شہید و محب وطن
کون اصلی ہے اور کون نقلی۔ اب دیدوں میں وہ نور نہیں، نہ وہ سمجھ رہی،
کون اصلی ہے اور کون نقلی۔ اب دیدوں میں وہ نور نہیں، نہ وہ سمجھ رہی، نہ وہ بوجھ رہی۔ ہر چیز دو نمبر۔ شہید دو نمبر، جمہوریت دو نمبر، آمریت دو نمبر (کیونکہ وہ ماؤزے تنگ) نہیں ہوتا۔ محبوب ہو یا محبوبہ، خاوند ہو یا شوہر، غرض کہ جو بھی رشتہ لیجیے، دو نمبر۔ اس بار پھوپھی اور بھتیجے کا رشتہ بھی عین ممکن ہے کہ دل کی بات لبوں پہ نہ کہیں آگئی ہو۔ تب ہی تو غالب نے کہا تھا ''جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا''۔ بھٹو شہید، بے نظیر شہید تو بلاول بھی شہید... بس صرف ''ب'' ڈال دیجیے شہادت خودبخود آپ پہ منور ہوگی۔
اور آپ کی شہادت سے لوگوں کی حالت زار تو نہ بدلی، کچھ لوگوں کی تجوریاں بھر گئیں۔ گڑھی خدا بخش میں دیہی سندھ کے عظیم تاج محل جیسی فن تعمیر تو بنی یا یوں کہیے شہیدوں کے مزار تو بنے مگر گڑھی خدا بخش کے لوگوں کی حالت زار نہ بدلی۔ وہی غربتوں کے ڈیرے، یرقان و ہیضہ میں غلطاں مائیں و بچے، نہ اسکول ہیں نہ اسپتال، اتنی ساکن ہیں لوگوں کی آنکھیں کہ اب کے کوئی تفریق بھی نہیں۔ صدیوں سے ملی غلامیوں نے ان پر غلامیوں کو آزادی بنا دیا، ان سے ہونے اور نہ ہونے کا احساس لے لیا کہ جیسے پتھر بن گئی ہوں ان کی آنکھیں اور اب ''جب سے بے نور ہوئیں شمعیں، خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں، نہ جانے کس جا کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں''۔ فیض نے شاید اسی تذبذب کو بیان کیا ہے جس سے میں اپنے زماں و مکاں میں گزر رہا ہوں یا آپ گزر رہے ہیں۔
گڑھی خدا بخش کے غربتوں کے مارے لوگوں کی بات اس عظیم فن تعمیر کو دیکھ کے اقبال کی طرح کچھ یوں بنتی ہوگی:ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اتنی ملکیت تو بمبینو سینما سے بھی نہ بنی جتنی شہید بابا کے مزاروں سے بنی۔ سندھ میں کامیاب سیاستدان بننا ہے تو اک مزار کے رکھوالے بن جائیے، اصلی ہو یا نقلی، کوئی پیر بابا بن جائیے، ہر چیز کا علاج دعاؤں سے بتائیے، صبر کی تلقین کیجیے اور سب کچھ خدا پر چھوڑ دینے کی بات کیجیے۔ اب کے تو لوگوں نے حکیموں کے پاس بھی جانا چھوڑ دیا، انصاف کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا بھی چھوڑ دیے۔
رہا سوال پنجاب کا، وہاں پیر پرستی اتنی نہ ہو بس محب وطنی کے نام پر آپ ان سے دو پتائی والے ہاتھ صفائی کرسکتے ہیں۔ میرا زاویہ بھٹو پر کیچڑ اچھالنا نہیں، وہ ہمارے عظیم قائد ہیں، وہ اپنی جگہ پہ مگر کشمیر پہ جو آپ نے پنجاب میں اننگ کھلی اس نے ایوب آمر کے چھکے چھڑوا دیے۔ ہندوستان دشمنی کے نام پر اس زمانے کے جرنیلوں کے اتنے قریب ہوگئے، کچھ کچھ اندازہ آپ کو شیرباز مزاری کی سوانح حیات سے بھی ملے گا اور پھر کیا ہوا؟ جس طرح جنرل ضیا الحق کا جہاز پھٹ گیا تھا، پاکستان بھی 1970 میں ٹوٹ گیا۔ تب ہی تو ولی خان نے کہا تھا کہ پاکستان کا ایک انچ بھی ہم غداروں کی وجہ سے نہیں گیا، ہاں مگر محب وطنوں نے آدھا ملک گنوا دیا۔
اور اب کی بار سارے محب وطنوں کے پانامہ لیکس کے بقول آف شور کمپنیاں ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ ٹوتھ برش بناتی ہیں، نہ ٹوتھ پیسٹ، نہ لوہا، نہ سینما گھر چلاتی ہیں، نہ چینی بناتی ہیں، نہ ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں، نہ کروڑوں کا خام مال خریدتی ہیں، بس صرف یہ کاغذوں میں بہت کچھ کرتی ہیں اور اچانک بینکوں سے ان کے اکاؤنٹوں میں ملین ڈالر آجاتے ہیں اور وہ پھر سوئس بینک چلے جاتے ہیں۔
فارنزک شہادتوں سے ان پیسوں کی رسائی تک پہنچا جاتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک جیسا قانون ہو، بینک آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ان کاغذی کمپنیوں میں اتنے سارے پیسے کیسے اور کہاں سے آئے، اور اس سے بھی زیادہ بہتر کام بلوچستان کے رئیسانی نے کیا کہ کیش تجوریوں میں رکھ لیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، نہ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولو نہ بات کھلے کہ ان اکاؤنٹوں میں پیسے کیسے اور کہاں سے آئے۔ یہ ہنڈی کیا ہے؟ یہ وہ ہنڈی ہے جس کو قدیم زمانوں میں شکارپور کے بیوپاریوں نے ایجاد کیا تھا اور پھر جس طرح قدیم زمانوں میں ''وڈیرا'' اچھے معنی رکھتا تھا، آج کل یہ وہی ہنڈی ہے جس کے ذریعے عرب دنیا سے دہشت گردوں کے لیے رقوم آئیں۔
پانامہ تو بہت دور ہے اس سے بینکوں کے ذریعے پیسے گئے ہوں گے، ہاں مگر دبئی تک لانچوں کے ذریعے یا ہنڈی کے ذریعے پیسے جاسکتے ہیں اور گئے تبھی تو اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کے ساتھ اتنے بڑے مذاق ہوئے۔ کوئی ذرا زرداری صاحب سے پوچھے کہ یہ ذوالفقار آباد کیا تھا اور یہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیا شے ہے؟ کوئی ایک متوسط طبقے کے لیے غریبوں کے لیے بستی حکومتی سطح پر نکالی ہوتی۔ کوئی تو بھرم رکھا ہوتا، مزاروں والے شہیدوں کے نعرے روٹی کپڑا اور مکان کا ۔ لیاری کو پانچ سال گینگ وار کے حوالے کیا ، کچھ تو اہل لیاری کے درد کا ساماں کیا ہوتا، آپ کے لیے سو مرلے والے گھر بھی کم پڑ جاتے ہیں، غریبوں کے لیے دو مرلے والا گھر بھی سرے محل سے کم نہیں۔
بلاول بھٹو سندھ میں شہیدوں والے بابا ہیں اور پنجاب میں محب وطن۔ آج کل اپنی اماں کی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہہ کر نانا کی سرد جنگ کے زمانوں کی فرسودہ پالیسی پکڑ کر بیٹھے ہیں اور کشمیر پر اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کی بھی نانا جیسی خاکی وردیوں سے بات بن جائے۔ ہم سندھی کیوں کہ پنجابی نہیں ہوتے اس لیے ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ پنجاب کبھی بھی ملک توڑنے کا حامی نہیں ہوسکتا، علیحدگی پرست نہیں ہوسکتا، بلوچوں اور سندھیوں میں اس طرح کی بیماری پائی جاتی ہے، اس لیے ان کو ٹٹول ٹٹول کر محب وطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ آج کل بلاول وہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ پھوپھو کا خیال ہے کہ وہ شہید ہوجائیں تو اگلی بار الیکشن پھر کشکول لے کر لوگوں سے ووٹوں کی خیرات مانگی جائے۔
یہ سارے محب وطن ہیں ، زندہ ''شہید'' ہیں جو شرفاؤں میں آتے ہیں۔ ان کی کاغذی کمپنیاں ہیں اور ان کاغذی کمپنیوں میں بغیر کچھ کیے کروڑوں ڈالر آجاتے ہیں۔ یہ سارے محب وطن ہیں جن کے دبئی میں اثاثے ہیں، سوئس بینک میں کاغذی کمپنیوں کے ناموں والے اکاؤنٹوں میں لوٹے ہوئے پیسے ہیں۔ یہ سارے محب وطن تھے، جنھوں نے پاکستان کو 1970 جیسے سانحے سے دوچار کیا اور یہ جی ایم سید جیسے غدار تھے جنھوں نے پاکستان بنایا تھا اور شیخ مجیب جیسے غدار تھے جو سائیکل پہ جھنڈے لے کر نعرہ لگاتے تھے ''بن کے رہے گا پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان'' اور یہ سارے 1970 کے بعد یا ضیا الحق کے بعد اس ملک کی سالمیت کے ساتھ جو ہوا وہ جہاد کے نام پر ہوا، کل جو مولوی حضرات سائیکل پر چلا کرتے تھے آج کل بلاول جیسی لینڈ کروزر ان کے پاس بھی ہیں۔
چلو ہم نے جہادیوں سے تو رسم توڑ دی مگر غداروں سے دوستی نہ جوڑ سکے، وہ غدار جو غدار نہیں، وہ غدار اس لیے ٹھہرے کہ وہ آئین کی بات کرتے ہیں، آئین میں ملے حقوق کی بات کرتے ہیں، شفاف مردم شماری کی بات کرتے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کو کابینہ کے برابر سمجھنے کی بات کرتے ہیں، وفاق کی بات کرتے ہیں، پاکستان کو جناح کا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں، ریاست اور مذہب کو الگ الگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بات کرتے ہیں، عدلیہ کی آزادی اور 60 فیصد آبادی جو غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ شعلہ بکف عوام علامہ اقبال کی بات کچھ اس طرح کرتے ہیں:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
اور آپ کی شہادت سے لوگوں کی حالت زار تو نہ بدلی، کچھ لوگوں کی تجوریاں بھر گئیں۔ گڑھی خدا بخش میں دیہی سندھ کے عظیم تاج محل جیسی فن تعمیر تو بنی یا یوں کہیے شہیدوں کے مزار تو بنے مگر گڑھی خدا بخش کے لوگوں کی حالت زار نہ بدلی۔ وہی غربتوں کے ڈیرے، یرقان و ہیضہ میں غلطاں مائیں و بچے، نہ اسکول ہیں نہ اسپتال، اتنی ساکن ہیں لوگوں کی آنکھیں کہ اب کے کوئی تفریق بھی نہیں۔ صدیوں سے ملی غلامیوں نے ان پر غلامیوں کو آزادی بنا دیا، ان سے ہونے اور نہ ہونے کا احساس لے لیا کہ جیسے پتھر بن گئی ہوں ان کی آنکھیں اور اب ''جب سے بے نور ہوئیں شمعیں، خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں، نہ جانے کس جا کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں''۔ فیض نے شاید اسی تذبذب کو بیان کیا ہے جس سے میں اپنے زماں و مکاں میں گزر رہا ہوں یا آپ گزر رہے ہیں۔
گڑھی خدا بخش کے غربتوں کے مارے لوگوں کی بات اس عظیم فن تعمیر کو دیکھ کے اقبال کی طرح کچھ یوں بنتی ہوگی:ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اتنی ملکیت تو بمبینو سینما سے بھی نہ بنی جتنی شہید بابا کے مزاروں سے بنی۔ سندھ میں کامیاب سیاستدان بننا ہے تو اک مزار کے رکھوالے بن جائیے، اصلی ہو یا نقلی، کوئی پیر بابا بن جائیے، ہر چیز کا علاج دعاؤں سے بتائیے، صبر کی تلقین کیجیے اور سب کچھ خدا پر چھوڑ دینے کی بات کیجیے۔ اب کے تو لوگوں نے حکیموں کے پاس بھی جانا چھوڑ دیا، انصاف کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا بھی چھوڑ دیے۔
رہا سوال پنجاب کا، وہاں پیر پرستی اتنی نہ ہو بس محب وطنی کے نام پر آپ ان سے دو پتائی والے ہاتھ صفائی کرسکتے ہیں۔ میرا زاویہ بھٹو پر کیچڑ اچھالنا نہیں، وہ ہمارے عظیم قائد ہیں، وہ اپنی جگہ پہ مگر کشمیر پہ جو آپ نے پنجاب میں اننگ کھلی اس نے ایوب آمر کے چھکے چھڑوا دیے۔ ہندوستان دشمنی کے نام پر اس زمانے کے جرنیلوں کے اتنے قریب ہوگئے، کچھ کچھ اندازہ آپ کو شیرباز مزاری کی سوانح حیات سے بھی ملے گا اور پھر کیا ہوا؟ جس طرح جنرل ضیا الحق کا جہاز پھٹ گیا تھا، پاکستان بھی 1970 میں ٹوٹ گیا۔ تب ہی تو ولی خان نے کہا تھا کہ پاکستان کا ایک انچ بھی ہم غداروں کی وجہ سے نہیں گیا، ہاں مگر محب وطنوں نے آدھا ملک گنوا دیا۔
اور اب کی بار سارے محب وطنوں کے پانامہ لیکس کے بقول آف شور کمپنیاں ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ ٹوتھ برش بناتی ہیں، نہ ٹوتھ پیسٹ، نہ لوہا، نہ سینما گھر چلاتی ہیں، نہ چینی بناتی ہیں، نہ ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں، نہ کروڑوں کا خام مال خریدتی ہیں، بس صرف یہ کاغذوں میں بہت کچھ کرتی ہیں اور اچانک بینکوں سے ان کے اکاؤنٹوں میں ملین ڈالر آجاتے ہیں اور وہ پھر سوئس بینک چلے جاتے ہیں۔
فارنزک شہادتوں سے ان پیسوں کی رسائی تک پہنچا جاتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک جیسا قانون ہو، بینک آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ان کاغذی کمپنیوں میں اتنے سارے پیسے کیسے اور کہاں سے آئے، اور اس سے بھی زیادہ بہتر کام بلوچستان کے رئیسانی نے کیا کہ کیش تجوریوں میں رکھ لیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، نہ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولو نہ بات کھلے کہ ان اکاؤنٹوں میں پیسے کیسے اور کہاں سے آئے۔ یہ ہنڈی کیا ہے؟ یہ وہ ہنڈی ہے جس کو قدیم زمانوں میں شکارپور کے بیوپاریوں نے ایجاد کیا تھا اور پھر جس طرح قدیم زمانوں میں ''وڈیرا'' اچھے معنی رکھتا تھا، آج کل یہ وہی ہنڈی ہے جس کے ذریعے عرب دنیا سے دہشت گردوں کے لیے رقوم آئیں۔
پانامہ تو بہت دور ہے اس سے بینکوں کے ذریعے پیسے گئے ہوں گے، ہاں مگر دبئی تک لانچوں کے ذریعے یا ہنڈی کے ذریعے پیسے جاسکتے ہیں اور گئے تبھی تو اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کے ساتھ اتنے بڑے مذاق ہوئے۔ کوئی ذرا زرداری صاحب سے پوچھے کہ یہ ذوالفقار آباد کیا تھا اور یہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیا شے ہے؟ کوئی ایک متوسط طبقے کے لیے غریبوں کے لیے بستی حکومتی سطح پر نکالی ہوتی۔ کوئی تو بھرم رکھا ہوتا، مزاروں والے شہیدوں کے نعرے روٹی کپڑا اور مکان کا ۔ لیاری کو پانچ سال گینگ وار کے حوالے کیا ، کچھ تو اہل لیاری کے درد کا ساماں کیا ہوتا، آپ کے لیے سو مرلے والے گھر بھی کم پڑ جاتے ہیں، غریبوں کے لیے دو مرلے والا گھر بھی سرے محل سے کم نہیں۔
بلاول بھٹو سندھ میں شہیدوں والے بابا ہیں اور پنجاب میں محب وطن۔ آج کل اپنی اماں کی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہہ کر نانا کی سرد جنگ کے زمانوں کی فرسودہ پالیسی پکڑ کر بیٹھے ہیں اور کشمیر پر اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کی بھی نانا جیسی خاکی وردیوں سے بات بن جائے۔ ہم سندھی کیوں کہ پنجابی نہیں ہوتے اس لیے ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ پنجاب کبھی بھی ملک توڑنے کا حامی نہیں ہوسکتا، علیحدگی پرست نہیں ہوسکتا، بلوچوں اور سندھیوں میں اس طرح کی بیماری پائی جاتی ہے، اس لیے ان کو ٹٹول ٹٹول کر محب وطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ آج کل بلاول وہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ پھوپھو کا خیال ہے کہ وہ شہید ہوجائیں تو اگلی بار الیکشن پھر کشکول لے کر لوگوں سے ووٹوں کی خیرات مانگی جائے۔
یہ سارے محب وطن ہیں ، زندہ ''شہید'' ہیں جو شرفاؤں میں آتے ہیں۔ ان کی کاغذی کمپنیاں ہیں اور ان کاغذی کمپنیوں میں بغیر کچھ کیے کروڑوں ڈالر آجاتے ہیں۔ یہ سارے محب وطن ہیں جن کے دبئی میں اثاثے ہیں، سوئس بینک میں کاغذی کمپنیوں کے ناموں والے اکاؤنٹوں میں لوٹے ہوئے پیسے ہیں۔ یہ سارے محب وطن تھے، جنھوں نے پاکستان کو 1970 جیسے سانحے سے دوچار کیا اور یہ جی ایم سید جیسے غدار تھے جنھوں نے پاکستان بنایا تھا اور شیخ مجیب جیسے غدار تھے جو سائیکل پہ جھنڈے لے کر نعرہ لگاتے تھے ''بن کے رہے گا پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان'' اور یہ سارے 1970 کے بعد یا ضیا الحق کے بعد اس ملک کی سالمیت کے ساتھ جو ہوا وہ جہاد کے نام پر ہوا، کل جو مولوی حضرات سائیکل پر چلا کرتے تھے آج کل بلاول جیسی لینڈ کروزر ان کے پاس بھی ہیں۔
چلو ہم نے جہادیوں سے تو رسم توڑ دی مگر غداروں سے دوستی نہ جوڑ سکے، وہ غدار جو غدار نہیں، وہ غدار اس لیے ٹھہرے کہ وہ آئین کی بات کرتے ہیں، آئین میں ملے حقوق کی بات کرتے ہیں، شفاف مردم شماری کی بات کرتے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کو کابینہ کے برابر سمجھنے کی بات کرتے ہیں، وفاق کی بات کرتے ہیں، پاکستان کو جناح کا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں، ریاست اور مذہب کو الگ الگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بات کرتے ہیں، عدلیہ کی آزادی اور 60 فیصد آبادی جو غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ شعلہ بکف عوام علامہ اقبال کی بات کچھ اس طرح کرتے ہیں:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو