اپنی مدد آپ
جنوبی امریکا کے شہر پانامہ میں عالمی طرزکا آف شورکمپنیوں کے حوالے سے مالیاتی اسکینڈل زبان زد عام ہے
KARACHI:
جنوبی امریکا کے شہر پانامہ میں عالمی طرزکا آف شورکمپنیوں کے حوالے سے مالیاتی اسکینڈل زبان زد عام ہے اور سب سے اہم بات جو وطن عزیز میں دیکھنے کو پہلی بار ملی وہ یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے کرپشن کے الزامات میں فوج کے اعلیٰ افسران کی فوری بر طرفی کا عمل۔ جو یقیناً قابل تحسین اور قابل ستائش ہے، لیکن کرپشن تو ہمارا سماجی مسئلہ ہے جوکسی خطرناک دلدل سے کم نہیں ۔عصر حاضر اربنائزیشن (Urbanization)کے جدید ترقی یافتہ دور سے گزر رہا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا آبادی میں تیزی سے اضافے کو قابو میں رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اربنائزیشن کی نہ صرف پالیسی اپنا رہے ہیں بلکہ عملی طور پر ان پالیسوں پر عمل درآمد بھی کر رہے ہیں۔ایک ہم ہیں کسی قدیم دنیا ہی سے باہر نہیں نکل پا رہے۔اربنائزیشن کسی حیوانی فعل کا نام نہیں ہے بلکہ درست بنیادوں پر خود انسانوں کے طرزِعمل کا نام ہے ۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم حکومتوں پر بہت زیادہ توقعات رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں جب کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے امور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بجائے حکومتوں کے کارندے اسے کریں ہم خود بھی رضا کارانہ طور پرکر سکتے ہیں۔
اب آپ ہی دیکھیے بلدیات کے الیکشن اپنے وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچ گئے مگر افسوس ! معاملہ اختیارات کی منتقلی اور فنڈزکی بحالی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ شہر میں کسی بھی قسم کا نہ تو ترقیاتی کام ہو سکا اور نہ ہی سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کو درست کرنے کی کوشش کی گئی۔ شہر میں ٹریفک کا نظام اپنے بدترین مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔شہرکی مین شاہراہوں پر مین ہولزکے ڈھکن ہی غائب ہیں ۔جابجا سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، قبرنما اسپیڈ بریکر، سیوریج کے بدبو دار پانی کا معروف ترین سڑکوں پر سیلاب ، سڑکوں کے دونوں اطراف لگے ہوئے کچرے کے ڈھیر...ذرا سوچیے! بار رحمت نازل ہوگئی تو جمع شدہ کچرا کیا قیامت برپاکرے گا۔
ان تمام حالت زار کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہری حکومت کا یہاں کوئی وجود ہی نہیں ہے،حیوانی دور ہے، جیسا چا ہو کر لو۔ اب وقت آگیا ہے شہریوں کوانفرادی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت محلہ کمیٹیوں کے تحت رضا کارانہ طور پر اپنا قومی حصہ ڈالنا ہوگا۔ خیراتی دستر خوانوں پر باقاعدہ کھانا کھانیوالوں اور پیشہ ور صحت مند بھکاریوں کو ان فلاحی کاموں میںشریک کرنا ہوگا۔ کیوں نہ کریں یہ شہر آپ ہی کا اپنا گھر ہے ۔انگریزی کی کہاوت مشہور ہے۔God helps those who help themselvesجس کا اردوترجمہ ہے''اللہ تعالیٰ کی پاک ذات ان لوگوں کی مدد کرتی ہے جواپنی مدد آپ کرتے ہیں۔''
یہاں میں عام شہری کی احساس ذمے داری کی چند مثالیں دے رہا ہوں جس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اپنی مدد آپ کس کوکہتے ہیں؟ہمارے گھرکے قریب10ایکڑ رقبے پر محیط ایک وسیع وعریض پارک نما میدان ہے جس کے چاروں اطراف دس فٹ چوڑا ٹائلوں سے بنا جوکنگ ٹریک ہے ، میں اکثر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب وقفے وقفے سے ٹریک پر پڑی گندگی، مٹی اپنے ہاتھ میں موجود لمبے سے برش سے صاف کرتے رہتے ہیں ۔دوسری مثال فجرکی نماز سے فارغ ہونیوالے نمازی جلتی ہوئی اسٹریٹ لائٹس آف (OFF)کررہے ہوتے ہیں۔ آپ دورکیوں جاتے ہیں؟
خدمت خلق کی جیتی جاگتی شخصیت عبد الستار ایدھی اپنے پاس موجود ہیں جوکسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،اگر ایک سے زیادہ ہمارے ہاں ایدھی پیدا ہوجائیں تو میرا یقین ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ ہمارا وطن بھی دنیائے انسانیت کے لیے ایک عملی نمونہ بن جائے گا۔ ضرورت ہے صرف نچلی سطح پر لوگوں میں احساس، شعور و آگہی، سوک سینس کا پیدا کرنا بالخصوص ہماری خواتین میں جو اپنے گھروں کو بڑے سلیقے سے صفائی کرنے کے بعد گھرکا کچرا گلی، محلے یا کسی پڑوس کے گھر کے سامنے پھینک کر بری الذمہ ہوجاتی ہیں وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ کچرے والے کو پیسے کی ادائیگی نہ ہوسکے۔
ہم اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں بڑے جذباتی ہیں مگرحقوق العباد سے غافل ہیں۔ نمازیں بھی پانچ وقت کی ادا کرتے ہیں۔ مذہبی رسوم کی ادائیگی میں ہم اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ جن گلیوںاور سڑکوں پر ہمارے ہی جیسے انسانوں کا گزر ہو وہاںہم شامیانے لگا کر گزرنیوالوں کے لیے راستہ بند کردیتے ہیںجو یقینا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔ شب برات آتی ہے تو ہم پورا محلہ پٹاخوں اور دھماکوں سے ایک کردیتے ہیں۔ادھم چوکڑی مچا دیتے ہیں۔ہمیں انفرادی طور پر اپنی اخلاقی اصلاح کرنی ہوگی ۔ جب تک ہم اپنی اصلاح ایک اچھے انسان کی طرح نہیں کریں گے تو اسی طرح سے ہمارے سر پر لیڈرآئیں گے وہ بھی تو ہم ہی سے ہیں۔ آسمان سے اترکرآنے سے رہے۔قدم قدم پر ہم ناجائز قبضہ کرکے مساجد تعمیرکررہے ہیں۔ہم جس اخلاقی بدحالی کی راہ پر چل پڑے ہیں جہاں سے بحفاظت واپسی ممکن نہیں۔
اخلاقی بدحالی کی جیتی جاگتی تصویر ملاحظہ کریں۔ دنیائے مزاح کے بے تاج بادشاہ عمرشریف گزشتہ دنوں ایک مقامی ٹی وی چینل پر اپنی کامیاب زندگی کے حوالے سے انٹرویو دے رہے تھے۔ دوران انٹرویو انھوں نے عجیب وغریب انکشا ف کیا کہ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو ان کے انتقال کی خبر ملک کے تمام اخبارات میں شایع ہوئی اورالیکٹرانک میڈیا نے بھی اس افسوس ناک خبر کو نشر کیا۔ لہذا دوست احباب کے علاوہ شائقین کی بڑی تعداد جنازے میں شریک ہوئیں۔عین اس وقت جب وہ اپنے والدہ کے جسدِ خاکی کوکندھا دے رہے تھے کسی نے ان کی جیب میں رکھی ہوئی لگ بھگ 80ہزارکی رقم نکال لی۔ سن کر بڑی ہنسی بھی آئی اور غصے کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔ بس یہی ہے ہمارا اخلاقی طرز عمل ۔شؑاعر نے خوب کہا ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا