امریکا چین تجارتی چپقلش
چین کی امریکا کو برآمدات چین کےلیےامریکی درامدات سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں چنانچہ امریکا کا تجارتی خسارہ روز افزوں ہے
ISLAMABAD:
چین اقتصادی ترقی میں اس قدر تیز رفتاری سے پیش رفت کر رہا ہے کہ امریکا کو اپنی ''سپر پاور'' کا سنگھاسن ڈولتا محسوس ہونے لگا ہے جس کے جواب میں اس نے چین کی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھانے کا اپنا وہی دیرینہ رویہ اختیار کر لیا ہے جس پر وہ کالعدم سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے طویل دور میں عمل کرتا رہا ہے۔
باہمی تجارت میں چین کا پلڑا دن بدن بھاری ہوتا جا رہا ہے یعنی چین کی امریکا کو برآمدات چین کے لیے امریکی درامدات سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں چنانچہ امریکا کا تجارتی خسارہ روز افزوں ہے جس کی بنا پر تجارتی میدان میں امریکا چین کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے گزشتہ روز تجارت کے عالمی ادارے ''ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن'' (ڈبلیو ٹی او)سے امریکا کی شکایت لگائی ہے کہ امریکا چین کے ساتھ تجارتی لین دین میں ڈبلیو ٹی او کے قوانین اور ضوابط پر عمل نہیں کر رہا اور چین کی بیشتر درآمدی اشیا پر اپنی مرضی کی ڈیوٹی عاید کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ڈبلیو ٹی او کے قواعد کی صریح خلاف ورزی ہے۔
چین کی وزارت تجارت نے کہا ہے کہ وہ امریکا سے سولر پینل' ونڈ ٹاورز اور تیل کی صنعت کے لیے اسٹیل پائپ خریدتا ہے جو کہ اسے سبسڈی کے تحت ملنے چاہئیں مگر امریکا ان اشیاء کی نہ صرف پوری قیمت وصول کرتا ہے موقع دیکھ کر قیمت میں ناروا اضافہ بھی کر دیتا ہے۔ دوسری طرف امریکا بھی تجارت کے اس عالمی ادارے کے پاس چین کے خلاف شکایتیں جمع کراتا رہتا ہے اور الزام عاید کرتا ہے کہ چین امریکی درآمدات پر اضافی ڈیوٹی اور درآمدی ٹیکس عاید کر دیتا ہے جو ڈبلیو ٹی او کے قواعد کے منافی ہے۔
چین نے امریکا کے خلاف تجارتی بے ضابطگی کی پہلی شکایت 2012ء میں کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا نے چینی درآمدات پر ناجائز طور پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ 2014ء میں ڈبلیو ٹی او کی ایپلیٹ باڈی نے چین کے حق میں فیصلہ دیدیا لیکن امریکا نے اس عالمی ادارے کے فیصلے کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور چین کی شکایت دور نہ کی گئی۔ دوسری طرف امریکا کے تجارتی نمایندے کا کہنا ہے کہ امریکا چین کی شکایت کے بارے میں غور کر رہا ہے جس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت قائم کیے جانے والے دیگر تمام اداروں پر بھی امریکا کو ہی حتمی بالا دستی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان اداروں کے ان فیصلوں پر جو اس کے مفادات کے منافی ہوں لفظاً اور معناً عمل نہیں کرتا۔
چین اقتصادی ترقی میں اس قدر تیز رفتاری سے پیش رفت کر رہا ہے کہ امریکا کو اپنی ''سپر پاور'' کا سنگھاسن ڈولتا محسوس ہونے لگا ہے جس کے جواب میں اس نے چین کی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھانے کا اپنا وہی دیرینہ رویہ اختیار کر لیا ہے جس پر وہ کالعدم سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے طویل دور میں عمل کرتا رہا ہے۔
باہمی تجارت میں چین کا پلڑا دن بدن بھاری ہوتا جا رہا ہے یعنی چین کی امریکا کو برآمدات چین کے لیے امریکی درامدات سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں چنانچہ امریکا کا تجارتی خسارہ روز افزوں ہے جس کی بنا پر تجارتی میدان میں امریکا چین کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے گزشتہ روز تجارت کے عالمی ادارے ''ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن'' (ڈبلیو ٹی او)سے امریکا کی شکایت لگائی ہے کہ امریکا چین کے ساتھ تجارتی لین دین میں ڈبلیو ٹی او کے قوانین اور ضوابط پر عمل نہیں کر رہا اور چین کی بیشتر درآمدی اشیا پر اپنی مرضی کی ڈیوٹی عاید کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ڈبلیو ٹی او کے قواعد کی صریح خلاف ورزی ہے۔
چین کی وزارت تجارت نے کہا ہے کہ وہ امریکا سے سولر پینل' ونڈ ٹاورز اور تیل کی صنعت کے لیے اسٹیل پائپ خریدتا ہے جو کہ اسے سبسڈی کے تحت ملنے چاہئیں مگر امریکا ان اشیاء کی نہ صرف پوری قیمت وصول کرتا ہے موقع دیکھ کر قیمت میں ناروا اضافہ بھی کر دیتا ہے۔ دوسری طرف امریکا بھی تجارت کے اس عالمی ادارے کے پاس چین کے خلاف شکایتیں جمع کراتا رہتا ہے اور الزام عاید کرتا ہے کہ چین امریکی درآمدات پر اضافی ڈیوٹی اور درآمدی ٹیکس عاید کر دیتا ہے جو ڈبلیو ٹی او کے قواعد کے منافی ہے۔
چین نے امریکا کے خلاف تجارتی بے ضابطگی کی پہلی شکایت 2012ء میں کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا نے چینی درآمدات پر ناجائز طور پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ 2014ء میں ڈبلیو ٹی او کی ایپلیٹ باڈی نے چین کے حق میں فیصلہ دیدیا لیکن امریکا نے اس عالمی ادارے کے فیصلے کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور چین کی شکایت دور نہ کی گئی۔ دوسری طرف امریکا کے تجارتی نمایندے کا کہنا ہے کہ امریکا چین کی شکایت کے بارے میں غور کر رہا ہے جس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت قائم کیے جانے والے دیگر تمام اداروں پر بھی امریکا کو ہی حتمی بالا دستی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان اداروں کے ان فیصلوں پر جو اس کے مفادات کے منافی ہوں لفظاً اور معناً عمل نہیں کرتا۔