شہرکے نصف سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہوگئے اسٹریٹ کرائم میں اضافہ
سندھ پولیس کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی عدم توجہی کے باعث 975میں سے صرف160کوہی اپ گریڈ کیا گیا
سندھ پولیس کی جانب سے شہرکے195 مقامات پرلگائے جانے والے975 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے نصف سے زائدکیمرے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی عدم دلچسپی کے باعث خراب ہوگئے یا پھر پرانی ٹیکنالوجی کے باعث اپنی افادیت کھوبیٹھے ہیںجس کے باعث اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئیں۔
تفصیلات کے مطاق سندھ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر پرکڑی نظر رکھنے کے لیے شہرکی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات پرسال2011 میں40 مقامات پر 26XZOOMکے 200کیمرے جبکہ سال 2012 میں155مقامات پر2 میگا پکسل کے700 کیمرے نصب کیے تھے جن میں سے سال2015 صرف 160 کیمروں کو ہی اپ گریڈ کیا گیا۔
شہر کے195 مقامات پر نصب کیے جانے والے975سی سی ٹی وی کیمروںمیں سے نصف سے زائدکیمرے سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کی عدم توجہی کے باعث خراب ہو گئے یا پھرپرانے ہونے کے باعث اپنی افادیت کھوبیٹے ہیں جس کے باعث صدر، ایمپریس مارکیٹ، پریڈی اسٹریٹ، سعید منزل، لکی اسٹار، ایم اے جناح روڈ پر نصب بیشتر کیمرے، آرام باغ، کلفٹن، ڈیفنس، شارع فیصل، طارق روڈ اوربہادر آباد سمیت شہرکی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات کی سرویلنس نظام کے ذریعے مانیٹرنگ کا عمل رک گیاہے جس سے شہر میں جرائم کے ساتھ اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔
ڈاکو دن دہاڑے شہرکی کسی بھی شاہراہ پراسلحے کے زورپرشہریوںکولوٹ لیتے ہیں اور باآسانی فرارہوجاتے ہیں متعلقہ تھانوں کی پولیس جب جائے وقوع کے اردگرد لگے، سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے متعلق ادارے سے رابطہ کرتی ہے تو پولیس افسران کواس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انھیں جواب دیا جاتا ہے کہ مذکورہ مقام پر نصب کیمرہ یا تو خراب ہے یاپھراسے مرمت کے لیے بندکیاگیا ہے، اوراگر یہ دونوں وجوہ نہ تو پولیس افسران کوایسی فوٹیج فراہم کی جاتی ہے جس میں اس بات کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہوتاہے کہ ملزم کو ن ہے اورمتاثرہ شہری کون ہے۔
ذرائع کے مطابق سال2015 میں صرف 160کیمروں کو ہی اپ گریڈ کر کے5 میگا پکسل کردیا گیا جبکہ باقی کیمروں کو پرانی ٹیکنالوجی پر ہی چھوڑ دیا گیا جس سے متعلقہ ادارے کی سنجیدگی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے، ذرائع کاکہناہے اگرشہرمیںکوئی واردات کی سی سی ٹی وی کیمرہ محفوظ بھی کرلیں تووہ فوٹیج اتنی دھندلی ہوتی ہے کہ اس میں کیسی ملزم کو شناخت کرنا ناممکن ہو تاہے بعض مقام پر مذکورہ کیمرے مقررہ اونچائی سے زیادہ بلند مقام پر نصب کیے گئے ہیں جس کے باعث کیمرے صیح طور پر مذکورہ مقام پر ریکارڈ نگ نہیں کر سکتے جس کے باعث سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پیشہ ورانہ صلاحیت کھل کر سامنے آگئیں ہیں۔
واضح رہے کہ روزنامہ ایکسپریس اس سے قبل بھی اعلیٰ حکام کی توجہ متعدد مرتبہ سی سی ٹی وی کیمرے کی خرابی اور مرمت نہ ہونے کی جانب مبذول کرا چکا ہے لیکن متعلقہ ادارے کے بے حسی کے باعث اب تک اس پر عمل برآمد نہیں کیا جا سکا جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
تفصیلات کے مطاق سندھ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر پرکڑی نظر رکھنے کے لیے شہرکی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات پرسال2011 میں40 مقامات پر 26XZOOMکے 200کیمرے جبکہ سال 2012 میں155مقامات پر2 میگا پکسل کے700 کیمرے نصب کیے تھے جن میں سے سال2015 صرف 160 کیمروں کو ہی اپ گریڈ کیا گیا۔
شہر کے195 مقامات پر نصب کیے جانے والے975سی سی ٹی وی کیمروںمیں سے نصف سے زائدکیمرے سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کی عدم توجہی کے باعث خراب ہو گئے یا پھرپرانے ہونے کے باعث اپنی افادیت کھوبیٹے ہیں جس کے باعث صدر، ایمپریس مارکیٹ، پریڈی اسٹریٹ، سعید منزل، لکی اسٹار، ایم اے جناح روڈ پر نصب بیشتر کیمرے، آرام باغ، کلفٹن، ڈیفنس، شارع فیصل، طارق روڈ اوربہادر آباد سمیت شہرکی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات کی سرویلنس نظام کے ذریعے مانیٹرنگ کا عمل رک گیاہے جس سے شہر میں جرائم کے ساتھ اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔
ڈاکو دن دہاڑے شہرکی کسی بھی شاہراہ پراسلحے کے زورپرشہریوںکولوٹ لیتے ہیں اور باآسانی فرارہوجاتے ہیں متعلقہ تھانوں کی پولیس جب جائے وقوع کے اردگرد لگے، سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے متعلق ادارے سے رابطہ کرتی ہے تو پولیس افسران کواس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انھیں جواب دیا جاتا ہے کہ مذکورہ مقام پر نصب کیمرہ یا تو خراب ہے یاپھراسے مرمت کے لیے بندکیاگیا ہے، اوراگر یہ دونوں وجوہ نہ تو پولیس افسران کوایسی فوٹیج فراہم کی جاتی ہے جس میں اس بات کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہوتاہے کہ ملزم کو ن ہے اورمتاثرہ شہری کون ہے۔
ذرائع کے مطابق سال2015 میں صرف 160کیمروں کو ہی اپ گریڈ کر کے5 میگا پکسل کردیا گیا جبکہ باقی کیمروں کو پرانی ٹیکنالوجی پر ہی چھوڑ دیا گیا جس سے متعلقہ ادارے کی سنجیدگی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے، ذرائع کاکہناہے اگرشہرمیںکوئی واردات کی سی سی ٹی وی کیمرہ محفوظ بھی کرلیں تووہ فوٹیج اتنی دھندلی ہوتی ہے کہ اس میں کیسی ملزم کو شناخت کرنا ناممکن ہو تاہے بعض مقام پر مذکورہ کیمرے مقررہ اونچائی سے زیادہ بلند مقام پر نصب کیے گئے ہیں جس کے باعث کیمرے صیح طور پر مذکورہ مقام پر ریکارڈ نگ نہیں کر سکتے جس کے باعث سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پیشہ ورانہ صلاحیت کھل کر سامنے آگئیں ہیں۔
واضح رہے کہ روزنامہ ایکسپریس اس سے قبل بھی اعلیٰ حکام کی توجہ متعدد مرتبہ سی سی ٹی وی کیمرے کی خرابی اور مرمت نہ ہونے کی جانب مبذول کرا چکا ہے لیکن متعلقہ ادارے کے بے حسی کے باعث اب تک اس پر عمل برآمد نہیں کیا جا سکا جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔