پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کی شکست
یہ نشست 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کے ارباب اکبر حیات نے 13 ہزار528 ووٹ لے کر جیتی تھی
گذشتہ ہفتہ پشاور کی سیاسی بھیڑ چال انتہائی اہم رہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا شہر میں جلسہ عام سے خطاب اورپھر صوبائی اسمبلی کے رکن ارباب اکبر حیات خان کے انتقال سے خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 8 پر انتخابات نے سیاسی ماحول کو کافی گرمائے رکھا۔یہ گرمی پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار ارباب وسیم خان کی کامیابی پر منتج ہوئی اور دیگر سیاسی جماعتوں سمیت حکمران پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی!۔
پشاور میں جہاں عام انتخابات میںپاکستان تحریک انصاف کے آٹھ امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے اس بار عمران خان کے جلسے اور صوبے میں حکمرانی کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست سے نئے خیبرپختون خوا اور نئے پشاور کی قلعی کھل گئی ہے۔یہ وہی صوبہ ہے جس نے ہر نئے آنیوالے کو سیاست کے میدان میں عام انتخابات کے دوران آزمایا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جتنے مرضی ترقیاتی کام ہوں ماسوائے چند شخصیات کے بحیثیت مجموعی کسی بھی سیاسی جماعت کو دوبارہ مسند حکمرانی پر بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے مگر سردست پی کے 8 پر ہونیوالے انتخابی دنگل کی بات ہو جائے۔
یہ نشست 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کے ارباب اکبر حیات نے 13 ہزار528 ووٹ لے کر جیتی تھی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار سابق صوبائی وزیر آصف اقبال داؤد زئی جنہوں نے 10 ہزار854 ووٹ لیے،اڑھائی برس تک عدالتوں کے چکر لگاتے رہے ان کا مؤقف تھا کہ ووٹ انھیںزیادہ پڑے ہیں لیکن جیت کا نوٹیفیکیشن ارباب اکبر حیات کے حق میں آیا پھر انھیں عدالتی فیصلے کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنا پڑا۔سولہ مارچ کو ارباب اکبر حیات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور الیکشن کمیشن نے اس نشست پر ضمنی انتخابات 12 مئی کو کروانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ۔مقامی سنجیدہ حلقوں کا خیال تھا کہ سب سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور متفقہ فیصلہ کر کے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار کو بلا مقابلہ منتخب کر لیا جائے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور پندرہ امیدوارجیت کی امید لیے میدان میں اتر آئے۔
مسلم لیگ ن نے ٹکٹ مرحوم ارباب اکبر حیات کے داماد ارباب وسیم کو دیا،پاکستان تحریک انصاف نے نوجوان شہزاد خان کو میدان میں اتارا ، پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے وفاداراور سابق رکن اسمبلی ملک طماش خان پر اعتماد کیا اور جمعیت علمائے اسلام کا ٹکٹ سابق صوبائی وزیر آصف اقبال داؤد زئی کے حصے میں آیا۔
ان کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے اعجاز احمدسیماب، تحریک تحفظ پاکستان کے حسین شاہ، پاکستان راہ حق پارٹی کے سرور خان، فرنٹ نیشنل پارٹی کے یوسف خان جب کہ 7آزاد امیدواروں نے اس نشست پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔انتخابات سے قبل ہی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کلین سویپ کرینگے بعض مبصرین کا خیال تھا کہ اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار جیت جائینگے اور بعض آصف اقبال داؤد زئی کے حق میں تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے کمزور امیدوار میدان میں اتارا ہے جس کے لیے جیتنا آسان نہ ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کے جلسے دیکھ کر کچھ بھی اندازہ لگانا ممکن نہ تھا خاص طور پر جب عمران خان نے پشاور میں جلسہ کیا اور جس طرح جمعیت علمائے اسلام کے راہ نماؤں کو للکارا تو یوں دکھائی دینے لگا کہ یہ نشست پی ٹی آئی با آسانی جیت لے گی مگربارہ مئی کو اس حلقے کے عوام نے سارے دعوے غلط ثابت کردیے اگرچہ حتمی گنتی سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک طماش خان کی کامیابی کا اعلان ہو گیا اور پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ہوائی فائرنگ کے ساتھ اپنی کامیابی کا جشن منانا شروع کر دیا لیکن یہ خوشی کچھ ہی دیر میں زائل ہو گئی جب سرکاری نتیجہ سامنے آیا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کمزور قرار پانے والے امیدوار ارباب وسیم خان 11 ہزار781 ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک طماش خان 10 ہزار789 ووٹ لے کر دوسرے، پاکستان تحریک انصاف کے شہزاد خان 9 ہزار347 ووٹ لے کر تیسرے جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے آصف اقبال داؤدزئی 9 ہزار308 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر آئے پانچویں پوزیشن عوامی نیشنل پارٹی نے حاصل کی ان کے امیدوار اعجاز سیماب 2 ہزار 481ووٹ سمیٹ سکے ۔
اس نتیجے سے جو باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں اس کا ادراک سبھی جماعتوں کو ہے اول تو یہ کہ عمران خان کے پشاور میں جلسے اور ان کی جانب سے جے یو آئی کے قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کو اچھا نہیں سمجھا گیا ۔انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی تک خود کو محدود رکھتے اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو کرتے ۔یہاںخیبرپختون خوا میں لیڈر بھلے بہت برے ہوں مگرصوبے کی سیاست میں ان کی پگڑیاں اچھالنے والوں کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا،دوئم اس شکست سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آنیوالے دن پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکل ہونگے ۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ترقی کے دعوے اب خود ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے اگرچہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور آیندہ انتخابات میں ترپ کے پتے انھی کے پاس ہون گے مگر شخصیت کے سہارے آگے بڑھنے والی سیاسی جماعت کو بہرطور نقصان پہنچے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نقصان پہنچانے والے بھی خیر سے اپنے ہی ہونگے البتہ پاکستان پیپلز پارٹی شکست کے باوجود دیگر تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے پہلے نمبر پر آگئی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں اس کے امیدوار ملک طماش خان نے8 ہزار324 ووٹ حاصل کیے تھے جن میں ایک ہزار سے زیادہ ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے جس کا کریڈٹ بلاشبہ ملک طماش خان کو ہی جاتا ہے جنہوں نے ہارنے کے باوجود علاقے کے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے ۔
جہاں تک پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار کی جیت کا تعلق ہے تو مسلم لیگ اور اس کے مرکزی قائدین نے روایتوں کے امین شہرپشاور کو جس طرح نظر انداز کر رکھا ہے اور جس طرح کارکنوں کا استحصال کیا جا رہا ہے یہ کامیابی صرف اور صرف ارباب اکبر حیات کے انتقال پر مقامی ووٹرز کی جانب سے اپنی روایات و اقدار کا پاس رکھتے ہوئے محض ہمدردی کا اظہار ہے ۔اس فیصلے کے بعد شنید ہے کہ عمران خان نے صوبائی قیادت پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے۔
اس کمیٹی کی جانب سے شکست کی جو بھی وجوہات سامنے آئیں ان سے قطع نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی کے 8 میں" پی کے "کے ہوتے ہوئے "آئی کے "کی شکست بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکا ہے جس کے اثرات مزید پھیلیں گے اور شاید اب پاکستان تحریک انصاف کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑے کیونکہ مجموعی پول ہونیوالے ووٹوں کی کل تعداد 46 ہزار129 رہی جس میں تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ نکال دیے جائیں تو 36 ہزار782 ووٹ حکمران جماعت کے خلاف پڑے ہیں اس سے پشاور سمیت سارے صوبے میں آیندہ انتخابات کے نتائج کی پیشگی جھلک کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
پشاور میں جہاں عام انتخابات میںپاکستان تحریک انصاف کے آٹھ امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے اس بار عمران خان کے جلسے اور صوبے میں حکمرانی کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست سے نئے خیبرپختون خوا اور نئے پشاور کی قلعی کھل گئی ہے۔یہ وہی صوبہ ہے جس نے ہر نئے آنیوالے کو سیاست کے میدان میں عام انتخابات کے دوران آزمایا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جتنے مرضی ترقیاتی کام ہوں ماسوائے چند شخصیات کے بحیثیت مجموعی کسی بھی سیاسی جماعت کو دوبارہ مسند حکمرانی پر بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے مگر سردست پی کے 8 پر ہونیوالے انتخابی دنگل کی بات ہو جائے۔
یہ نشست 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کے ارباب اکبر حیات نے 13 ہزار528 ووٹ لے کر جیتی تھی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار سابق صوبائی وزیر آصف اقبال داؤد زئی جنہوں نے 10 ہزار854 ووٹ لیے،اڑھائی برس تک عدالتوں کے چکر لگاتے رہے ان کا مؤقف تھا کہ ووٹ انھیںزیادہ پڑے ہیں لیکن جیت کا نوٹیفیکیشن ارباب اکبر حیات کے حق میں آیا پھر انھیں عدالتی فیصلے کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنا پڑا۔سولہ مارچ کو ارباب اکبر حیات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور الیکشن کمیشن نے اس نشست پر ضمنی انتخابات 12 مئی کو کروانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ۔مقامی سنجیدہ حلقوں کا خیال تھا کہ سب سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور متفقہ فیصلہ کر کے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار کو بلا مقابلہ منتخب کر لیا جائے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور پندرہ امیدوارجیت کی امید لیے میدان میں اتر آئے۔
مسلم لیگ ن نے ٹکٹ مرحوم ارباب اکبر حیات کے داماد ارباب وسیم کو دیا،پاکستان تحریک انصاف نے نوجوان شہزاد خان کو میدان میں اتارا ، پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے وفاداراور سابق رکن اسمبلی ملک طماش خان پر اعتماد کیا اور جمعیت علمائے اسلام کا ٹکٹ سابق صوبائی وزیر آصف اقبال داؤد زئی کے حصے میں آیا۔
ان کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے اعجاز احمدسیماب، تحریک تحفظ پاکستان کے حسین شاہ، پاکستان راہ حق پارٹی کے سرور خان، فرنٹ نیشنل پارٹی کے یوسف خان جب کہ 7آزاد امیدواروں نے اس نشست پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔انتخابات سے قبل ہی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کلین سویپ کرینگے بعض مبصرین کا خیال تھا کہ اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار جیت جائینگے اور بعض آصف اقبال داؤد زئی کے حق میں تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے کمزور امیدوار میدان میں اتارا ہے جس کے لیے جیتنا آسان نہ ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کے جلسے دیکھ کر کچھ بھی اندازہ لگانا ممکن نہ تھا خاص طور پر جب عمران خان نے پشاور میں جلسہ کیا اور جس طرح جمعیت علمائے اسلام کے راہ نماؤں کو للکارا تو یوں دکھائی دینے لگا کہ یہ نشست پی ٹی آئی با آسانی جیت لے گی مگربارہ مئی کو اس حلقے کے عوام نے سارے دعوے غلط ثابت کردیے اگرچہ حتمی گنتی سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک طماش خان کی کامیابی کا اعلان ہو گیا اور پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ہوائی فائرنگ کے ساتھ اپنی کامیابی کا جشن منانا شروع کر دیا لیکن یہ خوشی کچھ ہی دیر میں زائل ہو گئی جب سرکاری نتیجہ سامنے آیا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کمزور قرار پانے والے امیدوار ارباب وسیم خان 11 ہزار781 ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک طماش خان 10 ہزار789 ووٹ لے کر دوسرے، پاکستان تحریک انصاف کے شہزاد خان 9 ہزار347 ووٹ لے کر تیسرے جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے آصف اقبال داؤدزئی 9 ہزار308 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر آئے پانچویں پوزیشن عوامی نیشنل پارٹی نے حاصل کی ان کے امیدوار اعجاز سیماب 2 ہزار 481ووٹ سمیٹ سکے ۔
اس نتیجے سے جو باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں اس کا ادراک سبھی جماعتوں کو ہے اول تو یہ کہ عمران خان کے پشاور میں جلسے اور ان کی جانب سے جے یو آئی کے قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کو اچھا نہیں سمجھا گیا ۔انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی تک خود کو محدود رکھتے اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو کرتے ۔یہاںخیبرپختون خوا میں لیڈر بھلے بہت برے ہوں مگرصوبے کی سیاست میں ان کی پگڑیاں اچھالنے والوں کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا،دوئم اس شکست سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آنیوالے دن پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکل ہونگے ۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ترقی کے دعوے اب خود ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے اگرچہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور آیندہ انتخابات میں ترپ کے پتے انھی کے پاس ہون گے مگر شخصیت کے سہارے آگے بڑھنے والی سیاسی جماعت کو بہرطور نقصان پہنچے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نقصان پہنچانے والے بھی خیر سے اپنے ہی ہونگے البتہ پاکستان پیپلز پارٹی شکست کے باوجود دیگر تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے پہلے نمبر پر آگئی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں اس کے امیدوار ملک طماش خان نے8 ہزار324 ووٹ حاصل کیے تھے جن میں ایک ہزار سے زیادہ ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے جس کا کریڈٹ بلاشبہ ملک طماش خان کو ہی جاتا ہے جنہوں نے ہارنے کے باوجود علاقے کے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے ۔
جہاں تک پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار کی جیت کا تعلق ہے تو مسلم لیگ اور اس کے مرکزی قائدین نے روایتوں کے امین شہرپشاور کو جس طرح نظر انداز کر رکھا ہے اور جس طرح کارکنوں کا استحصال کیا جا رہا ہے یہ کامیابی صرف اور صرف ارباب اکبر حیات کے انتقال پر مقامی ووٹرز کی جانب سے اپنی روایات و اقدار کا پاس رکھتے ہوئے محض ہمدردی کا اظہار ہے ۔اس فیصلے کے بعد شنید ہے کہ عمران خان نے صوبائی قیادت پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے۔
اس کمیٹی کی جانب سے شکست کی جو بھی وجوہات سامنے آئیں ان سے قطع نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی کے 8 میں" پی کے "کے ہوتے ہوئے "آئی کے "کی شکست بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکا ہے جس کے اثرات مزید پھیلیں گے اور شاید اب پاکستان تحریک انصاف کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑے کیونکہ مجموعی پول ہونیوالے ووٹوں کی کل تعداد 46 ہزار129 رہی جس میں تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ نکال دیے جائیں تو 36 ہزار782 ووٹ حکمران جماعت کے خلاف پڑے ہیں اس سے پشاور سمیت سارے صوبے میں آیندہ انتخابات کے نتائج کی پیشگی جھلک کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔