سندھ تقسیم ہوچکا ہے

قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں کبھی بھی صوبے کو ٹکڑے کرنے کی بات نظر نہیں آئی۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 18, 2012
[email protected]

سندھ کی تقسیم کے خدشے کی بات ہورہی ہے۔

2012 کے بلدیاتی نظام کو لے کر اس اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ صوبہ بس تقسیم ہوا کہ ہوا۔ ہم پہلے پاکستان کے تین صوبوں کی تقسیم کا مختصراً ذکر کریں گے اور پھر تفصیلاً اس سوال پر غور کریں گے کہ کیا سندھ تقسیم ہوچکا ہے؟

پنجاب اسمبلی نے اپنے صوبے کو تین حصوں میں بانٹنے کی بات کی ہے۔ سرائیکی، بہاولپور اور موجودہ صوبہ۔ خیبر پختون خواہ میں ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی بات ہورہی ہے، بلوچستان میں پختون علاقوں کو علیحدہ کرکے صوبے کا درجہ دینے کی تجویز ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کی اسمبلی نے کبھی اس کی تقسیم کی بات نہیں کی، نہ کسی علاقے کے لوگوں نے اپنے علاقے کو سندھ سے جدا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گویا قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں کبھی بھی صوبے کو ٹکڑے کرنے کی بات نظر نہیں آئی۔ اس کی تقسیم کو گناہ اور وحدانیت کو تقدس کا سا درجہ دیا جارہا ہے۔کیا حقیقتاً ایسا ہے؟ تاریخ اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں؟ ہم اس حوالے سے ''یہ سندھ ہے'' کے عنوان سے ستمبر میں اور ''سندھ کے لوگو! عقل مند بنو'' پر اکتوبر میں اظہارخیال کرچکے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ کیا صوبہ سندھ تقسیم ہوچکا ہے؟ اگر یہ عمل ہوچکا ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم بے خبری میں اپنا بڑا نقصان کر بیٹھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ زمین کے ٹکڑے کس طرح تقسیم کے حادثوں سے گزرتے ہیں۔ ہر موقعے پر ان حادثوں کا سبب حقوق نہ دینے کی ضد ہوتی ہے۔

ہندوستان کے اتحاد کو بڑا مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تقسیم کو گئو ماتا کو کاٹنے کی مانند خیال کیا جاتا تھا، لیکن کیا ہوا؟ گاندھی، نہرو اور کانگریس نے متفقہ طور پر ہندوستان کی تقسیم کو قبول کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی وکوریا تقسیم ہوا ہے۔ سوویت روس صدی کے ختم ہونے سے پہلے ختم ہوگیا۔ حتیٰ کہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان کا ایک حصہ ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا۔ یہ دنیا کی حالیہ تاریخ ہے۔ آئیے ایک نظر پاکستان کے صوبوں پر ڈالتے ہیں کہ وہ کس طرح تقسیم کے عمل سے گزرے ہیں۔بلوچستان کا کچھ حصہ ایران کے پاس ہے تو کچھ پاکستان کے پاس ہے۔

پنجاب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بٹا ہوا ہے، بنگال کا ایک حصہ ہندوستان کے پاس ہے تو کروڑوں بنگالی بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔ افغانستان جب دو حصوں میں بٹا تو ایک حصہ آزاد ملک کہلایا تو دوسرا برٹش انڈیا کا صوبہ بنا۔ تقسیم در تقسیم۔ آئیے کشمیر کو دیکھیں، کہیں پاکستان کے آزاد کشمیر کے باشندے ہیں تو کچھ کو ہم مقبوضہ کشمیر کے شہری کہتے ہیں۔ ایسے میں دنیا کی کون سی سرزمین ہے جسے ناقابلِ تقسیم قرار دیا جائے، کس زمین کو دھرتی ماں کہہ کر تقدس کا درجہ دیا جائے؟ اصل زمین زرخیز زمین ہوتی ہے ورنہ بنجر زمین تو کوئی بیٹا نہیں سینچتا۔ دودھ دینا بند کردینے والی چہیتی بھینس کو بھی قصائی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ پیٹ کا ہے جس کی خاطر سب تگ و دو ہوتی ہے۔ محبت، پیار اور عشق کی سب کہانیاں روٹی کے گرد گھومتی ہیں۔ دھرتی ماں کو چھوڑ کر روٹی کے لیے دیارِ غیر جانے والوں کی داستانیں بھی کچھ کم نہیں۔

سندھ کی تقسیم کے خطرے پر شور مچایا جارہا ہے۔ آئین کی کتاب اور قانون کے صفحات پر سندھ یقیناً ایک صوبہ ہے، لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے؟ قانون کے قاعدوں اور تقریروں و باتوں کو زنجیر اور لڑی نہیں کہا جاسکتا، متحد ہونا اور یکجا ہونا کسی اورچیزکا نام ہے۔کیا تقسیم کا عمل وقوع پذیر ہوچکا ہے؟ تاریخ کیا کہتی ہے، کہیں یہ خوش فہمی کی چکا چوند تو نہیں جس سے ہماری آنکھیں چندھیا گئی ہوں؟ درجن مرتبہ سرجری کے عمل سے گزرنے والا صوبہ کہیں مصنوعی طور پر تو یکجا نظر نہیں آرہا؟

تاریخ کاٹنے کا عمل کر گزری ہے اور وہ بھی بڑی سفاکی کے ساتھ۔ پچھلے 70 ، 80 برسوں کی تاریخ کھنگالی جائے تو بارہ واقعات ایسے ہیں کہ فیصلہ کرنا واقعتاً مشکل ہورہا ہے کہ سندھ تقسیم ہوچکا ہے یا نہیں؟ آئیے اس تاریخ کو مہ وسال کے پیمانے سے پرکھتے ہیں۔ کالم نگار سندھ کے باسیوں کو اندھیرے سے اُجالے یا چکا چوند روشنی سے مناسب درجۂ حرارت تک لانے کی کوشش کررہا ہے۔

38ء میں سندھ مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی حمایت میں قرارداد پاس کرکے صوبے کی تقسیم کی بنیاد مذہب کی بنیاد پر نہیں رکھ دی تھی؟ 43ء میں سندھ اسمبلی نے ہندوستان کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی قرارداد منظور کرکے کیا کیا تھا؟ کیا یہاں کے چالیس فیصد ہندو سندھ و ہند کو ناقابلِ تقسیم نہیں سمجھتے تھے، کیا یہ دو قراردادیں سندھ کو دو مرتبہ تقسیم نہ کرگئیں؟ کیا 46ء میں سندھ کے مسلمانوں نے تقسیم ہند کی حمایت میں ووٹ دے کر یہاں کے چالیس فیصد ہندوؤں کو ہجرت پر مجبور نہ کیا، 47ء میں جب ہندوؤں کے پاس گروی رکھی گئی زمین آزاد اور قرضہ معاف ہوگیا تو یہ سندھ کی تقسیم تھی یا سندھییوں کی؟

52ء تک جب مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کراچی و حیدر آباد میں بس گئی تو کیا یہ سندھ کی ثقافت کی تقسیم نہ تھی؟ 70ء تک مختلف انتخابات میں دیہی و شہری سندھ کی الگ الگ پسند کو تقسیم کا پانچواں واقعہ نہیں کہا جاسکتا؟ 72ء کے لسانی بل 73ء کے کوٹہ سسٹم نے قانونی طور پر سندھ کو چھٹی اور ساتویں مرتبہ تقسیم نہیں کیا؟ 87ء میں جی ایم سید اور الطاف حسین کی ملاقات کا مطلب نئے اور پرانے سندھیوں کی واضح تقسیم کا اشارہ نہ تھا؟ 89ء میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مذاکرات نویں مرتبہ سندھ کی تقسیم نہ تھی؟ 2005 تک نصف صدی سے دیہی سندھ کا پرو بھٹو اور ربع صدی سے شہری سندھ کا پرو الطاف ہونا صوبے کی دسویں تقسیم نہیں؟

2008 سے گورنر عشرت العباد کا شہری معاملات کو دیکھنا اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا دیہی سندھ تک محدود ہوجانا صوبے کو گیارہویں مرتبہ تقسیم نہیں کر رہا؟ وزیراعلیٰ کا شہری معاملات میں دخل سے گریز اس تقسیم کی واضح نشانی نہیں، بلدیاتی آرڈیننس 2012 پہلی مرتبہ صوبے کی تقسیم ہے یا بارہویں مرتبہ، یہ درجن بھر تاریخی واقعات ایک اور کالم ''سندھ کی تقسیم...تفصیلات'' کا تقاضا کرتے ہیں، جس میں مختصراً بیان کیے گئے تاریخی واقعات کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔ مزید تاریخی حقائق شامل کیے جائیں تو تعداد بڑھ جاتی ہے۔

سندھ تقسیم نہیں ہوگا یا ہوچکا ہے؟ یہ سوال آج ہمارا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبے کی انتظامی تقسیم کے آثار نظر آرہے ہیں۔ حقیقت سے آنکھیں چرائی جا رہی ہیں، اسے صدیوں کی روایت، زمین کے تقدس اور دھرتی ماں کے نعرے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، سچائی یہ ہے کہ کراچی جیسا بڑا شہر اورکماؤ پوت سندھیوں کے لیے اقلیتی شہر بن چکا ہے۔ لاہور بڑا شہر ہے تو فیصل آباد، پنڈی اور ملتان بھی کچھ کم نہیں۔ پشاور سے ایبٹ آباد اور سوات کچھ ذرا سے ہی چھوٹے ہوں گے۔ صرف انیس بیس کا فرق ہے۔ سندھ میں یہ فرق زمین آسمان کا ہے۔ صرف یہی سبب ہے کہ کراچی کو اختیارات نہیں دیے جا رہے۔

اسے سندھ اسمبلی کے اشارہ اَبرو کا محتاج رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر سندھی بولنے والے بہت بڑی تعداد میں کراچی کے باسی ہوتے تو یہ بات نہ ہوتی۔ اگر کراچی بڑا شہر ہونے کے باوجود واحد پورٹ سٹی اور صنعتی حب نہ ہوتا تب بھی اتنا شور شرابہ نہ ہوتا، اگر سندھی بولنے والوں کا اپنا کوئی بڑا شہر ترقی یافتہ اور بندرگاہ کے نزدیک ہوتا تب بھی جھگڑے کی شدت کم رہتی، تقسیم کس طرح روکی جائے؟ اس بات کو ایک آدمی بڑی دانائی سے سمجھ گیا ہے۔

آصف زرداری نے اس حقیقت کو سمجھ کر ''ذوالفقار آباد'' کو بسانے کی ابتداء کی ہے۔ جدید شہر اور پورٹ سٹی سندھی بولنے والوں کے لیے۔ یوں نئے اور پرانے سندھیوں میں توازن قائم ہوگا، صدر انتظامی بنیاد پر سندھ کی تقسیم کو مان چکے ہیں، نئے شہر کی مخالفت کرنے والے بھی جان گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ اس حقیقت کو مان لینا چاہیے۔ اگر نہ مانا گیا تو؟ ''سندھ کا مستقبل'' کے نام سے پانچواں کالم قارئین کے سامنے آئے گا۔ اہلِ سندھ کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا یا انکار کرنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہے کہ کیا واقعتاً سندھ تقسیم ہوچکا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں