پانامہ لیکس سپریم کورٹ نے گیند دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں ڈال دی
سپریم کورٹ کا خط تحقیقات سے دامن بچانے کا عمدہ طریقہ ہے،سیاسی موسم گرم نظرآرہاہے
پانامہ لیکس سمیت دیگر معاشی بدعنوانیوں کی تحقیقات سے متعلق وزیراعظم کے خط کے جواب کومختلف سیاسی حلقے اپنے اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں، تاہم سپریم کورٹ کے جواب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے خوش ہونے کے لیے کچھ نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ نے اس کے ذریعے گیند دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔
سپریم کورٹ کا خط تحقیقات سے دامن بچانے کا عمدہ طریقہ ہے، فریقین اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک صفحے پر 20 سے بھی کم سطروں پرمشتمل مختصرخط میں ایک جانب 1956کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کی تجویز کو نہ صرف بے معنی قراردیا ہے بلکہ اسے بدنامی کا بھی سبب گردانا ہے، سپریم کورٹ نے جہاں لمبے چوڑے ضابطہ کار کی تکمیل کے لیے برسوں کی مدت کا حوالہ دیا ہے اس سے اپوزیشن انتہائی خوش نظر آتی ہے اور اسے اپنے کامیابی قرار دیتے ہوئے حکومت پردباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی اوآر ز طے کرے، تاہم دوسری جانب سے آخری لائنوں میں سپریم کورٹ نے مناسب قانون سازی کی بھی نشاندہی کی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں کیا کوئی متفقہ قانون سازی ممکن ہے ،کیا حکومت اپنے خلاف ہی قانون سازی پرتیارہوجائیگی ، کیا اپوزیشن مل کر قانون سازی کی مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکتی ہے، اگرغورکیا جائے تونظرآتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے سے اپنا دامن انتہائی خوبصورتی سے بچایا ہے کیونکہ آج ہی چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہر معاملہ گھوم پھرکرعدالت میں آجاتا ہے اور ملک میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی ، 13مئی کی صبح کے ان ریمارکس کی روشنی میں سپریم کورٹ کی جانب سے دوپہر کو بھیجے گئے خط کا جائزہ لیاجائے تواس کا پیغام واضح نظرآتاہے اوریہ خط ڈرافٹنگ کا شاہکار نظرآتا ہے، جس کے دونوں پیراگرافس ہرفریق اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے خط میں انکوائری کیلیے مخصوص افراد کے ناموں ، گروپس، کمپنیز اور خاندانوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے ، یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کہ کسی فرد،گروپ ، خاندان اور کمپنی کا نام کس بنیاد پرترجیح دی جائے،اگر پہلے مرحلے پر پارلیمنٹرینز کے متعلق انکوائریز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وزیراعظم نواز شریف کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ، ان کے اہل خانہ کا نام ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ، اس لیے کسی خاص فرد، گروپ اور خاندان کے انتخاب کے اصول وضع کرنا ہوگا، تاہم اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا خط حکومت کے حق میں نہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن اس خط سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی اور ملک کا سیاسی موسم گرم تر ہوتا نظرآتاہے۔
سپریم کورٹ کا خط تحقیقات سے دامن بچانے کا عمدہ طریقہ ہے، فریقین اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک صفحے پر 20 سے بھی کم سطروں پرمشتمل مختصرخط میں ایک جانب 1956کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کی تجویز کو نہ صرف بے معنی قراردیا ہے بلکہ اسے بدنامی کا بھی سبب گردانا ہے، سپریم کورٹ نے جہاں لمبے چوڑے ضابطہ کار کی تکمیل کے لیے برسوں کی مدت کا حوالہ دیا ہے اس سے اپوزیشن انتہائی خوش نظر آتی ہے اور اسے اپنے کامیابی قرار دیتے ہوئے حکومت پردباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی اوآر ز طے کرے، تاہم دوسری جانب سے آخری لائنوں میں سپریم کورٹ نے مناسب قانون سازی کی بھی نشاندہی کی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں کیا کوئی متفقہ قانون سازی ممکن ہے ،کیا حکومت اپنے خلاف ہی قانون سازی پرتیارہوجائیگی ، کیا اپوزیشن مل کر قانون سازی کی مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکتی ہے، اگرغورکیا جائے تونظرآتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے سے اپنا دامن انتہائی خوبصورتی سے بچایا ہے کیونکہ آج ہی چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہر معاملہ گھوم پھرکرعدالت میں آجاتا ہے اور ملک میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی ، 13مئی کی صبح کے ان ریمارکس کی روشنی میں سپریم کورٹ کی جانب سے دوپہر کو بھیجے گئے خط کا جائزہ لیاجائے تواس کا پیغام واضح نظرآتاہے اوریہ خط ڈرافٹنگ کا شاہکار نظرآتا ہے، جس کے دونوں پیراگرافس ہرفریق اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے خط میں انکوائری کیلیے مخصوص افراد کے ناموں ، گروپس، کمپنیز اور خاندانوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے ، یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کہ کسی فرد،گروپ ، خاندان اور کمپنی کا نام کس بنیاد پرترجیح دی جائے،اگر پہلے مرحلے پر پارلیمنٹرینز کے متعلق انکوائریز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وزیراعظم نواز شریف کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ، ان کے اہل خانہ کا نام ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ، اس لیے کسی خاص فرد، گروپ اور خاندان کے انتخاب کے اصول وضع کرنا ہوگا، تاہم اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا خط حکومت کے حق میں نہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن اس خط سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی اور ملک کا سیاسی موسم گرم تر ہوتا نظرآتاہے۔