گورنر سندھ اور آرٹس کونسل

آرٹس کونسل عوام کو بہترین تفریحی مواقعے فراہم کر رہی ہے، جس کی اس وقت ضرورت ہے۔


Zaheer Akhter Bedari November 18, 2012
[email protected]

آرٹس کونسل میں ایک چھ منزلہ نئی عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔

اس نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب 15 نومبر کو ہوئی، تین چار دن پہلے سے ہمارے موبائل پر بار بار اس تقریب میں شرکت کی دعوت مل رہی تھی، لیکن ہم اپنی بیماری کی وجہ سے چونکہ ایک عرصے سے کسی تقریب میں شرکت سے محروم رہے ہیں لہٰذا ہم اس دھوم دھڑکے والی تقریب میں بھی شرکت نہ کرسکے، جس کا ہمیں افسوس ہے۔ احمد شاہ نے شرکاء کے لیے ایک پُرتکلف ڈنر کا بھی اہتمام کیا تھا۔

یہ ترغیب بھی ہمیں شرکت پر نہ اُبھار سکی، اصل میں اس تقریب میں شرکت کی شدید خواہش ہمارے ذہن میں اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ اس تقریب میں ڈاکٹر عشرت العباد خان گورنر سندھ بھی تشریف لارہے تھے، اور ہم آرٹس کونسل کے پروگراموں کے حوالے سے گورنر سندھ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کرنا چاہتے تھے کہ یہ ادارہ جو دراصل ادب اور فن کے فروغ کے لیے بنایا گیا تھا اس میں ''فن'' فنکاروں اور فنکاریوں کے لیے تو ضرورت سے زیادہ سہولتیں اور مواقعے فراہم کیے جارہے ہیں، لیکن ادب کی حیثیت اس ادارے میں بارہویں کھلاڑی کی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ حالانکہ اس کی انتظامیہ میں ہر سال نامور ادیب اور شاعر بھی منتخب ہوتے رہتے ہیں۔

اس نئی عمارت کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ ''آرٹس کونسل عوام کو بہترین تفریحی مواقعے فراہم کر رہی ہے، جس کی اس وقت ضرورت ہے'' دوسری بات انھوں نے دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر کی اور اس عفریت کے خلاف کیے جانے والے انتظامی اقدامات کا ذکر بھی کیا۔ دہشت گردی نے سارے ملک کو خاص طور پر کراچی کو جس خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے اس کی وجہ سے اس شہر کی رونقیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ رات بھر جاگتے رہنے والے اس روشنیوں کے شہر میں اب سرِ شام قبرستان کا سنّاٹا چھاجاتا ہے۔

ہر روز مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کی لاشیں دیکھتے اور جنازے پڑھتے پڑھتے اب اس شہر کے باسی تھک گئے ہیں اور اس خونی ڈرامے کا اختتام چاہتے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس پر ہم تو اتر سے لکھتے آرہے ہیں۔ محرم کے آغاز سے جو حفاظتی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں وہ اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ انھیں دیکھ کر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔

اس خوف وہ دہشت کے ماحول میں آرٹس کونسل کے تفریحی پروگرامز بلاشبہ قابل ستائش ہیں، لیکن جو صورتحال کراچی میں ہے س میں تو یہاں صبح گھر سے نکلنے والے کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ شام کو خیریت سے گھر واپس بھی آسکے گا یا نہیں؟ ایسے خوف و دہشت کے ماحول میں آرٹس کونسل کی تفریحی سرگرمیاں جرأت مندانہ تو کہلاسکتی ہیں، لیکن جس شہر میں روزانہ درجنوں لاشیں گر رہی ہوں، گھر گھر ماتم بپا ہو، اس شہر میں تفریحی پروگرامز بھی ماتم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے باوجود تفریحی پروگرامز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اس حوالے سے ہم نے کئی بار آرٹس کونسل کے ارباب اختیار کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ آرٹس کونسل کے پروگراموں سے استفادہ صرف اس کے ارکان کرسکتے ہیں اس شہر کی ڈیڑھ کروڑ تفریح سے یکسر محروم آبادی ان پروگرامز سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے آرٹس کونسل کے بااختیار دوستوں کو اپنے پروگرامز شہر کی غریب مضافاتی بستیوں تک لے جانے کی جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ کراچی میں اسٹریٹ تھیٹر کے بانی علی احمد مرحوم ہمیشہ اپنے ڈراموں کو غریب بستیوں میں پیش کرتے رہے ہیں جس سے عوام میں شعور اور بیداری فروغ پاتی رہی۔

معاشرے میں موجود برائیوں کو ڈراموں کے ذریعے اُجاگر کرنے کا کلچر بڑا قدیم ہے جو مختلف زمانوں میں مختلف شکلوں میں جاری رہا، اس کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن معاشرتی بگاڑ، جرائم، طبقاتی استحصال اور معاشرتی پسماندگی کے خلاف ادب نے بھی ہمیشہ ایک مؤثر ترین کردار ادا کیا ہے۔ 1935 کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین نے برصغیر میں جو ادب کلچر متعارف کرایا اس کی مقبولیت اور ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ سارے برصغیر میں ادب اور ادیب عوامی زندگی کا ایک فعال حصہ بن گئے تھے۔

نوآبادیاتی نظام، طبقاتی استحصال، فرقہ وارانہ قتل وغارت کے خلاف ادب نے جو مزاحمتی کردار ادا کیا اس کی ہمہ گیر افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد پاکستان خصوصاً کراچی میں برصغیر کے معروف ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں اس قدر مقبول تھیں کہ کراچی کی گلی گلی میں کیبن لائبریری قائم تھی جہاں کرشن چندر، منٹو، عصمت، راجندر سنگھ بیدی، سردار جعفری، سمیت کئی ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں کرائے پر ملتی تھیں اور قاریوں کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہ ادبی کیبن ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی بنے ہوئے تھے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ادب کا یہ فعال کردار اب ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں ادب کے فروغ کے لیے بہت ساری تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور انھیں حکومت کی طرف سے بڑی بڑی گرانٹس بھی ملتی ہیں، لیکن اس کا استعمال کس طرح ہوتا ہے یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے سب ہی واقف ہیں، لیکن ان گرانٹس کے بہتر استعمال کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ آرٹس کونسل ایک جمہوری ادارہ ہے جہاں ہر سال بڑی پابندی سے انتخابات ہوتے ہیں اور بڑی مہنگی انتخابی مہمیں لنچ، ڈنر کے اہتمام کے ساتھ چلائی جاتی ہیں، یہ بڑی اچھی روایتیں ہیں، لیکن سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ سارا سال فن یہ فن نظر آتا ہے، ادب بطور تبرک ہی نظر آتا ہے۔

ہم نے اس حوالے سے آرٹس کونسل کے اکابرین کی توجہ بار بار اس ضرورت کی طرف مبذول کرائی کہ آرٹس کونسل بھلے چھ چھ نہیں، چھبیس چھبیس منزلہ عمارتیں بنوائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک پبلشنگ ہاؤس بھی بنائے جو ماضی کے ممتاز ادیبوں کی مقبول ادبی کتابوں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے معروف لکھاریوں کے تراجم کی اشاعت کا اہتمام کرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں اچھا بلکہ عالمی معیار کا ادب لکھا جارہا ہے، لیکن اوّل تو اس کی اشاعت جوئے شیر سے کم نہیں اور جب کوئی ادیب کوشش بسیار کے بعد کتاب چھپوانے کا دشوار گزار مرحلہ طے کرلیتا ہے تو اس کی تقسیم کا کوئی نظام موجود نہیں۔

اور بے چارہ ادیب جب اہل علم میں اپنی کتابیں اس امید کے ساتھ تقسیم کرتا ہے کہ وہ پڑھی جائیں گی اور اچھے ادب کی حوصلہ افزائی بُرے ادب کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو تقسیم کی جانے والی ادبی کتابیں کونوں کدروں کی زینت بن کر رہ جاتی ہیں۔ یوں ادب اشاعت اور فروخت دونوں ہی سے محروم ہے۔

ہمارے محترم گورنر نے آرٹس کونسل کو نئی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے 12 کروڑ کی گرانٹ دی ہے۔ اگر ایک پبلشنگ ہاؤس کے لیے صرف ایک کروڑ کی رقم مختص کی جائے اور خود اپنی نگرانی میں سو فیصد اور عالمی ادب سے منتخب کتابوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی تازہ ادبی کتابوں کی اشاعت کے لیے ایک انتہائی غیر جانبدار ادیبوں پر مشتمل کمیٹی کے ذمے یہ کام دیا جائے تو جہل، جرائم، دہشت گردی، رنگ نسل، زبان، ملک و ملت کے حصاروں میں بند عوام تک یہ ادب تازہ ہوا کے جھونکوں کی طرح پہنچے گا اور پورے نظام کی ازسرِ نو تعمیر میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہی ترقی پسندی ہے، یہی سیکولرازم ہے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں