فقط ہم ہی تو شاعر ہیں
ابا آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جب کوئی مہمان آئے تو ان کے سامنے یہی کہنا انکل 10 روپے دے دینگے۔
ہم ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر ہیں، ہمارا اردو ادب میں بہت ہی نمایاں مقام ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ہماری نشست کے ساتھ اس دہشت گرد شاعر کو جگہ دینے کا ارادہ کئے بیٹھے ہیں۔ یہ سرِعام دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے کہ موصوف نے ہماری شاعری پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے اسے اپنے نام سے شائع کروالیا اور آج ادبی محافل پر وہی گھسے پٹے اشعار پڑھ کر صف اول کا شاعر بنا بیٹھا ہے۔
میاں ہم اسے قانون سے سزا دلوا کر ہی رہیں گے۔ اس کمبخت کی وجہ سے ہمارے اتنے برس ضائع ہوگئے ورنہ کشف و آگاہی کے ہم اُس مقام پر تھے کہ کچن میں گئے تو جس برتن پر نگاہ ڈالی اشعار کی آمد شروع، باتھ روم کیا، ڈرائنگ روم کیا، کوئی بھی لمحہ ایسا نہ گزرتا تھا جب شاعری ہم پر نہ اتر رہی ہوتی۔ اب تو لوٹا گھماتے گھماتے ہی گھنٹوں گزر جاتے ہیں تب کہیں جاکر خیال اترتا ہے۔ پھر الفاظ بنتے ہیں اور تب کہیں جا کر کلام مکمل ہوتا ہے۔ ویسے چند سال قبل ہم نے سینہ زوری کرکے چوری کی رپٹ درج کروائی تھی۔ اب جو نئے تھانیدار صاحب آئے ہیں انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ سحر اب قریب ہی ہے جس کے سورج کی پہلی کرن حوالات کی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس پابند سلاسل دہشت گرد شاعر کو اندھا کردے گی۔
اللہ بھلا کرے اس تھانیدار صاحب کا، جس کی نس نس میں اردو ادب کی خدمت کا جذبہ خون بن کر محو گردش ہے۔ اب تو اعلیٰ حضرت نے ہمیں اپنا استاد بنا لیا ہے۔ جب سے ہماری شاگردی کی چھتری تلے آئے ہیں کیا مجال کہ جو کسی ایک پر بھی چھترول یا مار پیٹ کی ہو، ہر دوسرے دن ہمیں فون کرکے درخواست کرتے ہیں کہ ایک ناہنجار قسم کا چور اچکا لوگوں نے پکڑ کر جمع کروایا ہے، مگر مال برآمدگی سے انکاری ہے۔ استاد محترم آپ کی شاعری روح تو روح پورے جسم کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے، بلکہ یہ تو اسپغول کا سا اثر رکھتی ہے۔ معاشرے کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی گرہیں بھی کھول دیتی ہے۔ اپنے تازہ کلام کے ساتھ تشریف لائیں، آج قانون کی بالادستی کا سوال ہے۔
اتنا کہہ کر اس شاعر نے پھر اس فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک لمبی سی ہوں کے بعد فرمانا شروع کیا اور سارے شعراء کے بخیے ایک ایک کرکے ادھیڑنا شروع کئے۔ ان کے شجرہ نسب کے ساتھ ساتھ ان کی عادات و سکنات کے راز افشاں ہونا شروع ہوئے اور اعلیٰ حضرت نے سارے شعراء کو اپنی فہرست سے خارج کردیا۔ ایک نامی گرامی شاعر، جس کی کچھ کتب بھی چھپ چکی تھیں کے متعلق جاننے کیلئے میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے ایک بار پھر تنک کر کہا، عجیب نادان ہیں آپ، کیا دس پندرہ شاعری کی کتب کے بعد بندہ شاعر بن جاتا ہے؟ آپ نے شعراء کی فہرست میں اسے بھی شامل کر رکھا ہے، حضرت صاحب آپ جیسے لوگوں کی انہی حرکات کی وجہ سے اردو ادب پنپ نہیں رہا۔ میاں شاعر کا تو انگ انگ بولتا ہے، ایک شاعر صرف شاعر ہوتا ہے بس۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ،
آپ جنہیں شاعر کہہ رہے ہیں ان میں سے کوئی اخبار بیچتا ہے، کوئی ورکشاپ چلا رہا ہے، کوئی ہوٹل کھولے بیٹھا ہے، کوئی انڈے بیچ رہا ہے تو کوئی تین چار موٹر سائیکل رکشے کرائے پر دینے کا کام کر رہا ہے۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اعلیٰ حضرت سے کہنے لگا، ''ابا ابا! 10 روپے دو، برف کا گولا کھانا ہے''۔ شاعر نے اسے بھاگنے کا کہا مگر اس معصوم بچے نے جواب دیا کہ ابا آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جب کوئی مہمان آئے تو ان کے سامنے یہی کہنا انکل 10 روپے دے دینگے۔ اس نے یہ کہہ کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا میں نے اپنی جیب سے 20 روپے کا نوٹ نکال کر بچے کو دیا اور کہا کہ جاؤ بیٹا برف کا گولا کھا آؤ۔ شاعر صاحب نے بچے کے ہاتھ سے 20 کا نوٹ چھین لیا اور اپنی جیب سے پانچ پانچ کے دو سکے نکال کر بچے کو دئیے اور بھگا دیا۔ بچہ بھی کافی تجربہ کار تھا اس نے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
میرے سامنے اردو ادب کے ان خدمت گاروں کے روپ اوجھل ہی رہتے، بھلا ہو ضلعی انتظامیہ کا جس نے مجھے ایک ادبی میلے کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی اور یوں شعراء کی فہرست تھامے میں جس بھی شاعر کے پاس گیا اس نے اپنے وجود کے علاوہ سب کی نفی کی اور شجرہ نسب کھول کر رکھ دیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو ادب میں خصوصاً شاعری جو کہ جذبات، ثقافت، تاریخ اور احساسات کی ترجمان ہوتی تھی وہ بعض شعراء کے رویوں کی وجہ سے آج معاشرتی سرگرمیوں سے معدوم ہوتی جارہی ہے اور اگر ایسے میں کوئی ادارہ یا گروہ بیک وقت بہت سے شعراء کو ایک چھت تلے بٹھا کر کامیاب مشاعرہ کروا لیتا ہے تو وہ ایوارڈ کا مستحق ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میاں ہم اسے قانون سے سزا دلوا کر ہی رہیں گے۔ اس کمبخت کی وجہ سے ہمارے اتنے برس ضائع ہوگئے ورنہ کشف و آگاہی کے ہم اُس مقام پر تھے کہ کچن میں گئے تو جس برتن پر نگاہ ڈالی اشعار کی آمد شروع، باتھ روم کیا، ڈرائنگ روم کیا، کوئی بھی لمحہ ایسا نہ گزرتا تھا جب شاعری ہم پر نہ اتر رہی ہوتی۔ اب تو لوٹا گھماتے گھماتے ہی گھنٹوں گزر جاتے ہیں تب کہیں جاکر خیال اترتا ہے۔ پھر الفاظ بنتے ہیں اور تب کہیں جا کر کلام مکمل ہوتا ہے۔ ویسے چند سال قبل ہم نے سینہ زوری کرکے چوری کی رپٹ درج کروائی تھی۔ اب جو نئے تھانیدار صاحب آئے ہیں انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ سحر اب قریب ہی ہے جس کے سورج کی پہلی کرن حوالات کی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس پابند سلاسل دہشت گرد شاعر کو اندھا کردے گی۔
اللہ بھلا کرے اس تھانیدار صاحب کا، جس کی نس نس میں اردو ادب کی خدمت کا جذبہ خون بن کر محو گردش ہے۔ اب تو اعلیٰ حضرت نے ہمیں اپنا استاد بنا لیا ہے۔ جب سے ہماری شاگردی کی چھتری تلے آئے ہیں کیا مجال کہ جو کسی ایک پر بھی چھترول یا مار پیٹ کی ہو، ہر دوسرے دن ہمیں فون کرکے درخواست کرتے ہیں کہ ایک ناہنجار قسم کا چور اچکا لوگوں نے پکڑ کر جمع کروایا ہے، مگر مال برآمدگی سے انکاری ہے۔ استاد محترم آپ کی شاعری روح تو روح پورے جسم کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے، بلکہ یہ تو اسپغول کا سا اثر رکھتی ہے۔ معاشرے کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی گرہیں بھی کھول دیتی ہے۔ اپنے تازہ کلام کے ساتھ تشریف لائیں، آج قانون کی بالادستی کا سوال ہے۔
اتنا کہہ کر اس شاعر نے پھر اس فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک لمبی سی ہوں کے بعد فرمانا شروع کیا اور سارے شعراء کے بخیے ایک ایک کرکے ادھیڑنا شروع کئے۔ ان کے شجرہ نسب کے ساتھ ساتھ ان کی عادات و سکنات کے راز افشاں ہونا شروع ہوئے اور اعلیٰ حضرت نے سارے شعراء کو اپنی فہرست سے خارج کردیا۔ ایک نامی گرامی شاعر، جس کی کچھ کتب بھی چھپ چکی تھیں کے متعلق جاننے کیلئے میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے ایک بار پھر تنک کر کہا، عجیب نادان ہیں آپ، کیا دس پندرہ شاعری کی کتب کے بعد بندہ شاعر بن جاتا ہے؟ آپ نے شعراء کی فہرست میں اسے بھی شامل کر رکھا ہے، حضرت صاحب آپ جیسے لوگوں کی انہی حرکات کی وجہ سے اردو ادب پنپ نہیں رہا۔ میاں شاعر کا تو انگ انگ بولتا ہے، ایک شاعر صرف شاعر ہوتا ہے بس۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ،
شاعری تو اک آگ کا دریا ہے،
اور ڈوب کر جانا ہے
آپ جنہیں شاعر کہہ رہے ہیں ان میں سے کوئی اخبار بیچتا ہے، کوئی ورکشاپ چلا رہا ہے، کوئی ہوٹل کھولے بیٹھا ہے، کوئی انڈے بیچ رہا ہے تو کوئی تین چار موٹر سائیکل رکشے کرائے پر دینے کا کام کر رہا ہے۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ اتنے میں ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اعلیٰ حضرت سے کہنے لگا، ''ابا ابا! 10 روپے دو، برف کا گولا کھانا ہے''۔ شاعر نے اسے بھاگنے کا کہا مگر اس معصوم بچے نے جواب دیا کہ ابا آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جب کوئی مہمان آئے تو ان کے سامنے یہی کہنا انکل 10 روپے دے دینگے۔ اس نے یہ کہہ کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا میں نے اپنی جیب سے 20 روپے کا نوٹ نکال کر بچے کو دیا اور کہا کہ جاؤ بیٹا برف کا گولا کھا آؤ۔ شاعر صاحب نے بچے کے ہاتھ سے 20 کا نوٹ چھین لیا اور اپنی جیب سے پانچ پانچ کے دو سکے نکال کر بچے کو دئیے اور بھگا دیا۔ بچہ بھی کافی تجربہ کار تھا اس نے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
میرے سامنے اردو ادب کے ان خدمت گاروں کے روپ اوجھل ہی رہتے، بھلا ہو ضلعی انتظامیہ کا جس نے مجھے ایک ادبی میلے کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی اور یوں شعراء کی فہرست تھامے میں جس بھی شاعر کے پاس گیا اس نے اپنے وجود کے علاوہ سب کی نفی کی اور شجرہ نسب کھول کر رکھ دیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو ادب میں خصوصاً شاعری جو کہ جذبات، ثقافت، تاریخ اور احساسات کی ترجمان ہوتی تھی وہ بعض شعراء کے رویوں کی وجہ سے آج معاشرتی سرگرمیوں سے معدوم ہوتی جارہی ہے اور اگر ایسے میں کوئی ادارہ یا گروہ بیک وقت بہت سے شعراء کو ایک چھت تلے بٹھا کر کامیاب مشاعرہ کروا لیتا ہے تو وہ ایوارڈ کا مستحق ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔