عام انتخابات پر عدلیہ کی نگرانی
ملک میں معاشی ترقی کا عمل اسی وقت تیزی پکڑتا ہے جب سیاسی استحکام ہو۔
قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے آیندہ عام انتخابات میں ضلعی عدلیہ کی خدمات الیکشن کمیشن کے حوالے کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
گویا آیندہ عام انتخابات ضلعی عدلیہ کی نگرانی میں ہو ں گے ۔ منظوری ہفتے کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں منعقدہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی جس میں چاروں صوبائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کمیٹی کو آیندہ عام انتخابات کے بارے میں تیاریوں' ضابطہ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنانے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بریفنگ دی۔
پاکستان میں اب عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔الیکشن کمیشن پہلے ہی انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کرچکا ہے ۔اب چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پوری تفصیلات بھی بیان کر دیں ہیں ۔یوں یہ بھی طے ہوگیا کہ ضلعی عدلیہ الیکشن کی نگرانی کے عمل میں شامل ہوگی ۔ یہ ایک اچھا قدم ہے ، اس سے الیکشن کے منصفانہ اور شفاف ہونے کی تصدیق ہوجائے گی اور کسی کو نتائج پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ الیکشن میں ہر قسم کے اسلحے کی نمائش اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہوگی۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران کے تحفظ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کی سہولت کے لیے وفاقی ملازمین اور سول سوسائٹی کے افرد کی خدمات حا صل کر لی گئی ہیں، 8 کروڑ، 43 لاکھ 65 ہزار رائے دہندگان کو رجسٹر کر دیا گیا ہے۔ تمام انتظامات مکمل ہیں، تمام پولنگ اسٹیشن دو کلومیٹر کے اندر ہوں گے، اگر دو کلومیٹر سے زیادہ فا صلہ ہو تو رائے دہندگان کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آیندہ عام انتخابات کے بارے عدالت عظمٰی کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا آئین کے تحت یہ لازمی ہے کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں جو جمہوریت کے تسلسل کے لیے ضروری ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ انتخابات قانون کے مطابق اور دیانتداری کے ساتھ منعقد ہوں۔ چیف جسٹس کی بات بالکل درست ہے، ملک میں معاشی ترقی کا عمل اسی وقت تیزی پکڑتا ہے جب سیاسی استحکام ہو، سیاسی استحکام اسی وقت ہوتا ہے جب حکومت عوام کی حقیقی نمایندہ ہواور یہ کام آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب الیکشن کمیشن آزاد ہو اور اسے ہر ریاستی ادارے کا تعاون حاصل ہو۔
اب یہ امر اطمینان بخش ہے کہ چیف الیکشن کمشنر تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ ہے اور اب اسے ضلعی عدلیہ کا تعاون بھی حاصل ہوگیا ہے، یوں اب یہ امر یقینی ہے کہ ملک میں الیکشن کمیشن کے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل ہوگا۔الیکشن کمیشن کے نئے ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی پر امیدوار کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ صدر' وزیراعظم' وزرائے اعلیٰ' گورنرز' اسپیکرز' ڈپٹی اسپیکر اور وزرا کو انتخابی مہم کے لیے سرکاری دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔یہ سب اچھی باتیں ہیں مگر ماضی کے انتخابات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد نہیں ہوتا رہا۔
اسلحہ کی نمائش سرعام ہوتی رہی 'پولنگ عملے کو ہراساں کیا جاتا رہا بلکہ انھیں تشدد کا نشانہ بنی بنایا جاتا رہا۔وحیدہ شاہ کیس سب کے سامنے ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ نے اس کیس کا نوٹس لے کر جو فیصلہ دیا' اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس بار الیکشن میں ایسی صورت حال نہیں ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق مخالف امیدوار کی تضحیک پر پابندی عائد کی گئی ہے 'یہ شق بھی مناسب ہے'اس سے الیکشن مہم میں شائستگی کا عنصر برقرار رہے گا اور امید وار ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالیں گے'الیکشن میں دولت کی نمائش سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ امیدوار ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کے لیے دولت کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے انتخابی اخراجات الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے جیتنے والے امیدوار کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔اب ضلعی عدلیہ کے ہوتے ہوئے سخت فیصلے سامنے آئیں گے۔ جس سے الیکشن کے ضابطے اخلاق پر عمل درآمد یقینی ہو جائے گا۔عدلیہ نے پاکستان میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔اب ضلعی عدلیہ الیکشن کی نگرانی کے عمل میں بھی شامل ہو گئی ہے۔ اس طرح الیکشن میں سیاستدانوں 'تھانیداروں اور پٹواریوں کی مداخلت کے امکانات انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ اب یہ بہت ضروری ہے کہ موجودہ الیکشن کا عمل ماضی کے مقابلے میں مختلف ہو گا۔ طاقتور شخصیات من مانی نہیں کر سکیں گی۔بھارت میں عام انتخابات پر انگلی اس لیے نہیں اٹھائی جاتی کہ وہاں الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ہوتا ہے۔ اب پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن اختیارات سے لیس ہو کر اور عدلیہ کے تعاون کے ساتھ آیندہ انتخابات کرائے جس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔
گویا آیندہ عام انتخابات ضلعی عدلیہ کی نگرانی میں ہو ں گے ۔ منظوری ہفتے کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں منعقدہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی جس میں چاروں صوبائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کمیٹی کو آیندہ عام انتخابات کے بارے میں تیاریوں' ضابطہ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنانے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بریفنگ دی۔
پاکستان میں اب عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔الیکشن کمیشن پہلے ہی انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کرچکا ہے ۔اب چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پوری تفصیلات بھی بیان کر دیں ہیں ۔یوں یہ بھی طے ہوگیا کہ ضلعی عدلیہ الیکشن کی نگرانی کے عمل میں شامل ہوگی ۔ یہ ایک اچھا قدم ہے ، اس سے الیکشن کے منصفانہ اور شفاف ہونے کی تصدیق ہوجائے گی اور کسی کو نتائج پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ الیکشن میں ہر قسم کے اسلحے کی نمائش اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہوگی۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران کے تحفظ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کی سہولت کے لیے وفاقی ملازمین اور سول سوسائٹی کے افرد کی خدمات حا صل کر لی گئی ہیں، 8 کروڑ، 43 لاکھ 65 ہزار رائے دہندگان کو رجسٹر کر دیا گیا ہے۔ تمام انتظامات مکمل ہیں، تمام پولنگ اسٹیشن دو کلومیٹر کے اندر ہوں گے، اگر دو کلومیٹر سے زیادہ فا صلہ ہو تو رائے دہندگان کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آیندہ عام انتخابات کے بارے عدالت عظمٰی کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا آئین کے تحت یہ لازمی ہے کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں جو جمہوریت کے تسلسل کے لیے ضروری ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ انتخابات قانون کے مطابق اور دیانتداری کے ساتھ منعقد ہوں۔ چیف جسٹس کی بات بالکل درست ہے، ملک میں معاشی ترقی کا عمل اسی وقت تیزی پکڑتا ہے جب سیاسی استحکام ہو، سیاسی استحکام اسی وقت ہوتا ہے جب حکومت عوام کی حقیقی نمایندہ ہواور یہ کام آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب الیکشن کمیشن آزاد ہو اور اسے ہر ریاستی ادارے کا تعاون حاصل ہو۔
اب یہ امر اطمینان بخش ہے کہ چیف الیکشن کمشنر تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ ہے اور اب اسے ضلعی عدلیہ کا تعاون بھی حاصل ہوگیا ہے، یوں اب یہ امر یقینی ہے کہ ملک میں الیکشن کمیشن کے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل ہوگا۔الیکشن کمیشن کے نئے ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی پر امیدوار کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ صدر' وزیراعظم' وزرائے اعلیٰ' گورنرز' اسپیکرز' ڈپٹی اسپیکر اور وزرا کو انتخابی مہم کے لیے سرکاری دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔یہ سب اچھی باتیں ہیں مگر ماضی کے انتخابات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد نہیں ہوتا رہا۔
اسلحہ کی نمائش سرعام ہوتی رہی 'پولنگ عملے کو ہراساں کیا جاتا رہا بلکہ انھیں تشدد کا نشانہ بنی بنایا جاتا رہا۔وحیدہ شاہ کیس سب کے سامنے ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ نے اس کیس کا نوٹس لے کر جو فیصلہ دیا' اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس بار الیکشن میں ایسی صورت حال نہیں ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق مخالف امیدوار کی تضحیک پر پابندی عائد کی گئی ہے 'یہ شق بھی مناسب ہے'اس سے الیکشن مہم میں شائستگی کا عنصر برقرار رہے گا اور امید وار ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالیں گے'الیکشن میں دولت کی نمائش سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ امیدوار ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کے لیے دولت کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے انتخابی اخراجات الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے جیتنے والے امیدوار کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔اب ضلعی عدلیہ کے ہوتے ہوئے سخت فیصلے سامنے آئیں گے۔ جس سے الیکشن کے ضابطے اخلاق پر عمل درآمد یقینی ہو جائے گا۔عدلیہ نے پاکستان میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔اب ضلعی عدلیہ الیکشن کی نگرانی کے عمل میں بھی شامل ہو گئی ہے۔ اس طرح الیکشن میں سیاستدانوں 'تھانیداروں اور پٹواریوں کی مداخلت کے امکانات انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ اب یہ بہت ضروری ہے کہ موجودہ الیکشن کا عمل ماضی کے مقابلے میں مختلف ہو گا۔ طاقتور شخصیات من مانی نہیں کر سکیں گی۔بھارت میں عام انتخابات پر انگلی اس لیے نہیں اٹھائی جاتی کہ وہاں الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ہوتا ہے۔ اب پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن اختیارات سے لیس ہو کر اور عدلیہ کے تعاون کے ساتھ آیندہ انتخابات کرائے جس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔