ناقص تفتیش کے باعث زیادتی کی شکارخواتین انصاف سے محروم

پولیس، میڈیکو لیگل افسر اور عدالتی عملے کی رشوت ستانی زیادتی کے شکار افراد کے زخموں پرمزید نمک چھڑکنے کا کام کرتی ہے

متاثرہ خواتین، بچیوںاوربچوں کے والدین ملزمان سے رقم لیکرمعاملہ رفع دفع کردیتے ہیں،ملزمان کی گرفتاری کی شرح مایوس کن ہے۔ فوٹو: فائل

زیادتی کی شکار خواتین و نوعمر بچے انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں بڑھتی رشوت ستانی، کمزور تفتیش، ناقص میڈیکو لیگل نظام اور مقدمات میں مستقل پیشیوں کے باعث حصول انصاف سے محروم ہیں زیادتی کے مقدمات درج کرنے کی شرح 46.08 فیصد ہے جبکہ گرفتاریوں کی شرح 5.24 فیصدمایوس کن رہی ہے۔

ایکسپریس سروے کے مطابق قبائلی ذہنیت اور جاگیردرانہ سوچ کے حامل معاشرے میں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہوتا ہے اگر معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہ ہوتو کمزوروں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں زیادتی بھی شامل ہے سرمایہ درانہ نظام کی وجہ سے مظلوم طبقہ کو اپنی ملکیت سمجھاجاتا ہے جس سے خواتین کے تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہے پاکستان میں شہروں اور دیہات میں خواتین کا ذہنی، جسمانی اور جنسی استحصال جاری ہے۔


تفصیلات کے مطابق کمزور تفتیش، ناقص میڈیکو لیگل نظام، حصول انصاف کے لیے ماحول سازگار نہ ہونا اور عدالت میں مستقل پیشیاں زیادتی کے متاثرین خواتین اور بچوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے پاکستان میں مختاراں مائی سے لیکر مظفر گڑھ میں خاتون سے زیادتی تک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں نظام عدل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے جس کے باعث زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان (ایچ آر سی پی)کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 1974 لڑکیوں اور1794 لڑکوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ مختلف اخبارات میںشایع ہونے والی خبروں کے مطابق 191افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں118خواتین شامل ہیں،88 واقعات کے مقدمات درج کیے گئے اورجس میں سے صرف10واقعات میں ملوث ملزمان گرفتار ہوئے ملزمان کا تعلق اہل محلہ سے تھا اس کے علاوہ قریبی رشتے داروں میں سسر، دیور، بہنوئی، منگیتر اور ایک معلم بھی شامل تھا 10واقعات صوبہ سندھ میں ہوئے، پنجاب میں زیادتی کے زیادہ واقعات ہوئے پولیس، میڈیکو لیگل افسر اور عدالتی عملے کی رشوت ستانی زیادتی کی صورت میں متاثرین کے زخموں میں مزید نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں زیادتی کے شکار سیکڑوں خواتین، بچوں اور بچیوں کے والدین ملزمان رقم لے کر معاملہ رفع دفع کرتے ہیں۔

تھانہ بوٹ بیسن میں ایف اائی آر نمبر28/2014 میں 6 سالہ بچی سے زیادتی کا واقعہ ہوا، ایم ایل اور رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق کے باوجود والدین نے رقم کے عوض صلح کرلی ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں پاکستان میں تفتیشی عمل انتہائی کمزور ہے جس کا کوئی مخصوص سربراہ نہیں ہے سندھ بھر میں کراچی کے علاوہ تفتیش کا الگ محکمہ نہیں ہے کراچی میں زیادتی کی شکار زیادہ تر افغانی،برمی اور بنگالی خواتین ہوتی ہیں جنھیں فارن ایکٹ کے مقدمے کے اندراج کا خدشہ ہوتا ہے قانون کے محافظ مبینہ طور پر زیادتی کی شکار خواتین کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ملک میں خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے نیشنل کمیشن فار ویمن سمیت کئی کمزور ادارے موجود ہیں جہاں اشرافیہ کے علاوہ عام خاتون کی داد رسی مشکل ہوتی ہے۔
Load Next Story