کل کبھی نہیں آتا
کل کبھی نہیں آتا ہے، لیکن پھر بھی ہم اس کے لیے ایک دوسرے کو روندتے اور کچلتے ہیں،
کل کبھی نہیں آتا ہے، لیکن پھر بھی ہم اس کے لیے ایک دوسرے کو روندتے اور کچلتے ہیں، سازشیں کرتے ہیں، دھوکا دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، بدعنوانی کرتے ہیں، اعتماد کا قتل کرتے ہیں، اشیا اور چیزوں کا ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر ایک روز صرف پچھتاوا، پشیمانی، ندامت، شرمندگی لیے نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے دوسرے سے ایک باہمی دوست کے جنازے پر پوچھا ''اس نے کیا چھوڑا ہے'' تو پہلے دوست نے جواب میں کہا ''اس نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے''۔ یاد رکھیں، واپسی کا راستہ بہت جلدی طے ہوتا ہے، ہم سب کچھ پالینے کے چکر میں سب کچھ کھو دیتے ہیں۔
عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کا نام الیوسی ہے، جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے موضوعات پر بحث کی، جن پر میکاؤلی بھی لکھ چکا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے۔
جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سرزمین فتح کرنے پر مبارکباد دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا، بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا، جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے، آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں؟ تو وہ بولا، جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں، اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا۔ ''بخشی'' ابن ابی مہلی نے کہا، بولو کیا بولتے ہو۔
وہ شخص گویا ہوا ''کھیل کی بازی میں کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے، یا زخم نہ آجائے، موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگامشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کچھ بھی نہیں، سوائے پریشانی اور تکلیف کے اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں''۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک بہت عظیم الشان سلطنت کا حکمران تھا، جو مشرقی وسطیٰ سے لے کر وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب وہ خلیفہ بنا تو اس نے خزانے کے منہ کھول دیے اور اپنے دوستوں اور عزیزو اقارب کو قیمتی تحائف سے نوازا۔ اسے امید تھی کہ اس کا سابق استاد سفیان بھی اس کے ہاں حاضری دے گا۔ جب وہ نہ آیا تو ہارون نے ایک قاصد عباد کے ہاتھ اسے ایک خط بھیجا۔ جب عباد پہنچا تو سفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک مسجد میں بیٹھا تھا، جب اس نے سفیان کو خلیفہ کا خط پیش کیا تو سفیان نے اسے پکڑنے سے انکار کردیا اور پاس بیٹھے ایک شخص سے کہا کہ وہ اسے کھول کر سنائے۔ خط میں لکھا تھا ''ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں، ہمیں اپنے درمیان دوستی کے بندھن کا بڑا پاس ہے''۔
سفیان اپنے ساتھیوں سے بولا، میرا جواب اس چٹھی کی پشت کر لکھ دو۔ شاگرد بولے، مرشد آپ نیا کاغذ استعمال کیوں نہیں کرتے؟ نہیں اسی کاغذ کی پشت پر لکھو، اس نے دوبارہ کہا، پھر اس نے یہ کلمات لکھوائے ''قرآن کی حلاوت سے محروم، گمراہ ہارون کے نام! تم نے مومنین کے خزانے کا منہ کھول کر اس کی مال و دولت کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تقسیم کیا ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کی اجازت حاصل کرلی تھی جو کہ اﷲ کے راستے میں جنگیں کرتے ہیں، کیا تم نے یتیموں اور بیواؤں کی اجازت حاصل کرلی تھی؟ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے سفیان آخر میں لکھواتا ہے، جہاں تک ہماری تمہاری دوستی کا سوال ہے یہ اب گئی، ہمارے بیچ اب کسی پیار محبت کا بندھن نہیں رہا، ہمیں اب کبھی اگر آپ نے خط بھیجا تو ہم نہ تو اسے پڑھیں گے اور نہ ہی اس کا جواب دیں گے۔یہ سن کر عباد سیدھا بازار گیا اور معمولی اور سستے سے کپڑے لے کر پہنے اور پھر وہ خط کا جواب لے کر ہارون الرشید کی طرف چلا آیا۔ جب خلیفہ نے عباد کو معمولی کپڑوں میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ سب سمجھ گیا اور پکار اٹھا ''قاصد کامیاب ہوگیا اور اس کا آقا ناکام رہا''۔ جب اس نے جواب پڑھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کے درباری بولے ''یا امیرالمومنین سفیان نے بڑی گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے، سپاہیوں کو بھیج کر اسے یہاں بلوائیے'' ہارون بولا ''یہ تم لوگ ہی ہو جنھوں نے مجھے گمراہ کیا ہے''۔
ہم نصیبوں کے نہیں بلکہ اپنے حکمرانوں کی نیت کے مارے ہیں، کیونکہ جب حکمران لوگوں کے خادم کے بجائے اپنے آپ کو آقا سمجھ بیٹھتے ہیں تو پھر لوگ سفیان کی طرح سوال کرنے لگ جاتے ہیں کہ تم ہمارے مسائل حل کرنے آئے ہو یا نئے مسائل پیدا کرنے آئے ہو یا صرف آف شور کمپنیاں بنانے آئے ہو۔ دیکھو تمہاری وجہ سے ملک بھر میں خاک اڑتی پھر رہی ہے، عالی شان محلوں میں رہنے والو، عالی شان بستروں پر سونے والو، کبھی تم نے سوچا ہے کہ تمہیں اس جگہ پہنچانے والے کس حال میں ہیں؟ بتاؤ تمہیں اپنے علاوہ 20 کروڑ انسان نظر کیوں نہیں آتے ہیں۔
ان کی آہ و بکا تمہیں سنائی کیوں نہیں دیتی ہیں؟ گلی گلی آوارہ گھومتی موت تمہیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ آج ملک میں نئی آبادیوں کے بجائے قبرستانوں میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ کبھی تمہیں آف شور کمپنیاں اور بنانے سے فرصت مل جائے تو وہ حلف دوبارہ پڑھ لینا جو تم نے 20 کروڑ انسانوں کے سامنے اٹھایا تھا۔ جو اپنے حلف کی پاسداری نہ کرسکے وہ صادق اور امین کیسے ہوسکتا ہے؟ یاد رکھو! صرف تمہارے ہی اہل خانہ نہیں ہیں، ہمارے بھی اہل خانہ ہیں، صرف تمہارے ہی بچے نہیں ہیں، ہماری بھی اولاد ہے۔
خدارا ہم سب کے گناہ تو بتادو، ہمارے جرم تو گنا دو کہ ہمیں کن گناہوں اور جرائم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا صرف تم ہی انسان ہو؟ کیا صرف تمہارے ہی حقوق، خواہشات اور آرزوئیں ہیں؟ کیا صرف تمہیں ہی خوش رہنے اور زندگی کی تمام لذتوں کا مزا لینے کا حق حاصل ہے؟ کیا ہمارے نصیب میں صرف مسائل ہی مسائل ہیں؟ جلد یا بدیر تمہیں یہ احساس ہوہی جانا ہے کہ تم نے یہ کیا کردیا ہے۔ لیکن یاد رکھو پھر تمہارے پاس صرف پچھتاوا ہی پچھتاوا، ندامت ہی ندامت اور شرمندگی ہی شرمندگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہوگا۔
عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کا نام الیوسی ہے، جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے موضوعات پر بحث کی، جن پر میکاؤلی بھی لکھ چکا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے۔
جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سرزمین فتح کرنے پر مبارکباد دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا، بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا، جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے، آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں؟ تو وہ بولا، جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں، اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا۔ ''بخشی'' ابن ابی مہلی نے کہا، بولو کیا بولتے ہو۔
وہ شخص گویا ہوا ''کھیل کی بازی میں کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے، یا زخم نہ آجائے، موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگامشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کچھ بھی نہیں، سوائے پریشانی اور تکلیف کے اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں''۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک بہت عظیم الشان سلطنت کا حکمران تھا، جو مشرقی وسطیٰ سے لے کر وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب وہ خلیفہ بنا تو اس نے خزانے کے منہ کھول دیے اور اپنے دوستوں اور عزیزو اقارب کو قیمتی تحائف سے نوازا۔ اسے امید تھی کہ اس کا سابق استاد سفیان بھی اس کے ہاں حاضری دے گا۔ جب وہ نہ آیا تو ہارون نے ایک قاصد عباد کے ہاتھ اسے ایک خط بھیجا۔ جب عباد پہنچا تو سفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک مسجد میں بیٹھا تھا، جب اس نے سفیان کو خلیفہ کا خط پیش کیا تو سفیان نے اسے پکڑنے سے انکار کردیا اور پاس بیٹھے ایک شخص سے کہا کہ وہ اسے کھول کر سنائے۔ خط میں لکھا تھا ''ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں، ہمیں اپنے درمیان دوستی کے بندھن کا بڑا پاس ہے''۔
سفیان اپنے ساتھیوں سے بولا، میرا جواب اس چٹھی کی پشت کر لکھ دو۔ شاگرد بولے، مرشد آپ نیا کاغذ استعمال کیوں نہیں کرتے؟ نہیں اسی کاغذ کی پشت پر لکھو، اس نے دوبارہ کہا، پھر اس نے یہ کلمات لکھوائے ''قرآن کی حلاوت سے محروم، گمراہ ہارون کے نام! تم نے مومنین کے خزانے کا منہ کھول کر اس کی مال و دولت کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تقسیم کیا ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کی اجازت حاصل کرلی تھی جو کہ اﷲ کے راستے میں جنگیں کرتے ہیں، کیا تم نے یتیموں اور بیواؤں کی اجازت حاصل کرلی تھی؟ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے سفیان آخر میں لکھواتا ہے، جہاں تک ہماری تمہاری دوستی کا سوال ہے یہ اب گئی، ہمارے بیچ اب کسی پیار محبت کا بندھن نہیں رہا، ہمیں اب کبھی اگر آپ نے خط بھیجا تو ہم نہ تو اسے پڑھیں گے اور نہ ہی اس کا جواب دیں گے۔یہ سن کر عباد سیدھا بازار گیا اور معمولی اور سستے سے کپڑے لے کر پہنے اور پھر وہ خط کا جواب لے کر ہارون الرشید کی طرف چلا آیا۔ جب خلیفہ نے عباد کو معمولی کپڑوں میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ سب سمجھ گیا اور پکار اٹھا ''قاصد کامیاب ہوگیا اور اس کا آقا ناکام رہا''۔ جب اس نے جواب پڑھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کے درباری بولے ''یا امیرالمومنین سفیان نے بڑی گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے، سپاہیوں کو بھیج کر اسے یہاں بلوائیے'' ہارون بولا ''یہ تم لوگ ہی ہو جنھوں نے مجھے گمراہ کیا ہے''۔
ہم نصیبوں کے نہیں بلکہ اپنے حکمرانوں کی نیت کے مارے ہیں، کیونکہ جب حکمران لوگوں کے خادم کے بجائے اپنے آپ کو آقا سمجھ بیٹھتے ہیں تو پھر لوگ سفیان کی طرح سوال کرنے لگ جاتے ہیں کہ تم ہمارے مسائل حل کرنے آئے ہو یا نئے مسائل پیدا کرنے آئے ہو یا صرف آف شور کمپنیاں بنانے آئے ہو۔ دیکھو تمہاری وجہ سے ملک بھر میں خاک اڑتی پھر رہی ہے، عالی شان محلوں میں رہنے والو، عالی شان بستروں پر سونے والو، کبھی تم نے سوچا ہے کہ تمہیں اس جگہ پہنچانے والے کس حال میں ہیں؟ بتاؤ تمہیں اپنے علاوہ 20 کروڑ انسان نظر کیوں نہیں آتے ہیں۔
ان کی آہ و بکا تمہیں سنائی کیوں نہیں دیتی ہیں؟ گلی گلی آوارہ گھومتی موت تمہیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ آج ملک میں نئی آبادیوں کے بجائے قبرستانوں میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ کبھی تمہیں آف شور کمپنیاں اور بنانے سے فرصت مل جائے تو وہ حلف دوبارہ پڑھ لینا جو تم نے 20 کروڑ انسانوں کے سامنے اٹھایا تھا۔ جو اپنے حلف کی پاسداری نہ کرسکے وہ صادق اور امین کیسے ہوسکتا ہے؟ یاد رکھو! صرف تمہارے ہی اہل خانہ نہیں ہیں، ہمارے بھی اہل خانہ ہیں، صرف تمہارے ہی بچے نہیں ہیں، ہماری بھی اولاد ہے۔
خدارا ہم سب کے گناہ تو بتادو، ہمارے جرم تو گنا دو کہ ہمیں کن گناہوں اور جرائم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا صرف تم ہی انسان ہو؟ کیا صرف تمہارے ہی حقوق، خواہشات اور آرزوئیں ہیں؟ کیا صرف تمہیں ہی خوش رہنے اور زندگی کی تمام لذتوں کا مزا لینے کا حق حاصل ہے؟ کیا ہمارے نصیب میں صرف مسائل ہی مسائل ہیں؟ جلد یا بدیر تمہیں یہ احساس ہوہی جانا ہے کہ تم نے یہ کیا کردیا ہے۔ لیکن یاد رکھو پھر تمہارے پاس صرف پچھتاوا ہی پچھتاوا، ندامت ہی ندامت اور شرمندگی ہی شرمندگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہوگا۔