نفرت نہیں محبت کا فروغ
زبانوں کے حوالے سے انسانوں میں جو تقسیم پائی جاتی ہے، رنگ و نسل اور مذہب بھی انسانوں کی تقسیم کا ایک حوالہ ہیں۔
کرۂ ارض پر انسان نے اپنی زندگی کا آغاز غاروں، درختوں پر رہنے سے کیا، اس دور کے انسان کی غذا جنگلی پھل، درختوں کے پتے اور چھوٹے موٹے شکار سے حاصل ہونے والا گوشت تھا۔ اس کی کوئی زبان نہ تھی، وہ بے معنی آوازیں نکالتا تھا، یہی اس کی زبان تھی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بامعنی آوازیں نکالنے لگا، یہ زبان کا آغاز تھا۔ ساری دنیا میں ذریعہ اظہار ہزاروں طریقوں سے کیا جانے لگا، ہزاروں زبانیں وجود میں آئیں۔ ہر شخص کو اپنی زبان سے محبت ہوتی ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔
جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی، ہر زبان کا رسم الخط ایجاد ہوا، لیکن تہذیبی ترقی کرتا ہوا انسان آہستہ آہستہ بدتہذیب اور متعصب بھی ہوتا گیا۔ اپنی زبان سے محبت کرنا اس کا حق تھا لیکن دوسری زبانوں سے نفرت کر کے اس نے اپنے مہذب ہونے کی نفی کی اور لسانی حوالوں سے تقسیم ہوتا رہا۔ پاکستان میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، اردو، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، بلوچی، مکرانی۔ یہ ساری زبانیں بنیادی طور پر ذریعہ اظہار ہیں، لیکن مہذب انسان نے لسانی حوالے سے انسانوں کے درمیان نفرتوں کی آبیاری کی۔ متحدہ پاکستان کا ایک حصہ مشرقی پاکستان تھا، جہاں بنگلہ زبان بولی جاتی تھی، جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو بنگلہ زبان بولنے والوں کو یہ ناگوار گزرا اور بات یہاں تک بڑھی کہ زبان کے مسئلے پر خونی فسادات ہوئے۔ انسان نے ذریعہ اظہار کو ذریعہ نفرت بنا لیا۔
پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سیکڑوں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، انگریزی، چینی، روسی، فرنچ، جاپانی، عربی، غرض ہر قوم کی اپنی ایک زبان ہے۔ جس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، جس زبان میں کشش ہوتی ہے وہ زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ ہر ملک و قوم کی اپنی ایک زبان ہے، لیکن انگریزی ایک ایسی زبان کا درجہ اختیار کر گئی ہے جو ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو رابطے کی ایسی زبان ہے جو ہر علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کیا زبانوں سے نفرت کی جانی چاہیے؟
زبانوں کے حوالے سے انسانوں میں جو تقسیم پائی جاتی ہے، رنگ و نسل اور مذہب بھی انسانوں کی تقسیم کا ایک حوالہ ہیں۔ مغربی ملکوں میں رہنے والوں کا رنگ صاف یا گورا ہوتا ہے، اس رنگ کی وجہ سے انھیں گورے بھی کہا جاتا ہے، افریقی ممالک میں رہنے والوں میں کالا رنگ ہوتا ہے، انھیں کالے بھی کہا جاتا ہے، ایشیائی باشندوں کا رنگ سانولا ہوتا ہے، ایشیا میں بھی بعض نسلیں ایسی ہیں جن کا رنگ کالا ہوتا ہے، اسی طرح نسلوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں کے عوام سفید رنگ کے ساتھ دراز قد ہوتے ہیں، چینی، جاپانی اور کورین عوام کے قد چھوٹے ہوتے ہیں لیکن رنگ صاف ہوتا ہے، جنوبی ایشیا کے رہنے والوں کے رنگ سانولے ہوتے ہیں لیکن یہ عموماً دراز قد ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رنگ و نسل اختیاری چیزیں ہیں؟ کیا انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی گورے، کالے یا سانولے، دراز قد یا پستہ قد گھرانے میں پیدا ہو؟ نہیں یہ حق کسی کو حاصل نہیں۔ جو بچہ جس گھرانے، جس رنگ و نسل میں پیدا ہوتا ہے وہ اسی رنگ و نسل سے پہچانا جاتا ہے۔ جب کسی بچے کو اپنی پسند کے گھرانے میں پیدا ہونے کا حق ہے، نہ اس پیدائش میں اس کی مرضی کا کوئی دخل ہے، تو پھر ان حوالوں سے ایک دوسرے سے نفرت اور تعصب کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟
انسانوں کی تقسیم کا ایک بڑا اور حساس حوالہ مذہب ہے، لیکن انسان اس حوالے سے بھی مکمل طور پر بے اختیار ہے۔ وہ جس گھرانے، جس مذہب کے ماننے والوں کے گھر میں پیدا ہوتا ہے، وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے، لیکن پیدائش کے بعد سن شعور کو پہنچنے کے بعد اگر وہ کسی مذہب کو اپنا لیتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے، لیکن یہ مسئلہ اس قدر حساس ہے کہ مذہب کی تبدیلی بعض وقت خون خرابے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام میں تو مذہب کی تبدیلی شرعاً ناقابل قبول ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کو اتنا حساس مسئلہ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ مذہب چونکہ حساس ترین مسئلہ ہے لہٰذا اس حوالے سے انسان کسی بحث سے اجتناب ہی کو ترجیح دیتا ہے۔
اگرچہ ہر مذہب میں خدا اور عبادات الگ الگ ہوتے ہیں لیکن غیر شعوری طور پر ہر انسان خدا کو آسمان ہی پر تلاش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے حوالے سے مختلف المذاہب لوگوں میں ایک مشترکہ پوائنٹ بنتا ہے اور اگر انسان مذہبی نفرتوں سے بچنا چاہے تو اس مشترکہ عقیدے کو انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
انسانوں کی تاریخ مذہب رنگارنگی کے علاوہ مذہبی نفرتوں سے بھری پڑی ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر کشمیر اور فلسطین تک مذہبی منافرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں انسان مذہبی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ آج ساری دنیا میں ہم جو دہشت گردی کے خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں، دہشت گرد اپنی اس حیوانیت میں بھی مذہب کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ساری دنیا پر وہ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن ان کے دعوؤں کا پول اس وقت کھل جاتا ہے جب ان کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہوتے ہیں۔ آج جو ملک دہشت گردوں کے مراکز بنے ہوئے ہیں وہ مسلم ملک ہی ہیں۔ لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے دعویداروں نے 50 ہزار سے زیادہ پاکستانی مسلمانوں کو کیوں قتل کیا؟
ہم نے زبان رنگ و نسل سے لے کر مذاہب کے حوالے سے کی جانے والی منفی کوششوں کا مختصراً ذکر اس لیے کیا کہ اولاد آدم کو احساس ہو کہ وہ صرف ایک ہی جدامجد کی اولاد ہیں، ان کا ایک دوسرے سے خونی رشتہ ہے اور جب خدائے برتر اپنے آپ کو رب العالمین یعنی ساری دنیا اور ساری دنیاؤں میں رہنے والوں کا رب کہتا ہے تو پھر اس خاکی انسان کو یہ کیسے زیب دے سکتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرے۔ اس حوالے سے ہر مذہب میں طریقہ عبادت الگ الگ ہے لیکن ان سب کا مقصد انسانی جذبات کی تسکین اور خدا کی برتری کے آگے سرتسلیم خم کرنا ہے۔ جب بات یہی سچ ہے تو پھر رنگ، نسل، دین دھرم کے حوالوں سے نفرت کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔
جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی، ہر زبان کا رسم الخط ایجاد ہوا، لیکن تہذیبی ترقی کرتا ہوا انسان آہستہ آہستہ بدتہذیب اور متعصب بھی ہوتا گیا۔ اپنی زبان سے محبت کرنا اس کا حق تھا لیکن دوسری زبانوں سے نفرت کر کے اس نے اپنے مہذب ہونے کی نفی کی اور لسانی حوالوں سے تقسیم ہوتا رہا۔ پاکستان میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، اردو، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، بلوچی، مکرانی۔ یہ ساری زبانیں بنیادی طور پر ذریعہ اظہار ہیں، لیکن مہذب انسان نے لسانی حوالے سے انسانوں کے درمیان نفرتوں کی آبیاری کی۔ متحدہ پاکستان کا ایک حصہ مشرقی پاکستان تھا، جہاں بنگلہ زبان بولی جاتی تھی، جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو بنگلہ زبان بولنے والوں کو یہ ناگوار گزرا اور بات یہاں تک بڑھی کہ زبان کے مسئلے پر خونی فسادات ہوئے۔ انسان نے ذریعہ اظہار کو ذریعہ نفرت بنا لیا۔
پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سیکڑوں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، انگریزی، چینی، روسی، فرنچ، جاپانی، عربی، غرض ہر قوم کی اپنی ایک زبان ہے۔ جس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، جس زبان میں کشش ہوتی ہے وہ زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ ہر ملک و قوم کی اپنی ایک زبان ہے، لیکن انگریزی ایک ایسی زبان کا درجہ اختیار کر گئی ہے جو ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو رابطے کی ایسی زبان ہے جو ہر علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کیا زبانوں سے نفرت کی جانی چاہیے؟
زبانوں کے حوالے سے انسانوں میں جو تقسیم پائی جاتی ہے، رنگ و نسل اور مذہب بھی انسانوں کی تقسیم کا ایک حوالہ ہیں۔ مغربی ملکوں میں رہنے والوں کا رنگ صاف یا گورا ہوتا ہے، اس رنگ کی وجہ سے انھیں گورے بھی کہا جاتا ہے، افریقی ممالک میں رہنے والوں میں کالا رنگ ہوتا ہے، انھیں کالے بھی کہا جاتا ہے، ایشیائی باشندوں کا رنگ سانولا ہوتا ہے، ایشیا میں بھی بعض نسلیں ایسی ہیں جن کا رنگ کالا ہوتا ہے، اسی طرح نسلوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں کے عوام سفید رنگ کے ساتھ دراز قد ہوتے ہیں، چینی، جاپانی اور کورین عوام کے قد چھوٹے ہوتے ہیں لیکن رنگ صاف ہوتا ہے، جنوبی ایشیا کے رہنے والوں کے رنگ سانولے ہوتے ہیں لیکن یہ عموماً دراز قد ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رنگ و نسل اختیاری چیزیں ہیں؟ کیا انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی گورے، کالے یا سانولے، دراز قد یا پستہ قد گھرانے میں پیدا ہو؟ نہیں یہ حق کسی کو حاصل نہیں۔ جو بچہ جس گھرانے، جس رنگ و نسل میں پیدا ہوتا ہے وہ اسی رنگ و نسل سے پہچانا جاتا ہے۔ جب کسی بچے کو اپنی پسند کے گھرانے میں پیدا ہونے کا حق ہے، نہ اس پیدائش میں اس کی مرضی کا کوئی دخل ہے، تو پھر ان حوالوں سے ایک دوسرے سے نفرت اور تعصب کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟
انسانوں کی تقسیم کا ایک بڑا اور حساس حوالہ مذہب ہے، لیکن انسان اس حوالے سے بھی مکمل طور پر بے اختیار ہے۔ وہ جس گھرانے، جس مذہب کے ماننے والوں کے گھر میں پیدا ہوتا ہے، وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے، لیکن پیدائش کے بعد سن شعور کو پہنچنے کے بعد اگر وہ کسی مذہب کو اپنا لیتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے، لیکن یہ مسئلہ اس قدر حساس ہے کہ مذہب کی تبدیلی بعض وقت خون خرابے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام میں تو مذہب کی تبدیلی شرعاً ناقابل قبول ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کو اتنا حساس مسئلہ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ مذہب چونکہ حساس ترین مسئلہ ہے لہٰذا اس حوالے سے انسان کسی بحث سے اجتناب ہی کو ترجیح دیتا ہے۔
اگرچہ ہر مذہب میں خدا اور عبادات الگ الگ ہوتے ہیں لیکن غیر شعوری طور پر ہر انسان خدا کو آسمان ہی پر تلاش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے حوالے سے مختلف المذاہب لوگوں میں ایک مشترکہ پوائنٹ بنتا ہے اور اگر انسان مذہبی نفرتوں سے بچنا چاہے تو اس مشترکہ عقیدے کو انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
انسانوں کی تاریخ مذہب رنگارنگی کے علاوہ مذہبی نفرتوں سے بھری پڑی ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر کشمیر اور فلسطین تک مذہبی منافرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں انسان مذہبی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ آج ساری دنیا میں ہم جو دہشت گردی کے خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں، دہشت گرد اپنی اس حیوانیت میں بھی مذہب کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ساری دنیا پر وہ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن ان کے دعوؤں کا پول اس وقت کھل جاتا ہے جب ان کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہوتے ہیں۔ آج جو ملک دہشت گردوں کے مراکز بنے ہوئے ہیں وہ مسلم ملک ہی ہیں۔ لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے دعویداروں نے 50 ہزار سے زیادہ پاکستانی مسلمانوں کو کیوں قتل کیا؟
ہم نے زبان رنگ و نسل سے لے کر مذاہب کے حوالے سے کی جانے والی منفی کوششوں کا مختصراً ذکر اس لیے کیا کہ اولاد آدم کو احساس ہو کہ وہ صرف ایک ہی جدامجد کی اولاد ہیں، ان کا ایک دوسرے سے خونی رشتہ ہے اور جب خدائے برتر اپنے آپ کو رب العالمین یعنی ساری دنیا اور ساری دنیاؤں میں رہنے والوں کا رب کہتا ہے تو پھر اس خاکی انسان کو یہ کیسے زیب دے سکتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرے۔ اس حوالے سے ہر مذہب میں طریقہ عبادت الگ الگ ہے لیکن ان سب کا مقصد انسانی جذبات کی تسکین اور خدا کی برتری کے آگے سرتسلیم خم کرنا ہے۔ جب بات یہی سچ ہے تو پھر رنگ، نسل، دین دھرم کے حوالوں سے نفرت کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔