تیزی سے بدلتے حالات
جس طرح ہر ادارے میں نیک نام لوگ موجود ہیں، اسی طرح ماتحت عدلیہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔
پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرنا یا کچھ لکھنا آسان نہیںہوتا۔یہاں تیزی سے حالات تبدیل ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات کے حوالے سے بہت گرد اڑی۔جس کے منہ میں جو آیا کہتا چلا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے سابق جج سردار رضا خان نے کہا ہے کہ کمرہ عدالت میں جج بولتے ہیں' کسی رائے پر منتج تبصرے نہیں کرتے۔انھوں نے اور بھی بہت کچھ کہا، ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماتحت عدلیہ سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ ضلع کچہریوں میں سائلوں سے جو سلوک ہوتا ہے، اس کا سب کو پتہ ہے۔
وکلاء کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے' بعض اوقات تو ماتحت عدلیہ کے ججز ان کے دباؤ کے تحت فیصلے دینے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں ماتحت عدلیہ کے ججوں کو وکلاء کی طرف سے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ نتیجے میں ججز ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ وکلا حضرات اور بار کونسلیں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں ، سابق جج بھی ایسا کرجاتے ہیں۔
وکلاء کی ایک بڑی تعداد قابل احترام ہے لیکن اس میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جن کا رویہ اس پیشہ کے تقدس سے مطابق نہیں رکھتا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں متعدد قابل احترام ججز نے مجھے بذات خود بتائی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت اپنے زوال کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اس کے باوجود جس طرح ہر ادارے میں نیک نام لوگ موجود ہیں، اسی طرح ماتحت عدلیہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھوں نے ہر دور میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، حق و صداقت' انصاف' قانون' اصولوں اور سچائی کا پرچم بلند رکھا۔
حال ہی میں راولپنڈی بار نے ایک اعلیٰ شخصیت کے خلاف قرار داد منظور کی جس کی زبان انتہائی سخت تھی۔ ملک آج جن نازک ترین حالات بلکہ حالت جنگ میں ہے۔ کوئی بھی محب وطن شہری اس کی تائید نہیں کر سکتا۔ راولپنڈی بار نے جو قرار داد منظور کی اس کے بارے میں میڈیا میں ہر کسی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔میرا خیال ہے کہ اس قسم کے رویے کی تائید نہیں کی جانی چاہیے۔ ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف جب کہ دہشت گرد پاکستان اور اس کی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس وقت انڈیا اسرائیل یا امریکا کی فوجیں پاکستانی فوج سے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ طالبان ہیں جو پاکستانی فوج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا یہ طالبان ماضی کی طرح اس دفعہ بھی امریکی سامراج کے ہاتھوں استعمال نہیں ہو رہے جس طرح یہ آج سے تیس سال قبل سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد میںاستعمال ہوئے جس کے نتیجے میں امریکا پوری دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ سوال یہ ہے کہ آج یہ مذہب کے نام پر پاکستانی اداروں کے خلاف لڑ کر کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اگر خدانخواستہ پاکستانی فوج کمزور ہوتی ہے تو پاکستان کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔کیا طالبان، ان کے سر پرستوں اور حمایتیوں کو اندازہ ہے کہ وہ کتنے بڑے خطرے سے کھیل رہے ہیں۔
اگر طالبان کا پاکستان پر قبضہ یقینی ہو جاتا ہے تو عالمی برادری ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ امریکا اور اس کے اتحادی تو اس ''سنہری موقع'' کا انتظار کر رہے ہیں۔یہ میرے خدشات ہیں، اﷲ کے فضل سے پاک فوج ملک دشمنوں کو شکست دے گی اور ان کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان ان کے سرپرست اور حمایتی بالفرض اپنی سوچ میں صحیح ہوں لیکن دنیا کبھی بھی پاکستان کو طالبان کے ہاتھوں جانے نہیں دے گی ۔
دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی سر زمین کو ''واگزار'' کرانے کے لیے پاکستانی فوج ان کے خلاف جو جنگ لڑ رہی ہے اس سے پاکستان کے مذہبی گروہ خاص طور پر معترض ہیں ،وہ طالبان کی سر پرستی کرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرلیں تا کہ وہ اپنی اس مخصوص سوچ اور نظریے کو پورے پاکستان پر نافذ کر سکیں جس کی شکار حال ہی میں ملالہ یوسفزئی ہوئی ہے۔ پاک فوج پر اس وقت تنقید کا مقصد دہشت گردوں کی حمایت اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ یہ ہر پاکستانی کو سوچنا چاہیے کہ یہ حب الوطنی ہے یا ملک سے غداری؟
پاکستان اس وقت اپنی زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا ہے جب تک عام پاکستانی کی حمایت طالبان کے لیے ختم نہیں ہوتی پاکستان خطرے سے باہر نہیں آ سکتا ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہ انتہا پسند گروہ ہی تھا جس نے بانی پاکستان کو کافر اعظم کا خطاب دیا۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت پر برا وقت آیا تو اسے ویسی ہی حمایت مل سکے گی جیسی اسے مشرف آمریت کے دوران عوام کی طرف سے ملی۔ میرا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت عوام تقسیم ہو چکے ہیں اور لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور اس کے تمام اداروں کے لیے المناک ہو گا۔
میری اس تحریر سے ہر گز یہ تاثر نہیں لیا جائے کہ میں مایوس ہوں۔ میرا ماضی گواہ ہے کہ میں نے بے شمار کالم جمہوریت کے حق میں لکے اور چیف جسٹس اور عدلیہ بحالی تحریک کے لیے بھی کالم لکھے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں خود شامل رہا ہوں اور اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ عدلیہ بحالی تحریک کے سرخیل اور چیف جسٹس کے قریبی ساتھی جب تک عدلیہ بحال نہیں ہو گئی میرے مشوروں سے مستفید ہوتے رہے۔لیکن اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ جمہوری سیٹ کے بعد اداروں میں جو محاذ آرائی شروع ہوئی ، اس سے عوام مایوس ہوگئے۔ بات ختم کرنے سے پہلے ایک واقعہ سناتا ہوں۔
عدلیہ بحالی تحریک کے ہیرو سے سے پہلے ایک معروف وکیل سے میری پہلی ملاقات جنوری 07ء میں نہر کنارے ان کے گھر پر ہوئی۔ پھر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔یہ مارچ کے دوسرے ہفتے سردیوں کی خوشگوار دوپہر تھی۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مجھے ایک گمنام ٹیلیفون آیا ہے جس میں مجھے کہا گیا ہے کہ میں اسلام آباد پہنچوں۔ انھوں نے اس گمنام ٹیلیفون کرنے والے سے پوچھا آپ کون ہیں۔ اس نے جواب دیا یہ میں نہیں بتا سکتا۔ پھر میں نے کہا کہ ان صاحب کا نام کیا ہے جن سے میں نے ملاقات کرنی ہے۔ اس نے کہا کہ میں یہ بھی نہیں بتا سکتا۔ انھوں نے کہا بہر حال میں جب اگلے روز اسلام آباد پہنچا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔
اس وقت تک جنرل مشرف امریکی حمایت سے محروم ہو چکے تھے۔ آیندہ میں آپ کو تفصیل سے بتائوں گا کہ ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کس طرح سے تیسری دنیا میں ہمارے جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو ہٹاتی ہے پاور گیم کیا ہوتی ہے ۔ اس کا میکنزم کیا ہوتا ہے اور اس کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔
26,27 نومبر سے 9-8 دسمبر کے درمیان کے عرصے میں اعلیٰ عدلیہ کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون:0346-4527997
پچھلے دنوں چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات کے حوالے سے بہت گرد اڑی۔جس کے منہ میں جو آیا کہتا چلا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے سابق جج سردار رضا خان نے کہا ہے کہ کمرہ عدالت میں جج بولتے ہیں' کسی رائے پر منتج تبصرے نہیں کرتے۔انھوں نے اور بھی بہت کچھ کہا، ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماتحت عدلیہ سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ ضلع کچہریوں میں سائلوں سے جو سلوک ہوتا ہے، اس کا سب کو پتہ ہے۔
وکلاء کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے' بعض اوقات تو ماتحت عدلیہ کے ججز ان کے دباؤ کے تحت فیصلے دینے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں ماتحت عدلیہ کے ججوں کو وکلاء کی طرف سے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ نتیجے میں ججز ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ وکلا حضرات اور بار کونسلیں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں ، سابق جج بھی ایسا کرجاتے ہیں۔
وکلاء کی ایک بڑی تعداد قابل احترام ہے لیکن اس میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جن کا رویہ اس پیشہ کے تقدس سے مطابق نہیں رکھتا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں متعدد قابل احترام ججز نے مجھے بذات خود بتائی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت اپنے زوال کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اس کے باوجود جس طرح ہر ادارے میں نیک نام لوگ موجود ہیں، اسی طرح ماتحت عدلیہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھوں نے ہر دور میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، حق و صداقت' انصاف' قانون' اصولوں اور سچائی کا پرچم بلند رکھا۔
حال ہی میں راولپنڈی بار نے ایک اعلیٰ شخصیت کے خلاف قرار داد منظور کی جس کی زبان انتہائی سخت تھی۔ ملک آج جن نازک ترین حالات بلکہ حالت جنگ میں ہے۔ کوئی بھی محب وطن شہری اس کی تائید نہیں کر سکتا۔ راولپنڈی بار نے جو قرار داد منظور کی اس کے بارے میں میڈیا میں ہر کسی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔میرا خیال ہے کہ اس قسم کے رویے کی تائید نہیں کی جانی چاہیے۔ ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف جب کہ دہشت گرد پاکستان اور اس کی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس وقت انڈیا اسرائیل یا امریکا کی فوجیں پاکستانی فوج سے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ طالبان ہیں جو پاکستانی فوج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا یہ طالبان ماضی کی طرح اس دفعہ بھی امریکی سامراج کے ہاتھوں استعمال نہیں ہو رہے جس طرح یہ آج سے تیس سال قبل سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد میںاستعمال ہوئے جس کے نتیجے میں امریکا پوری دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ سوال یہ ہے کہ آج یہ مذہب کے نام پر پاکستانی اداروں کے خلاف لڑ کر کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اگر خدانخواستہ پاکستانی فوج کمزور ہوتی ہے تو پاکستان کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔کیا طالبان، ان کے سر پرستوں اور حمایتیوں کو اندازہ ہے کہ وہ کتنے بڑے خطرے سے کھیل رہے ہیں۔
اگر طالبان کا پاکستان پر قبضہ یقینی ہو جاتا ہے تو عالمی برادری ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ امریکا اور اس کے اتحادی تو اس ''سنہری موقع'' کا انتظار کر رہے ہیں۔یہ میرے خدشات ہیں، اﷲ کے فضل سے پاک فوج ملک دشمنوں کو شکست دے گی اور ان کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان ان کے سرپرست اور حمایتی بالفرض اپنی سوچ میں صحیح ہوں لیکن دنیا کبھی بھی پاکستان کو طالبان کے ہاتھوں جانے نہیں دے گی ۔
دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی سر زمین کو ''واگزار'' کرانے کے لیے پاکستانی فوج ان کے خلاف جو جنگ لڑ رہی ہے اس سے پاکستان کے مذہبی گروہ خاص طور پر معترض ہیں ،وہ طالبان کی سر پرستی کرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرلیں تا کہ وہ اپنی اس مخصوص سوچ اور نظریے کو پورے پاکستان پر نافذ کر سکیں جس کی شکار حال ہی میں ملالہ یوسفزئی ہوئی ہے۔ پاک فوج پر اس وقت تنقید کا مقصد دہشت گردوں کی حمایت اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ یہ ہر پاکستانی کو سوچنا چاہیے کہ یہ حب الوطنی ہے یا ملک سے غداری؟
پاکستان اس وقت اپنی زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا ہے جب تک عام پاکستانی کی حمایت طالبان کے لیے ختم نہیں ہوتی پاکستان خطرے سے باہر نہیں آ سکتا ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہ انتہا پسند گروہ ہی تھا جس نے بانی پاکستان کو کافر اعظم کا خطاب دیا۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت پر برا وقت آیا تو اسے ویسی ہی حمایت مل سکے گی جیسی اسے مشرف آمریت کے دوران عوام کی طرف سے ملی۔ میرا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت عوام تقسیم ہو چکے ہیں اور لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور اس کے تمام اداروں کے لیے المناک ہو گا۔
میری اس تحریر سے ہر گز یہ تاثر نہیں لیا جائے کہ میں مایوس ہوں۔ میرا ماضی گواہ ہے کہ میں نے بے شمار کالم جمہوریت کے حق میں لکے اور چیف جسٹس اور عدلیہ بحالی تحریک کے لیے بھی کالم لکھے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں خود شامل رہا ہوں اور اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ عدلیہ بحالی تحریک کے سرخیل اور چیف جسٹس کے قریبی ساتھی جب تک عدلیہ بحال نہیں ہو گئی میرے مشوروں سے مستفید ہوتے رہے۔لیکن اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ جمہوری سیٹ کے بعد اداروں میں جو محاذ آرائی شروع ہوئی ، اس سے عوام مایوس ہوگئے۔ بات ختم کرنے سے پہلے ایک واقعہ سناتا ہوں۔
عدلیہ بحالی تحریک کے ہیرو سے سے پہلے ایک معروف وکیل سے میری پہلی ملاقات جنوری 07ء میں نہر کنارے ان کے گھر پر ہوئی۔ پھر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔یہ مارچ کے دوسرے ہفتے سردیوں کی خوشگوار دوپہر تھی۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مجھے ایک گمنام ٹیلیفون آیا ہے جس میں مجھے کہا گیا ہے کہ میں اسلام آباد پہنچوں۔ انھوں نے اس گمنام ٹیلیفون کرنے والے سے پوچھا آپ کون ہیں۔ اس نے جواب دیا یہ میں نہیں بتا سکتا۔ پھر میں نے کہا کہ ان صاحب کا نام کیا ہے جن سے میں نے ملاقات کرنی ہے۔ اس نے کہا کہ میں یہ بھی نہیں بتا سکتا۔ انھوں نے کہا بہر حال میں جب اگلے روز اسلام آباد پہنچا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ میں نے کیا کرنا ہے۔
اس وقت تک جنرل مشرف امریکی حمایت سے محروم ہو چکے تھے۔ آیندہ میں آپ کو تفصیل سے بتائوں گا کہ ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کس طرح سے تیسری دنیا میں ہمارے جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو ہٹاتی ہے پاور گیم کیا ہوتی ہے ۔ اس کا میکنزم کیا ہوتا ہے اور اس کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔
26,27 نومبر سے 9-8 دسمبر کے درمیان کے عرصے میں اعلیٰ عدلیہ کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون:0346-4527997