کسے ہے حکم اذاں

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے ان لوگوں پر مقدمات چلانے اور انھیں پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے

Amjadislam@gmail.com

SINGAPORE:
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے ان لوگوں پر مقدمات چلانے اور انھیں پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کی چوتھی قسط مولانا مطیع الرحمان کی پھانسی کی شکل میں سامنے آ گئی ہے اور حسب سابق اس پر بھی حکومت پاکستان کی طرف سے کسی واضح احتجاج، ردعمل یا مؤقف کا اظہار نہیں کیا گیا۔

میڈیا میں بھی عمومی طور پر ان بہادر اور کمٹڈ لوگوں کی قربانی حب وطن جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی سزا کو پاکستان سے زیادہ جماعت اسلامی کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے جو ایک انتہائی افسوسناک بات ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ان پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اس میں ان کا جرم پاکستان اور اس کے اتحاد سے محبت اور اس کی حمایت ہے جس کا ایک ثبوت صلاح الدین صاحب کو دی جانے والی پھانسی ہے جن کا سیاسی اور نظریاتی تعلق آج کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے بنتا ہے۔ جماعت اسلامی، البدر یا الشمس وغیرہ اس کے بہت بعد میں آتے ہیں۔

ہماری نسل نے سقوط ڈھاکا کا سانحہ اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے دیکھا ہے اور یہ بات بھی اب بہت حد تک واضح ہو چکی ہے کہ اس کے اصل محرکات کیا تھے اور یہ کہ اس میں بھارت اور اس کی ایجنسیوں اور آگے چل کر مکتی باہنی وغیرہ کا رول کیا تھا۔ بلاشبہ کئی ایک سیاسی اور تاریخی غلطیاں ایسی تھیں جنہوں نے 24 برس کے اندر اندر مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو ہم سے ناراض، بدظن اور مایوس کرنے میں اہم رول ادا کیا لیکن یہ غلطیاں ایسی بہرحال نہیں تھیں کہ جن کا مداوا نہ کیا جا سکتا ہو کیونکہ ان کے ارتکاب میں حاکم طبقوں کے کچھ افراد اور ان کی تنگ نظر اور خود غرضانہ ذہنیت تو ضرور کارفرما تھی مگر دونوں حصوں کے عوام نہ صرف مل کر رہنا چاہتے تھے بلکہ بہت حد تک ایک ہی جیسے استحصال کا شکار تھے۔

زبان تہذیب تعلیم اور غربت کی سطح کے حوالے سے آزادی کے وقت جو فرق تھا اگر بنیادی توجہ اسے دور کرنے اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے پر دی جاتی تو یہ سانحہ اول تو کبھی رونما نہ ہوتا لیکن اگر کبھی صوبائی سطح پر مکمل خود مختاری کی صورت حال بن بھی جاتی تب بھی ہم ایک جھنڈے اور نام تلے آسانی سے گزارہ کر سکتے تھے۔

اب جو چالیس سے زیادہ برس گزرنے کے بعد وہاں کے ایک گروہ (جو اس وقت حاکم جماعت ہے) اور اس کی انتہائی متعصب اور پاکستان کی ذاتی دشمن اور مخالف شیخ حسینہ واجد کو یہ مقدمات چلانے اور اَسی اَسی، نوے نوے سال کے بزرگوں کو پھانسیاں دینے کا جنون چڑھا ہے تو یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔

مذاہب یا مذہبی عقائد کی بنیاد پر ملک بننے چاہئیں یا نہیں؟ یہ اپنی جگہ ایک بحث سہی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی تقسیم وہاں کی غالب آبادی کے دو بڑے گروہوں کی صرف مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں تھی۔ اس کے پیچھے آٹھ سو سالہ مشترک تہذیب کے تاریخی، سیاسی، سماجی اور انگریز کی آمد کے بعد ایک نیا منظرنامہ بننے کے وہ اثرات بھی تھے جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اختلافی امور کی تعداد اور مقدار میں اس قدر اضافہ کر دیا تھا کہ تقسیم ایک طرح سے ناگزیر ہو گئی۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ تقسیم کا مقصد دونوں ملکوں میں غالب اکثریت کو اقتدار کی منتقلی تھی تا کہ وہاں کی تمام تر اقلیتیں بھی مذاہب کے فرق سے ہٹ کر آزاد اور باوقار شہریوں کی طرح زندہ رہ سکیں مگر کئی ایک اندرونی تضادات اور تعصبات نے ایسا نہ ہونے دیا جس کے نتیجے میں آج تک دونوں ہمسائے کبھی بھی مکمل اور مستقل امن کی حالت میں نہیں رہ سکے لیکن مشرقی پاکستان میں صورت حال بہت مختلف تھی۔ مقامی زبان اور رسم و رواج کا فرق تو یقینا تھا لیکن دنیا میں بے شمار ملک ایسے ہیں جن میں ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور جن کے مختلف حصوں میں بہت زیادہ تہذیبی فرق بھی پایا جاتا ہے۔

اصل فرق معاشی استحصال کا تھا جسے مغربی پاکستان کے حاکم طبقے نے انصاف کے بجائے بندوق اور مذہبی کارڈ سے حل کرنے کی کوشش کی۔ بندوق نے تو ناکام ہونا ہی تھا لیکن ظلم یہ ہوا کہ اس سارے کھیل میں مذہبی بندھن پر بھی ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا اور سیاسی اختلاف رائے کی وجہ حقیقی دلائل کے بجائے مذہبی انتہا پسندی ٹھہرا دی گئی اور یہ ایجنڈا بھی ہمسایہ ملک اور اس کی ایجنسیوں کے ذریعے فراہم کیا گیا تھا۔ آج جو جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو یہ پھانسیاں دی جا رہی ہیں تو ان کی اصل وجہ ان کا جماعت اسلامی سے تعلق ہونا نہیں بلکہ پاکستان سے وہ محبت ہے جو اس نئی تقسیم کے خلاف تھی۔

اندریں حالات جماعت اسلامی اور اس کے نظریات اور طریق کار سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ اپنی جگہ مگر اس وقت مسئلہ ان اصحاب کی جماعت کی رکنیت نہیں بلکہ پاکستان سے محبت ہے جس کی سزا انھیں دی جا رہی ہے۔ سو اس پر ہم سب کو اور ہماری حکومت اور وزارت خارجہ کو بطور پاکستانی ان کی پاکستانیت کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم سے تو ترکی ہی اچھا رہا جس نے ڈھاکا سے اپنا سفیر واپس بلا کر حسینہ واجد اور عالمی برادری کو ایک واضح اور بروقت پیغام تو دیا ہے۔

اتفاق سے کل شام میری برادرم میاں محمد عبدالشکور سے (جو آج کل ''الخدمت فاؤنڈیشن'' کے صدر اور پرانے جماعتیے ہیں اور ستر کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر بھی رہ چکے ہیں) ملاقات ہوئی اور یہ مسئلہ بھی زیر بحث رہا۔ حکومت پاکستان اور جماعت اسلامی کے ردعمل اور اس ضمن میں کچھ متعلقہ دشواریوں اور مصلحتوں پر بھی تبادلہ خیال ہوا لیکن اس ملاقات کا حاصل شکور بھائی کی وہ نظم ٹھہری جو انھوں نے مولانا مطیع الرحمن کے لیے لکھی ہے اور یہ انکشاف بھی کہ وہ شعر فہم اور شعر نواز ہی نہیں بلکہ باقاعدہ شعر گوئی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

سو آخر میں اس سوال کے ساتھ کہ ہم پاکستانیوں کو بالخصوص اور عالم اسلام اور بین الاقوامی برادری کو بالعموم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس طرح کے انتقامی اور مجنونانہ اقدامات کے جواب میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہم اپنے انصاف پسند انسان ہونے کا حق ادا کر سکیں۔ آئیے اس اظہار احسان مندی اور نذرانہ سپاس کے ساتھ چند لمحے گزاریں کہ جس کو ہمارے اجتماعی ضمیر کی آواز کہنا چاہیے؎


سقوط ڈھاکا تو اب ہوا ہے
ادب سے اس نعش کو اتارو

یہ لاشہ رحمان کا مطیع ہے
یہ پھول چہرا بہت حسیں ہے

مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے
کہ جیسے پیارا سا کوئی بچہ

اتر کے جھولے سے سو گیا ہو
سکوں کی وادی میں کھو گیا ہو

وہ تیز قدموں سے خود ہی چل کے
فلک کے اس پار جا چکا ہے

گلے میں فتح مبیں کی مالا
وہ اپنی غزل کو پا چکا ہے

میں اس کی فرقت میں
پاشکستہ، زمیں پہ بیٹھا

بس ایک مصرع ہی لکھ سکا ہوں
''سقوط ڈھاکا تو اب ہوا ہے''
Load Next Story