لبرل ازم اور شدت پسندی
’’مسلمانوں عنقریب تم پر ایسا دور آئے گا کہ دنیا کی تمام قومیں تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایک دوسرے کو مدعو کریں گی
''مسلمانوں عنقریب تم پر ایسا دور آئے گا کہ دنیا کی تمام قومیں تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایک دوسرے کو مدعو کریں گی۔ جیسے (دعوتوں) میں کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔'' یہ خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی دے دی تھی اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ ہم اب اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان تمام حالات کے ذمے دار کون ہیں؟
میں آپ اور ہم سب۔ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی، جو ہمارے مخالفین ہیں، جنھوں نے طویل عرصے سے ہمارے درمیان ایسے حالات پیدا کیے کہ جن سے ہمارے درمیان رقابتوں اور حسد کی اتنی اونچی دیواریں کھڑی ہوگئیں کہ ہم اپنوں پر بھروسے اور اعتبار کرنے کے بجائے اپنے ازل کے مخالفین پر اعتماد کرنے لگے ہیں۔ ہمارے اپنے رویے، انداز و اطوار ہمیں مخالف سمت دھکیل رہے ہیں اور ہمیں اس کا قلق تک نہیں۔ بس فکر ہے تو اپنے رعب، اپنے عہدے اور کرسی کی، جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔
حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ''سب سے افضل جہاد یہ ہے تُو اپنے نفس کو اللہ کے احکام کا مطیع بنانے کے لیے اس کے خلاف جدوجہد کرے۔'' جب کہ پوری دنیا میں اسلام کے اس اہم رکن کو جس حیثیت سے سمجھا جاتا ہے اس سے مراد محض جنگ ہے، جو ظاہر ہے کہ ہر وقت تو نہیں ہوتی لیکن جس افضل جہاد کا ذکر حضور اکرمؐؐ نے اپنے نفس کے حوالے سے فرمایا ہے تو اپنے ارد گرد ہی دیکھیے اس سے کون نبرد آزما ہے؟ کہ یہ آسان عمل نہیں ہے۔ اس لیے اس کی بہت اہمیت ہے یا یوں سمجھ لیں کہ فرق صرف سوچ کا ہے۔
اس کی ایک آسان سی مثال یوں ذہن میں رکھیے کہ اگر ہمیں کسی کے رتبے یا کسی خوبی کی وجہ سے کسی سے حسد پیدا ہو تو ذرا دیر بھر کے لیے سوچیے کہ اس سے حسد کرنے یا جلنے کڑھنے سے آپ کی ذات کو کس قدر فائدہ پہنچ سکا ہے۔ کیا ایک منفی سوچ یا حسد کا جذبہ ہماری شکل و صورت کی خوبصورتی یا ہماری ذہنی استعداد میں اضافہ کرسکتا ہے، یا مالی طور پر ہم کسی بھی طرح اس جذبے کے تحت منافع حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ ایک بہت عام سی مثال ہے، لہٰذا اس جذبے کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتے وقت یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس لیے کہ حسد و رقابت کا جذبہ پیدا ہوتے ہی ذہن سازشوں کے جال بننا شروع کردیتا ہے۔ وہ آپ کے دماغ کو اس قدر تیز رفتاری سے چلاتا ہے کہ کبھی کبھی آپ اپنی ہی سوچوں سے شل ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بلند فشار خون کی بھی شکایت ہوجاتی ہے اور بہت سے حضرات ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنی یا دوسروں تک کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔
آج کے دور کے بہت سے لبرل حضرات اپنی ذہنی اپچ اور کھلے پن میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ وہ کھلم کھلا اپنے مذہب پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے اور ساتھ ہی ٹھپہ لگا دیتے ہیں کہ وہ کیوں کہ نہایت آزاد ذہنیت کے قائل ہیں لہٰذا پرانی ساری باتیں فرسودہ ہیں۔ اور تنگ نظری کا طعنہ دے کر اسے ''مُلّا ازم'' کے فلسفے میں قید کردیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو صورتحال بہت دلچسپ ہے۔ اسلام کا نعرہ لگانے والوں کو اس کی اصل بنیاد جاننے سمجھنے اور عمل کرنے سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں انھیں علم ہے کہ اسلام کا ظہور عرب کی سرزمین سے ہوا تھا، مسلمانوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی اور پھر ایک ہزار سال برصغیر پر۔
محمد بن قاسم کا نام بھی اسی حوالے سے حواسوں پر قائم ہے کہ ان کے راجہ داہر سے جنگ کرنے کی وجہ سے یہاں اسلام کا بول بالا ہوا، حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ تمام مسلمان تاجر اور صوفیا کرام جنھوں نے اس خطے میں آکر اپنے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے یہاں کے لوگوں کے دلوں پر اپنا مثبت تاثر پیدا کیا۔ اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ نے مشرقی یورپ پر ایک طویل عرصے حکمرانی کی۔ لیکن ان تمام لوگوں کے ذکر سے کوئی غرض نہیں، جن کے نام بھی اب تاریخ میں نہیں ملتے کیونکہ وہ کوئی بڑے حکمران ، سلطان یا سپہ سالار نہ تھے، بس ایک اچھے انسان تھے، ان میں وہ تمام اچھی صفات اپنے مذہب کو اچھی طرح سمجھنے اور عمل کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔
لیکن اسلام کا پرچار عام طور پر حکمرانوں اور شہنشاہوں کے نام سے زیادہ مشہور کیا جاتا ہے اور شدت پسندی کا رجحان بھی اسی صنف سے سرائیت ایسے کرگیا کہ انھیں خود اپنے اندر اس شدید تبدیلی کا علم تک نہ ہوا۔ بس یہ وہم و احساس برتری یا تکبر میں مبتلا ہوگئے کہ وہ بہت اچھے مسلمان ہیں اور باقی سب کم علم، جاہل، کم عقل۔ اس کی ایک مثال جنید جمشید کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کی ہے۔
یہ ایشو فیس بک کے ذریعے ہی اٹھا تھا اور جس کی انھوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی تھی، یقیناً انھیں اپنے کیے پر شرمندگی تھی۔ لیکن ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے بعد بھی انھیں لوگوں سے بچ کر بھاگنا پڑا۔ ایسا کیوں؟ جب کہ ہمارے مذہب میں معافی اور توبہ کا کیا مقام ہے۔ بہرحال ہم اس شدت پسندی کے شر میں نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اخلاق سے اٹھی ہے، ہمارے تمام انبیا کرام اور ہمارے اپنے حضور اکرمؐ پر نبوت بعد میں ظاہر ہوئی لیکن ان سب کے اعلیٰ اخلاق کی شہرت لوگوں پر پہلے قائم ہوئی۔ کیا ہم اخلاقی طور پر زمین میں دھنستے نہیں جا رہے؟
ذرا غور کریں تو ہمارے رب العزت کا کرم کس قدر بلند ہے، ہم جھوٹ بھی بولتے ہیں، رشوت بھی لیتے ہیں، لوگوں کے حقوق بھی مارتے ہیں، اور اسی طرح کی بے شمار اخلاقی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ کیا رب العزت کی جانب سے ہمیں ان کی نعمتوں سے کمی کی شکایت ملی ہے کہ کیونکہ فلاں فلاں اتنی رشوت لیتا ہے لہٰذا رب العزت کی جانب سے اسے آکسیجن ملنا یا ہوا، روشنی، پانی ملنا بند ہوگیا۔ یہ بہت عام سی باتیں ہیں جو ہم باآسانی سمجھ سکتے ہیں لیکن ہم خود کو بہت بڑا طرم خان سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی عقل مندی چالاکی اور شاطرانہ چالوں سے ترقی کرتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی لبرل ذہنیت اور شدت پسندی کی، ان دونوں راہوں پر چلنے والے اپنی مرضی سے ان راہوں کو اختیار کرتے ہیں لیکن بنیاد پر غور نہیں کرتے۔
اگر کوئی ڈپریشن سے نجات اور دل کا سکون حاصل کرنا چاہتا ہے تو ڈاکٹر کی دوا کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اپنے دل سے حسد، جلن، رقابت کو نکالنے اور دوسروں کو معاف کردینے کی کوشش کرے اور ساتھ ساتھ دعاؤں میں بھی ان عناصر سے دور رہنے کی ہدایت طلب کریں۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط پیدا ہوا تھا تو طویل و وسیع اسلامی سلطنت سمٹ کر مکہ مدینہ میں محدود ہوکر رہ گئی تھی، سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہوئی تھی، برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوگیا تھا۔ لیکن ہم ہر بار بھول جاتے ہیں۔
میں آپ اور ہم سب۔ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی، جو ہمارے مخالفین ہیں، جنھوں نے طویل عرصے سے ہمارے درمیان ایسے حالات پیدا کیے کہ جن سے ہمارے درمیان رقابتوں اور حسد کی اتنی اونچی دیواریں کھڑی ہوگئیں کہ ہم اپنوں پر بھروسے اور اعتبار کرنے کے بجائے اپنے ازل کے مخالفین پر اعتماد کرنے لگے ہیں۔ ہمارے اپنے رویے، انداز و اطوار ہمیں مخالف سمت دھکیل رہے ہیں اور ہمیں اس کا قلق تک نہیں۔ بس فکر ہے تو اپنے رعب، اپنے عہدے اور کرسی کی، جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔
حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ''سب سے افضل جہاد یہ ہے تُو اپنے نفس کو اللہ کے احکام کا مطیع بنانے کے لیے اس کے خلاف جدوجہد کرے۔'' جب کہ پوری دنیا میں اسلام کے اس اہم رکن کو جس حیثیت سے سمجھا جاتا ہے اس سے مراد محض جنگ ہے، جو ظاہر ہے کہ ہر وقت تو نہیں ہوتی لیکن جس افضل جہاد کا ذکر حضور اکرمؐؐ نے اپنے نفس کے حوالے سے فرمایا ہے تو اپنے ارد گرد ہی دیکھیے اس سے کون نبرد آزما ہے؟ کہ یہ آسان عمل نہیں ہے۔ اس لیے اس کی بہت اہمیت ہے یا یوں سمجھ لیں کہ فرق صرف سوچ کا ہے۔
اس کی ایک آسان سی مثال یوں ذہن میں رکھیے کہ اگر ہمیں کسی کے رتبے یا کسی خوبی کی وجہ سے کسی سے حسد پیدا ہو تو ذرا دیر بھر کے لیے سوچیے کہ اس سے حسد کرنے یا جلنے کڑھنے سے آپ کی ذات کو کس قدر فائدہ پہنچ سکا ہے۔ کیا ایک منفی سوچ یا حسد کا جذبہ ہماری شکل و صورت کی خوبصورتی یا ہماری ذہنی استعداد میں اضافہ کرسکتا ہے، یا مالی طور پر ہم کسی بھی طرح اس جذبے کے تحت منافع حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ ایک بہت عام سی مثال ہے، لہٰذا اس جذبے کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتے وقت یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس لیے کہ حسد و رقابت کا جذبہ پیدا ہوتے ہی ذہن سازشوں کے جال بننا شروع کردیتا ہے۔ وہ آپ کے دماغ کو اس قدر تیز رفتاری سے چلاتا ہے کہ کبھی کبھی آپ اپنی ہی سوچوں سے شل ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بلند فشار خون کی بھی شکایت ہوجاتی ہے اور بہت سے حضرات ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنی یا دوسروں تک کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔
آج کے دور کے بہت سے لبرل حضرات اپنی ذہنی اپچ اور کھلے پن میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ وہ کھلم کھلا اپنے مذہب پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے اور ساتھ ہی ٹھپہ لگا دیتے ہیں کہ وہ کیوں کہ نہایت آزاد ذہنیت کے قائل ہیں لہٰذا پرانی ساری باتیں فرسودہ ہیں۔ اور تنگ نظری کا طعنہ دے کر اسے ''مُلّا ازم'' کے فلسفے میں قید کردیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو صورتحال بہت دلچسپ ہے۔ اسلام کا نعرہ لگانے والوں کو اس کی اصل بنیاد جاننے سمجھنے اور عمل کرنے سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں انھیں علم ہے کہ اسلام کا ظہور عرب کی سرزمین سے ہوا تھا، مسلمانوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی اور پھر ایک ہزار سال برصغیر پر۔
محمد بن قاسم کا نام بھی اسی حوالے سے حواسوں پر قائم ہے کہ ان کے راجہ داہر سے جنگ کرنے کی وجہ سے یہاں اسلام کا بول بالا ہوا، حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ تمام مسلمان تاجر اور صوفیا کرام جنھوں نے اس خطے میں آکر اپنے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے یہاں کے لوگوں کے دلوں پر اپنا مثبت تاثر پیدا کیا۔ اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ نے مشرقی یورپ پر ایک طویل عرصے حکمرانی کی۔ لیکن ان تمام لوگوں کے ذکر سے کوئی غرض نہیں، جن کے نام بھی اب تاریخ میں نہیں ملتے کیونکہ وہ کوئی بڑے حکمران ، سلطان یا سپہ سالار نہ تھے، بس ایک اچھے انسان تھے، ان میں وہ تمام اچھی صفات اپنے مذہب کو اچھی طرح سمجھنے اور عمل کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔
لیکن اسلام کا پرچار عام طور پر حکمرانوں اور شہنشاہوں کے نام سے زیادہ مشہور کیا جاتا ہے اور شدت پسندی کا رجحان بھی اسی صنف سے سرائیت ایسے کرگیا کہ انھیں خود اپنے اندر اس شدید تبدیلی کا علم تک نہ ہوا۔ بس یہ وہم و احساس برتری یا تکبر میں مبتلا ہوگئے کہ وہ بہت اچھے مسلمان ہیں اور باقی سب کم علم، جاہل، کم عقل۔ اس کی ایک مثال جنید جمشید کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کی ہے۔
یہ ایشو فیس بک کے ذریعے ہی اٹھا تھا اور جس کی انھوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی تھی، یقیناً انھیں اپنے کیے پر شرمندگی تھی۔ لیکن ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے بعد بھی انھیں لوگوں سے بچ کر بھاگنا پڑا۔ ایسا کیوں؟ جب کہ ہمارے مذہب میں معافی اور توبہ کا کیا مقام ہے۔ بہرحال ہم اس شدت پسندی کے شر میں نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اخلاق سے اٹھی ہے، ہمارے تمام انبیا کرام اور ہمارے اپنے حضور اکرمؐ پر نبوت بعد میں ظاہر ہوئی لیکن ان سب کے اعلیٰ اخلاق کی شہرت لوگوں پر پہلے قائم ہوئی۔ کیا ہم اخلاقی طور پر زمین میں دھنستے نہیں جا رہے؟
ذرا غور کریں تو ہمارے رب العزت کا کرم کس قدر بلند ہے، ہم جھوٹ بھی بولتے ہیں، رشوت بھی لیتے ہیں، لوگوں کے حقوق بھی مارتے ہیں، اور اسی طرح کی بے شمار اخلاقی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ کیا رب العزت کی جانب سے ہمیں ان کی نعمتوں سے کمی کی شکایت ملی ہے کہ کیونکہ فلاں فلاں اتنی رشوت لیتا ہے لہٰذا رب العزت کی جانب سے اسے آکسیجن ملنا یا ہوا، روشنی، پانی ملنا بند ہوگیا۔ یہ بہت عام سی باتیں ہیں جو ہم باآسانی سمجھ سکتے ہیں لیکن ہم خود کو بہت بڑا طرم خان سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی عقل مندی چالاکی اور شاطرانہ چالوں سے ترقی کرتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی لبرل ذہنیت اور شدت پسندی کی، ان دونوں راہوں پر چلنے والے اپنی مرضی سے ان راہوں کو اختیار کرتے ہیں لیکن بنیاد پر غور نہیں کرتے۔
اگر کوئی ڈپریشن سے نجات اور دل کا سکون حاصل کرنا چاہتا ہے تو ڈاکٹر کی دوا کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اپنے دل سے حسد، جلن، رقابت کو نکالنے اور دوسروں کو معاف کردینے کی کوشش کرے اور ساتھ ساتھ دعاؤں میں بھی ان عناصر سے دور رہنے کی ہدایت طلب کریں۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط پیدا ہوا تھا تو طویل و وسیع اسلامی سلطنت سمٹ کر مکہ مدینہ میں محدود ہوکر رہ گئی تھی، سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہوئی تھی، برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوگیا تھا۔ لیکن ہم ہر بار بھول جاتے ہیں۔