یہ جو چند جادو گر ہیں

ہاں ، بالکل بدل گیا ہے ۔ بس اتنا بدلا ہے کہ جو راگ سُن سُن کر میں جوانی کی دہلیز پار کر چکا


انیس منصوری May 15, 2016
[email protected]

جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے وہ میرے منہ پر لگی سیاہی کو صاف کرنے کی بجائے آئینے چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ اب دنیا جنت کی مثال بن چکی ہے وہ میرے پیٹ کے دوزخ کو دیکھنے کی نظر ہی نہیں رکھتے ہیں ۔ یہ جو چند جادو گر بیٹھ کر مجھے تسلی دینے لگتے ہیں انھیں معلوم ہی نہیں ، کہ غریب کی زندگی تو بس ایک مچھر کے رحم و کرم پر ہے۔ ہاں وہ میرے ہاتھ میں غلامی کی ہتھکڑی لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ میں دور تک بھاگ سکتا ہوں ۔ وہ ہر لمحے یہ سناتے ہیں کہ اب دور بدل گیا ہے۔

ہاں ، بالکل بدل گیا ہے ۔ بس اتنا بدلا ہے کہ جو راگ سُن سُن کر میں جوانی کی دہلیز پار کر چکا وہ ہی را گ میرے بچوں کو سُنایا جا رہا ہے۔ یہ کرپشن کے الزامات ، یہ دھاندلی کا رونا ، یہ را کے ایجنٹ ، یہ مظلومیت کے رونے ، یہ نازک دور کا روگ، میری جان چھوڑتا ہی نہیں ہے ۔ یہ مئی 2016 ہے آج کا رونا یہ ہے کہ اس ملک کے حکمران کرپٹ ہیں ۔ حکمرانوں کا رونا یہ ہے کہ اُن کی پاک دامنی پر شک کیا جارہا ہے۔ آج سے پورے 22 سال پہلے جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا اور مئی میں گرمی اسی شدت سے پڑ رہی تھی ۔ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف صاحب اپوزیشن کا بھرپور کردار اُسی طرح سے ادا کرنے کا دعوی کر رہے تھے کہ جیسے آج کل عمران خان کر رہے ہیں ۔ صرف چہرے بدل گئے ہیں ۔ مگر کردار وہ ہی ہیں ۔ اور شاید ہم بد بختوں کی قسمت بھی ایسی ہے ۔ جیسے آج ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کاغذی ثبوت پیش کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ بالکل آج سے 22 سال پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ آج کے وزیر اعظم اور اُس وقت کے اپوزیشن رہنما میاں محمد نواز شریف صاحب اپنے ہاتھوں میں کاغذ کو ہلا رہے تھے ۔ اُس وقت کے صدر فاروق لغاری پر انھوں نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی گریجویشن تقریب میں شرکت کے لیے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کا بڑا وفد لے کر امریکا گئے۔

انھوں نے کہا کہ اس قافلے میں 67 لوگ تھے جن کا صرف ہوٹل کا خرچہ چار کروڑ روپے تھا ۔ محترم نواز شریف صاحب نے مزید کہا کہ صدر صاحب کا یہ دورہ قوم کو 15 کروڑ روپے کا پڑا ۔ اب آپ یہاں پر صرف سال کو بدل دیجیے اور چہروں کو بدل کر کرداروں پر غور کرے۔ کیا فرق ہے ۔؟ آج کی حکومت اور سابقہ حکومت میں ؟ مجھے بتائیے کون سی ایسی نئی بات ہے جو پہلے محترم نواز شریف صاحب نے کی تھی اور اب عمران خان صاحب نہیں کر رہے ہیں ۔ آج بھی اُسی طرح سرکاری خزانے پر دوروں کے الزامات ہیں ۔ اور پہلے بھی یہ ہی تھے۔ میں پہلے بھی اپنے بچوں کی فیس کے لیے پریشان تھا، میں آج بھی اُسی طرح اپنا ماتھا علم کے زیور کے لیے جھکائیں ہوئے ہوں۔ نہ ان حکمرانوں کی قسمت بدلی ہے نہ ہی میری تقدیر تبدیل ہوئی ہے۔

اُس وقت کی اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی کے جیالے اور صدر پاکستان نے شکار پارٹیوں پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے ہیں ۔ ایوان صدر میں عیاشی کا بازار گرم کر دیا ہے جہاں پر شوٹنگ رینج ، گالف کورس ، گھڑ سواری کے میدان اور اصطبل بنائے گئے ہیں ۔ یہ سب الزامات آج بیس سال بعد بھی حکمرانوں پر اسی طرح ہیں ۔ آپ یہ کیوں نہیں کرتے کہ بس تاریخ بدل کر ہمیں بتا دیجیے کہ آج سے پچاس سال بعد بھی ہمارے یہاں یہ ہی سب کچھ ہو گا ۔ جیسے آج حکمران اپنی وضاحتیں دیتے ہیں بالکل اسی طرح اُس وقت کی پیپلز پارٹی نے بھی وضاحت دی تھی۔ اور لغاری صاحب نے کہا تھا کہ نواز شریف صاحب نے جو الزامات مجھ پر لگائے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔

جیسے اس وقت پانامہ کی کمپنیوں کو جائز قرار دیا جارہا ہے ویسے ہی اُس وقت کے صدر نے کہا تھا کہ جس رقم کا ذکر ہو رہا ہے وہ میں نے ڈیرہ غازی خان میں اپنی ذاتی جائیداد فروخت کر کے حاصل کی تھی ۔ یہاں بھی یہ ہی کہا جارہا ہے کہ وہ تو میں نے سعودیہ کی جگہ فروخت کر کے لی تھی ۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ نواز شریف صاحب نے کہا ہم بھی عدالت میں ثبوت دینگے ۔ آج بھی حکومت کہتی ہے ہم عدالت میں جائیں گے۔ اپوزیشن کہتی ہے ہم بھی عدالت میں جائیں گے ۔ آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ صاحب پرانے ڈرامے کی نئی قسط ہے ۔ آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آپ یہ سب سُن سُن کر پک چکے ہیں۔

آ پ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہمارے یہاں ایشو بعد میں کھڑا کیا جاتا پہلے اُس کا نتیجہ نکال لیا جاتا ہے ۔ یہ سیاست ایسا کھیل ہے کہ جس میں پہلے گول کیا جاتا ہے اور بعد میں عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لیے کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہ سب تو نہیں بدلا ہے۔ یہ بتائیں کہ کچھ دن سے پھر متحدہ کے قائد کی تقریر کا ذکر ہو رہا ہے۔ آج سے پورے 22 سال پہلے انھوں نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ ہم تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ۔ وہ آج بھی یہ ہی کہتے ہیں ۔ انھوں نے 4 مئی 1994 کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی بھی اپنی جدوجہد سے نہیں ہٹا سکتا اور کسی بھی طرح کا آپریشن ہمیں ختم نہیں کر سکتا اور ایم کیو ایم پر را کے الزامات خیالی ہے ۔ وہ آج بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہر جگہ بریکنگ چلی کہ آفاق احمد نے متحدہ کو دوستی کی پیشکش کر دی ۔ شاید ہماری آنکھیں اور دماغ کمزور ہے ۔31 مئی 1994کو ایسا ہی خط آفاق احمد نے لکھا تھا ۔ اور جس طرح انھوں نے ابھی کہا کہ اردو بولنے والوں کی بقا سب سے اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے ہم ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہے ۔ بالکل ایسا ہی خط وہ تھا ۔ کچھ نہیں بدلا بس سال بڑھتے جارہے ہیں ۔ میری زندگی کے دن کم ہوتے جارہے ہیں ۔ اور ایک ہی گرداب میں چار نسلیں گزر گئی ہے ۔ اُس زمانے میں مسلم لیگ نے ایک اشتہار جاری کیا تھا جس کا عنوان تھا ''توبہ توبہ ۔۔یا اللہ توبہ''۔ جس میں قیمتوں میں اضافہ کا ذکر تھا ۔ یہ اقتدار اور اختیار کی جنگ میں سارے الزامات وہ ہی ہیں ۔ ہر بار کا کھیل ایک جیسا ہی ہے۔

ہر بار کا نتیجہ یکساں ہیں۔ اور ہماری حالت زار کو دیکھیں ہم بھی جہاں کھڑے تھے وہی کھڑے ہیں ۔ اُس وقت بھی لوڈ شیڈنگ کا رونا تھا ۔ ہم آج بھی اُسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُس وقت بھی قیمتیں کسی کے کنٹرول میں نہیں تھی اور آج بھی ہم جیسے غریب اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے صبح سے شام کر رہے ہیں ۔ ہاں دنیا بدل گئی ہو گی ۔ لیکن میرے ماتھے کی لکیر نہیں بدلی ہے ۔ اس پاکستان کی تقدیر نہیں بدلی ہے ۔ میں مایوسی کے آخری کنارے پر کھڑا ضرور ہوں ۔ لیکن ایک امید کی کرن ، ایک آس باقی ہے ۔ آپ مایوس مت ہوں ۔ میں کم سے کم اتنا تو کر سکتا ہوں کہ آپ کو آگاہ کردوں کہ ببول کا درخت کانٹوں کو نہیں نکال سکتا ہے۔

یوں کیجیے ابھی سے اپنے بچوں کو تیار کر لیجیے کہ آج سے پورے5 سال بعد بھی گیم یہ ہی رہے گا ۔ انھیں پہلے سے نتیجہ معلوم ہو گا اور کھیل بعد میں کھیلا جائیگا ۔ اپنے بچوں کی ابھی سے تربیت کرنے لگ جائیں کہ 2040 میں کیا ہو گا۔ جب کسی کا اسکینڈل سامنے آئے گا تو وہ دوسرے پر الزام لگا دیگا ۔ دونوں عدالتوں میں جانے کی بات کریں گے ۔ پھر تاریخ پر تاریخ ملتی جائے گی۔ یوں ایک کہانی وقت کی دھول کے نیچے جیسے ہی دب جائے گی۔ پھر ایک پرانا کھیل نئے کھلاڑی کھیلنے لگ جائینگے ۔ یوں یہ بازی ہر بار نام بدل بدل کر کھیلی جاتی رہے گی ۔ مگر آپ یہ سب اپنی آنیوالی نسلوں کو کیوں بتائینگے ۔ ؟ آپ کو بھی تو کسی نے بتایا تھا ۔ میں بھول جاتا ہوں کہ جس طرح سے یہ کھیل ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے اسی طرح ہماری بھی تو ایک فطرت ہے کہ ہم ہر بازی کے بعد اپنے دماغ کو ''ری فریش '' کر دیتے ہیں۔

سب کچھ دو دن بعد بھول جاتے ہیں ۔ جیسے ہی پہلے طے شدہ کھیل دوبارہ شروع ہوتا ہے ہم احمق یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ تو نیا کھیل ہے ۔ اور ہماری قسمت کا تارہ چمکنے والا ہے ۔ لیکن یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا۔ جیسے سرتاج عزیز صاحب نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے تین چار مہینے سے امریکا سے تعلقات اچھے نہیں ہے ۔ ایسے میں آپ، مجھ سے زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ ''کیپٹن امریکا '' کی کتنی اہمیت ہے ۔ یہ بھی عجیب ملک ہے جو کہنے کو تو سپر پاور ہے لیکن نیا کھیل نہیں بنا سکا ۔ آ پ پانامہ پر دھیان دیں میں ''کیپٹن امریکا '' دیکھتا ہوں ۔ ہو سکتا ہے میں بھی اُس نتیجے تک پہنچ جاؤں جس کو طے کرنے کے بعد یہ کھیل شروع کیا گیا ہے ۔ پریشان مت ہوں میں کیپٹن امریکا فلم کی بات کر رہا ہوں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |