بھارت کے 2 گاؤں میں ہر روز ایک خودکشی دیہاتیوں نے ’ آسیب‘ کو ذمے دار قرار دے دیا

کھرگون اور باڑی میں اوسطاً ہر روز ایک شخص اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کررہاہے


ویب ڈیسک May 15, 2016
بھارت کے دو گاؤں باڑی اور کھرگون میں خودکشی کا ماحول بن چکا ہے۔ فوٹو: فائل

HARIPUR: بھارت کے دو گاؤں دنیا بھر میں خودکشیوں میں سرِ فہرست ہیں جہاں اوسطاً روزانہ ایک خودکشی ہورہی ہے اور گاؤں کے سادہ لوح افراد اس کا ذمے دار ' آسیب ' اور 'بھوت پریت' کو قرار دیتے ہیں لیکن سائنسدان اس سے متفق نہیں۔

کھرگون اور باڑی گاؤں میں قریباً ہر گھر کے ایک فرد نے اپنی زندگی ختم کی ہے اور یہاں خودکشی کا ماحول بن چکا ہے۔ لوگوں کی اکثریت نے پھانسی، زہرکھانے اور خود کو آگ لگانے سے موت کو گلے لگایا ہے جبکہ مرنے والوں میں 95 فیصد مرد شامل ہیں۔ صرف کھرگون میں 2014 میں 380 افراد نے خودکشی کی جبکہ 2015 میں یہاں 400 افراد نے اپنی زندگی ختم کرلی۔ اسی طرح باڑی میں بھی خودکشی کی سطح اتنی ہی بلند ہے، رواں برس اب تک 80 افراد خودکشی کرچکے ہیں۔

پولیس کے مطابق گھریلو ناچاقی، معاشی پریشانیاں اور شراب نوشی وغیرہ سے خودکشیاں ہورہی ہیں جبکہ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ کوئی آسیب لوگوں کو خود اپنی جان لینے پر مجبور کررہا ہے۔ باڑی گاؤں کی آبادی 2500 کے قریب ہے اور اب خودکشیوں کے خوف سے بہت سے لوگ یہاں نہیں آتے ۔ باڑی میں اب کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں کم ازکم ایک خودکشی نہ ہوئی ہو۔



گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ بعض خودکشیوں کی کوئی واضح وجہ نہیں ہوتی اور ان کے مطابق کوئی غیبی قوت لوگوں کو نگل رہی ہے۔ ماہرِ نفسیات سری کانت ریڈی نے کہا کہ لوگ اپنے مسائل حل نہیں کرپارہے اور اس موقع پر انہیں رہنمائی اور کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ ریڈی کے مطابق ڈپریشن اور شدید ذہنی تناؤ کے دورے ان اموات کی اہم وجہ ہیں۔

سائنسدانوں کی رائے

دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ ان دونوں گاؤں میں اکثریت کسانوں کی ہے جوکھیتی باڑی کے لئے ایک طرح کی کیڑے مار دوا استعمال کررہے ہیں۔ اس دوا میں 'آرگینوفاسفیٹ ' ہوتا ہے جو لوگوں کے دماغ اور اعصاب کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اس سے انسانی طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے اور وہ مایوسی اور بے عملی کے خیالات کا شکار ہوکر خودکشی کرلیتا ہے۔

ماہرین کے مطابق عین یہی صورتحال 10 چینی دیہاتوں میں بھی پیدا ہوئی تھی جہاں کسانوں نے خودکشیاں کی تھیں اور اس کے بعد وہاں آرگینوفاسفیٹ' دواؤں کا استعمال نوٹ کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں