پاک امریکا تعلقات پر امریکی دفتر خارجہ کی بریفنگ

ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات میں پہلے بھی پیچیدگیاں آچکی ہیں


Editorial May 16, 2016
پاکستان کو امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے کے بجائے روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اپنے تعلقات زیادہ مضبوط اور بہتر بنانے چاہئیں. فوٹو: فائل

ISLAMABAD: امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ہفتے کو واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان امریکا تعلقات پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اس مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری کی اطلاعات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے اہم اور کلیدی تعلقات جاری رکھنے پر قائم ہے' یہ ایسا اہم رشتہ ہے جس پر ہمیں پورا اعتماد ہے' خطے میں ہمیں مشترکہ خطرات اور خدشات کا سامنا ہے اور ہمارے مفادات یکساں ہیں' یہی وجہ ہے کہ یہ رشتہ ہمارے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے' ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے پر کام کرتے رہیں گے۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں کبھی پاک امریکا تعلقات انتہائی مضبوط ہو جاتے ہیں اور کبھی امریکا کی جانب سے ایسے ایشو سامنے آتے ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں پیچیدگی آ جاتی ہے۔ جان کربی نے بھی انھی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ پاک امریکا تعلقات میں کبھی کبھی تناؤ آ جاتا ہے۔

ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات میں پہلے بھی پیچیدگیاں آچکی ہیں اور اب ایک بار پھر جب پاکستان نے دہشت گردی کی مہم کو موثر بنانے کے لیے امریکا سے ایف سولہ طیارے خریدنے کی بات کی تو اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان فنانسنگ کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہوگئے۔ گزشتہ دنوں سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ایٹمی عدم پھیلاؤ سے متعلق سیمینار سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اگر امریکا نے فنڈز نہ دیے تو دیگر ممالک سے ایف 16 طیارے خرید سکتے ہیں۔ اب ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان ایف سولہ طیاروں کو جدید بنانے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مسئلے پر بھی پاک امریکا اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔

سرتاج عزیز یہ واضح کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر امریکی دباؤ قبول نہیں' شکیل آفریدی امریکا کے لیے ہیرو ہے لیکن پاکستان کا مجرم ہے اس کا معاملہ ابھی عدالت میں ہے جو فیصلہ ہو گا اس پر عمل کیا جائے گا۔ جب امریکی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس خطے میں دونوں ممالک کے مفادات' خطرات اور خدشات مشترکہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات نہایت اہم ہیں تو پھر امریکا ایسے ایشو کیوں اٹھاتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اچھے خاصے تعلقات ایک دم تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی مخالفت کی اور جب پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد مجبوراً ایٹمی دھماکے کیے تو امریکا نے پاکستان پر تجارتی پابندیاں لگا دیں اور اس پر ہر ممکن دباؤ بڑھانے کی کوشش کی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر لے۔ لیکن پاکستان نے امریکی موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکا پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے دعوے تو کرتا ہے لیکن اس نے خطے میں ہمیشہ بھارتی مفادات کو پاکستان کے مفادات پر ترجیح دی ہے۔

اس نے بھارت کے ساتھ سول جوہری معاہدے کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدے بھی کیے لیکن اس نے پاکستان کے مطالبے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں امریکی مفادات کا جھکاؤ بھارت کی جانب زیادہ ہو چکا ہے۔ اب ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ امریکا نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کا معاملہ شروع کیا تو بھارت نے امریکا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ کسی بھی طور پر پاکستان کو یہ طیارے فراہم نہ کرے اور اب امریکا کی جانب سے ان طیاروں کی فراہمی میں مختلف ایشو اٹھانے کے پیچھے بھی بھارتی لابی کام کر رہی ہے۔

پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے کے بجائے روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اپنے تعلقات زیادہ مضبوط اور بہتر بنانے چاہئیں تاکہ مختلف ایشوز پر وہ امریکی دباؤکا سامنا کرسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں