' حتیٰ کہ''چھوٹو گینگ'' میں سے کیا نکلا کچھ پتہ نہیں۔ کراچی آپریشن بھی ماٹھا ماٹھا سا چل رہا ہے۔ باقی جو چل رہا ہے وہ ہے پانامہ لیکس آف شور کمپنیز اکاؤنٹ۔
چلو یہ بھی وقت گزر جائے گا۔ جیسے 1947ء سے آج تک لوٹ مار ہوتی رہی ہے' قرضے معاف ہوتے رہے ہیں' کرپشن تمام حکومتی محکموں میں رشوت کا بازار گرم ہے' اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ' لاہور کے تاریخی حسن کی پامالی سے' کہا جا رہا ہے کہ تاریخی ورثہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ جس ''حسن'' کو دیکھ کر ہم خوش ہو لیتے تھے۔ اس حسن کا خاتمہ کیا جا رہا ہے' مگر غریب بیچارے کا تاریخی ورثے کی پامالی سے کیا لینا دینا' وہ تو بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ دیکھ پامال ہو رہا ہے'برباد ہو رہا ہے' اور بالآخر بچوں سمیت خودکشی کر کے دنیا کے جھنجھٹ سے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔
یہ تاریخی ورثہ' یہ میٹرو' یہ فلائی اوور ' یہ انڈر پاسزز' یہ پانامہ لیکس' یہ آف شور کمپنیاں' یہ بنی گالہ' یہ جاتی امراء' یہ ٹانگیں توڑنا' یہ جلسے جلوس' یہ میلے ٹھیلے' یہ '' عمران خان دے جلسے اج میرا نچنے نوں جی کردا'' بھئی جن کا ناچنے کو جی چاہ رہاہے وہ ضرور ناچیں ' ان کو ناچنا گانا مبارک ہو' مگر غریب بیچارا تو پہلے ہی تنگی کا ناچ ناچ رہا ہے' وہ مزید کیا ناچے گا' اس کا ناچنے کو کیا دل چاہے گا۔ وہ تو مسائل کے تحت ناچ ناچ کر ''حفاں'' (برا حال) ہو چکا ہے۔
باقی کراچی کی طرح لاہور کی سڑکوں پر بھی ٹریفک کا اژدہام ہے' رات گئے تک شہر جاگتا ہے' اعلیٰ ہوٹل' ادنیٰ ہوٹل کھلے رہتے ہیں۔ وہ زمانے کدھر گئے جب لاہور والے عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے' اب تو لاہور والے ساری رات سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی کاروں ' رکشاؤں ' ویگنوں میں نظر آتے ہیں۔ لاہور کا پھیلاؤ بیان سے باہر ہے۔ اور آبادی یقینا ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لاہور کے قلم کار' ادیب شاعر بھی خوب مصروف ہیں' شہر میں روز ادبی پروگرام ہوتے ہیں' الحمراء اور پاک ٹی ہاؤس ودیگر ادبی بیٹھکیں آباد ہیں۔ باقی دھول مٹی بہت ہے۔ لوگ پریشان ہیں' بزرگ بچے خصوصاً۔
وقت کا کیا ہے ' گزرتا ہے' اور نئے نقش ابھرتے جاتے ہیں۔ دروازوں میں بند شہر باہر نکل آیا۔ صدیوں کی روایات کہاں معدوم ہوتی ہیں' سو باہر نکل کر بھی مصوری کے اعلیٰ شاہکار زمین پر ابھرتے گئے ' باغ' پانی کی روشیں' فوارے' بارہ دریاں' پھولوں کے تختے' راہداریاں' بادشاہ نے کیا خوب باغ بنوایا اور شالامار نام دیا۔ باغوں کا شہر تھا' شہر سے ذرا دور ایک شہزادی نے باغ بنوایا ' چار برجوں والا دروازہ بنوایا' وقت کے ہاتھوں باغ تو اجڑ پھچڑ گیا ' چوبرجی دروازہ قائم ہے۔ یہ دروازہ بڑا نمایاں تھا۔ مگر اب بھیڑ میں کھو گیا ہے۔ بڑھتا پھلتا پھولتا شہر' حسن و رعنائی کھا گیا۔ لمبے اور کہیں کہیں بل کھاتے پل چھا گئے ہیں۔
آج کل میں اسی باغوں والے شہر میں موجود ہوں' تقریباً پورا شہر کھدا ہوا ہے۔ دھول مٹی اڑ رہی ہے' رستے بند سے ہیں' لوگوں کا بڑا گھوم پھر کے جانا آنا ہو رہا ہے۔ بھاری مشینری سے تعمیراتی کام جاری ہیں ۔ اربوں روپے لگ چکے ہیں' اربوں ہی اور لگیں گے' پھر کہیں بکھرا کام سمٹے گا۔ دھڑکا اس بات کا ہے کہ سب کیا دھرا ' دھرا کا دھرا نہ رہ جائے۔ حکومت پر بڑا ہی بھرپور وار کیا گیا ہے' اگر مخالفین کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اربوں روپوں کی تعمیرات کو منسوخ کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ یہ نقصان کس کے کھاتے میں جائے گا۔
غریب کا تو اس سارے کھلواڑ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ غریب بیچارہ تو وہی رہے گا' جو وہ ہے۔ یہ تو اللہ کی زمین پر قابض' وسائل پر مسلط ' ظالم حکمرانوں کا آپس کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں کون جیتے' کون ہارے ۔ یہ ہارنے والے جانے یا جیتنے والے جانے۔ غریب تو کبھی جیتا ہی نہیں نہ وہ کبھی جیت سکتا ہے۔ غریب تو ازل کا ہارا ہوا ہے۔
ایک بیان چلا تھا۔ حکمران جماعت کے ایک لیڈر نے کہاتھا۔ ''اگر کوئی رائیونڈ کی طرف آیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ادھر بنی گالہ والوں کا بھی یہ فرمانا ہے کہ ''اگر کوئی بنی گالہ آیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔'' غریب بیچارا دونوں اطراف کے ٹانگیں توڑنے والے اعلان پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہے۔ مگر بے وقوف غریب کو پتا نہیں ہے کہ یہ نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا' نہ کوئی جاتی امرا جائے گا اور نہ کوئی بنی گالہ جائے گا۔ ''حکمرانوں'' کی ٹانگیں سلامت رہیں گی' اور اگر ایسا ہو جائے کہ دونوں حکمران طبقے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑ دیں' تو غریب بیچارے کو کیا ملے گا' کچھ بھی نہیں۔
پانامہ لیکس آیا' اور چھا گیا' بہت سے کرپشن کے کیس' دب سے گئے ہیں' ڈاکٹر عاصم' عزیر بلوچ' عبدالقادر چائنہ کٹنگ' زمینوں پر قبضے ' حتیٰ کہ''چھوٹو گینگ'' میں سے کیا نکلا کچھ پتہ نہیں۔ کراچی آپریشن بھی ماٹھا ماٹھا سا چل رہا ہے۔ باقی جو چل رہا ہے وہ ہے پانامہ لیکس آف شور کمپنیز اکاؤنٹ۔
چلو یہ بھی وقت گزر جائے گا۔ جیسے 1947ء سے آج تک لوٹ مار ہوتی رہی ہے' قرضے معاف ہوتے رہے ہیں' کرپشن تمام حکومتی محکموں میں رشوت کا بازار گرم ہے' اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ' لاہور کے تاریخی حسن کی پامالی سے' کہا جا رہا ہے کہ تاریخی ورثہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ جس ''حسن'' کو دیکھ کر ہم خوش ہو لیتے تھے۔ اس حسن کا خاتمہ کیا جا رہا ہے' مگر غریب بیچارے کا تاریخی ورثے کی پامالی سے کیا لینا دینا' وہ تو بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ دیکھ پامال ہو رہا ہے'برباد ہو رہا ہے' اور بالآخر بچوں سمیت خودکشی کر کے دنیا کے جھنجھٹ سے آزادی حاصل کر لیتا ہے۔
یہ تاریخی ورثہ' یہ میٹرو' یہ فلائی اوور ' یہ انڈر پاسزز' یہ پانامہ لیکس' یہ آف شور کمپنیاں' یہ بنی گالہ' یہ جاتی امراء' یہ ٹانگیں توڑنا' یہ جلسے جلوس' یہ میلے ٹھیلے' یہ '' عمران خان دے جلسے اج میرا نچنے نوں جی کردا'' بھئی جن کا ناچنے کو جی چاہ رہاہے وہ ضرور ناچیں ' ان کو ناچنا گانا مبارک ہو' مگر غریب بیچارا تو پہلے ہی تنگی کا ناچ ناچ رہا ہے' وہ مزید کیا ناچے گا' اس کا ناچنے کو کیا دل چاہے گا۔ وہ تو مسائل کے تحت ناچ ناچ کر ''حفاں'' (برا حال) ہو چکا ہے۔
باقی کراچی کی طرح لاہور کی سڑکوں پر بھی ٹریفک کا اژدہام ہے' رات گئے تک شہر جاگتا ہے' اعلیٰ ہوٹل' ادنیٰ ہوٹل کھلے رہتے ہیں۔ وہ زمانے کدھر گئے جب لاہور والے عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے' اب تو لاہور والے ساری رات سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی کاروں ' رکشاؤں ' ویگنوں میں نظر آتے ہیں۔ لاہور کا پھیلاؤ بیان سے باہر ہے۔ اور آبادی یقینا ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لاہور کے قلم کار' ادیب شاعر بھی خوب مصروف ہیں' شہر میں روز ادبی پروگرام ہوتے ہیں' الحمراء اور پاک ٹی ہاؤس ودیگر ادبی بیٹھکیں آباد ہیں۔ باقی دھول مٹی بہت ہے۔ لوگ پریشان ہیں' بزرگ بچے خصوصاً۔