پاناما لیکس کا معاملہ یوں ہی ختم نہیں ہوسکتا اب دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہونا چاہیے وزیراعظم
اپوزیشن کے ساتھ ٹی او آرز بنانے میں حرج نہیں لیکن سب کو ایک ہی معیار میں تلنا ہوگا، وزیراعظم
RAWALPINDI:
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی درخواست کردی جب کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ماضی میں کڑے اور یکطرفہ احتساب سے گزرے ہیں اور آج بھی کسی بھی احتسابی عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاناما لیکس کے معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے اسپیکر سے درخواست کی کہ وہ اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی مشاورت سے پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو اتفاق رائے سے ٹرم آف ریفرنس اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دے تاکہ بدعنوانی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران کہا کہ پاناما لیکس کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں سے تعلق کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی شخص بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو، اس میں میرے دو بیٹوں کا ذکر بھی آیا جو گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم ہیں اور لاکھوں دیگر پاکستانیوں کی طرح وہاں کے قوانین اور ضابطوں کے تحت کاروبار کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میرے رفقا کی یہ رائے تھی کہ کیونکہ پاناما میں میرا کہیں کوئی ذکر نہیں اس لیے مجھے پہل کرنے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میرا رد عمل یہ تھا کہ اس سے میری ذات کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ میرے خاندان کا ذکر آیا ہے اس لیے یہ مجھے معاملہ بااختیار کمیشن کے سپرد کرنا چاہیے تاکہ وہ سارے معاملات کی چھان بین کرے اور حقائق سامنے لائے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے مطالبے سے پہلے ہی قوم سے خطاب میں کمیشن کے قیام کااعلان کردیا، اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اپنی زندگیاں انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں گزارنے والے جج صاحبان ریٹائر ہونے کے بعد بھی امانت و دیانت کے ساتھ غیر جانبداری اور بے لاگ انصاف کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا افسوس ہوا کہ اس پر ردعمل کے بعد ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ نہایت شہرت یافتہ جج صاحبان کے لیے بھی کمیشن کی سربراہی کرنا مشکل ہوگیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی کمیٹی کی تجویز سامنے آئی اور اس پر بھی حکومت نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا لیکن ہمارے رابطوں کے باوجود کمیٹی پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، پھر کہا گیا کہ ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی جائے جس اپوزیشن سے اپنے اعتماد کے افسران کو نامزد کرنے کا کہا لیکن اس کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پھر واحد مطالبہ آیا کہ صرف سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن کو ہی قبول کیا جائے گا جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کریں گے، میں نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب کے دوران یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، مجھے یقین تھا کہ اپنا واحد مطالبہ تسلیم ہونے کے بعد اپوزیشن مطمئن ہوجائے گی اور تحقیقات کا انتظار کرے گی لیکن ٹی اوآرز کو بھی متنازع بنادیا گیا ، ہمارے جامع ٹی او آرز کی جگہ 15 ٹی او آرز پیش کیے گئے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اس پر شاید ہی کسی سنجیدہ پاکستانی کو شک ہو کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کسی بدعنوانی کے خاتمے کی بجائے ایک فرد کے گرد گھومتے ہیں اور وہ شخص میں ہوں، ٹی او آرز میں کہا گیا کہ جہاں جہاں وزیراعظم کا لفظ آئے گا اس کے معنی صرف نوازشریف لیے جائیں گے، ان ٹی او آز کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس شخص کا پاناما میں ذکر تک نہیں اس پر کمیشن کے قیام اورتحقیقات کے آغاز سے پہلے ہی فرد جرم عائد کردی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت اس معاملے کی بلا تاخیر فوری اور جامع تحقیقات چاہتی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ملک کسی کشمکش کا یرغمال بنے اور ہم پھر دنیا کے سامنے تماشہ بنیں، ایسے معاملات میں تاخیر ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے، ہم اس معاملے کی نیک نیتی سے چھان بین چاہتے ہیں، پورے دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کسی مسئلے کو کسی بات کو انا کا مسئلہ بنانا نہیں چاہتے، ہم ملکی انا کا پرچم بلند رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا دامن صاف ہے، ہمیں کسی آئینی و قانونی استثناء کی ضرورت نہیں، ماضی میں کئی بار کڑے اور یکطرفہ احتساب سے گزرے ہیں اور آج بھی احتسابی عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بدعنوانی، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے، ٹیکس چوری، کک بیگز لینے، پیسہ غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے اور قرضے معاف کروانے والوں کی اصل کہانی بھی قوم کے سامنے آجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے دل میں پارلیمنٹ کی بہت عزت ہے، یہ ایوان قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی علامت ہے، اس ایوان کا نمائندہ ہونا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میری ایوان سے گزارش ہے کہ ایوان احتساب کے بے لاگ نظام پر غور کرے اور ایسا احتسابی نظام وضع کرے جو پگڑی اچھالنے کا سلسلہ بند کرائے اور اس نظام پر پوری قوم کو اعتماد ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی تحقیق کے بغیر الزام لگانے سے صرف سیاست دان ہی بدنام نہیں ہوتے بلکہ سیاست بھی بے وقار ہوجاتی ہے اور اگر سیاست بے وقار ہوجائے تو جمہوریت بھی بے توقیر ہوجاتی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ میں ایوان میں وضاحت دوں لیکن یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے ایسے ختم ہونا چاہیے، بات نکل ہی گئی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس چھپانے کے لیے پہلے کچھ تھا اور نہ آج ہے، میری زندگی میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہے، میرا خاندان واحد خاندان ہے جس نے سیاست میں کچھ بنایا اور نہ کمایا، البتہ گنوایا ضرور ہے جب کہ میں کاروبار سے سیاست میں داخل ہوا۔ ان کا کہنا تھا کیچڑ اچھالنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب بہت سے ٹرسٹ کو مفت زمینیں، مالی گرانٹس اور مشینری کی درآمد میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہوگی لیکن ہمارے خاندان کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی اداروں کے لیے ایک انچ سرکاری زمین دی گئی نہ کوئی گرانٹ دی گئی، کیا کرپشن کرنے والوں کا طرزعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کاروبار میں قبضہ، چوری، کک بیگس وغیرہ شامل نہیں اور ہم نے کسی بھی کاروبار کے لیے حاصل کی گئی قرضے کی پائی پائی ادا کی ہے جب کہ ہمارے خاندان کا آغاز آج سے 80 برس قبل اتفاق فاونڈری سے ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ کارباور نے ترقی کی، 1970 تک یہ سب سے بڑی صنعت بن گئی اور پھر حکومت نے اسے قبضے میں لے لیا جس کا ہمیں ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا جب کہ اس سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں تھی لیکن حکومتی قبضے کے بعد اسے خسارے کا سامنا تھا تاہم میرے والد نے اس کمپنی کو پھر سے کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہم پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے ہیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے خاندان کے صنعتی اور کاروباری اداروں نے گزشتہ 23 سال کے دوران تقریباً 10 ارب روپے ٹیکس اور حکومتی محصولات کی مد میں ادا کیے جب کہ اس کی پوری تفصیل ایف بی آر کے ریکارڈ میں شامل ہے اور میرے ذاتی ٹیکس کے حوالے سے بھی بے بنیاد کہانیاں تراشی گئی لیکن میں بھی ذاتی طور پر 3 کروڑ 60 لاکھ ٹیکس ادا کرچکا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے، عالی شان گاڑیوں میں پھرنے والے اور بغیر کسی کمائی کے دنیا کی سیروتفریح کرنے والے بھی ایوان کو بتائیں کہ ان کے سفر کا آغاز کیسے ہوا، وہ 70 اور 80 کی دہائی میں کہاں کھڑے تھے اور آج ان کے آمدن کے ذرائع کیا ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ 1972 میں میرے والد نے دیگر پاکستانیوں کی طرح ملک سے باہر انڈسٹری لگانے کا فیصلہ کیا اور دبئی میں گلف اسٹیل کے نام سے فیکٹری بنائی جس کا افتتاح اس وقت کے دبئی کے حکمران نے کیا، یہ فیکٹری 1980 میں 9 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی اور اس وقت میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1999 میں والد کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا جب ہمارے گھروں پر قبضہ کیا گیا اور ہمیں ملک بدر کردیا گیا، ہمارا یک طرفہ احتساب کیا گیا، ہمارے خلاف طیارہ اغوا کے مضحکہ خیز ڈرامے کو ترتیب دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جلا وطنی کے بعد میرے والد نے دبئی فیکٹری بیچ کر جدہ میں فیکٹری بنائی، جون 2005 میں 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی جن کے تمام ثبوت موجود ہیں اور انہی سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے جب کہ پاکستان سے ان کے لیے ایک روپیہ بھی باہر نہیں گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن کے قیام کے بارے میں چیف جسٹس کا خط ہمیں موصول ہوگیا ہے اور ہمارے قانونی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں، چیف جسٹس کے خط کی روشنی میں ہمیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر دائرہ اختیار بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن سب کو ایک ہی معیار میں تلنا ہوگا، اس کے الگ الگ معیار نہیں ہوسکتے، خدا خدا کرکے ہمارے شہروں کا امن واپس آرہا ہے، قومی سطح پر ہمارے وقار میں اضافہ ہوا اور ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ آج کا پاکستان 3 سال قبل کے پاکستان سے زیادہ روشن ، توانا اور مستحکم ہے اور میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ 2018 کا پاکستان اس سے بھی زیادہ مستحکم ہوگا۔
پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مختصر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے 7 معصومانہ سوالات کئے گئے اور ان سوالات کی ہی وضاحت چاہتے تھے لیکن وزیراعظم نے 7 سوالات کو 70 تک بڑھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے پاناما کا ہی پوچھا تھا لیکن یہاں تو جدہ اور دبئی بھی آگیا اور اپوزیشن کا سوال وہیں ہے کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے۔
وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر قومی اسمبلی میں دیئے گئے جواب کو اپوزیشن نے مسترد کردیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے طویل تقریر کرنے کے بجائے وزیراعظم کے جواب پر تحفظات کا اظہار کیا اور مختصر تقریر کی جس کے بعد ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
خورشید شاہ کےبعد قومی اسمبلی کے اسپیکر نے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کو اظہار خیال کرنے کا موقع دیا تاہم متحدہ اپوزیشن کے واک آؤٹ پر عمران خان بھی بغیر کچھ کہے ایوان سے باہر چلے گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے حکومت اور وزیراعظم کو موقع دیا لیکن جو آج وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کیا اور وضاحت دینے کی کوشش کی اس میں انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے خود بہت انکشاف کیے جس کا ذکر افسانے میں شاید نہیں تھا، جس کا ذکر ہمارے سوالات میں بھی نہیں تھا، وزیراعظم نے ان کا ذکر بھی کردیا، مگر ہمارے سوالات کا جواب کہیں پر بھی نظر نہیں آیا اور نہ ہی ان کے پاس شاید اس کا جواب تھا، ان کی وضاحتوں سے ہمارے لیے 7 سے 70 سوال اور بن گئے ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے وضاحتیں مختلف بیانت پر مانگیں لیکن جو وضاحت ناما نوازشریف نے پیش کیا اس میں کہیں بھی ہمارے سوالات کا ذکر نہیں آیا جس پر ہم نے محسوس کیا کہ مزید بیٹھ کر تقریریں کرنے سے یا ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے ہم عوام میں واپس جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا خطاب پوری قوم نے دیکھا ہوگا اور عوام ہی آج سب سے بڑے جج ہیں وہ خود فیصلہ کریں کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ میں جو بیٹھے ہیں ان لوگوں نے اپنی حکومتوں کے درمیان کیا کچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ صبح 10 بجے متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوگا اور اس میں اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی درخواست کردی جب کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ماضی میں کڑے اور یکطرفہ احتساب سے گزرے ہیں اور آج بھی کسی بھی احتسابی عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاناما لیکس کے معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے اسپیکر سے درخواست کی کہ وہ اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی مشاورت سے پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو اتفاق رائے سے ٹرم آف ریفرنس اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دے تاکہ بدعنوانی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران کہا کہ پاناما لیکس کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں سے تعلق کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی شخص بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو، اس میں میرے دو بیٹوں کا ذکر بھی آیا جو گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم ہیں اور لاکھوں دیگر پاکستانیوں کی طرح وہاں کے قوانین اور ضابطوں کے تحت کاروبار کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میرے رفقا کی یہ رائے تھی کہ کیونکہ پاناما میں میرا کہیں کوئی ذکر نہیں اس لیے مجھے پہل کرنے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن میرا رد عمل یہ تھا کہ اس سے میری ذات کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ میرے خاندان کا ذکر آیا ہے اس لیے یہ مجھے معاملہ بااختیار کمیشن کے سپرد کرنا چاہیے تاکہ وہ سارے معاملات کی چھان بین کرے اور حقائق سامنے لائے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے مطالبے سے پہلے ہی قوم سے خطاب میں کمیشن کے قیام کااعلان کردیا، اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اپنی زندگیاں انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں گزارنے والے جج صاحبان ریٹائر ہونے کے بعد بھی امانت و دیانت کے ساتھ غیر جانبداری اور بے لاگ انصاف کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا افسوس ہوا کہ اس پر ردعمل کے بعد ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ نہایت شہرت یافتہ جج صاحبان کے لیے بھی کمیشن کی سربراہی کرنا مشکل ہوگیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی کمیٹی کی تجویز سامنے آئی اور اس پر بھی حکومت نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا لیکن ہمارے رابطوں کے باوجود کمیٹی پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، پھر کہا گیا کہ ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی جائے جس اپوزیشن سے اپنے اعتماد کے افسران کو نامزد کرنے کا کہا لیکن اس کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پھر واحد مطالبہ آیا کہ صرف سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن کو ہی قبول کیا جائے گا جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کریں گے، میں نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب کے دوران یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، مجھے یقین تھا کہ اپنا واحد مطالبہ تسلیم ہونے کے بعد اپوزیشن مطمئن ہوجائے گی اور تحقیقات کا انتظار کرے گی لیکن ٹی اوآرز کو بھی متنازع بنادیا گیا ، ہمارے جامع ٹی او آرز کی جگہ 15 ٹی او آرز پیش کیے گئے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اس پر شاید ہی کسی سنجیدہ پاکستانی کو شک ہو کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کسی بدعنوانی کے خاتمے کی بجائے ایک فرد کے گرد گھومتے ہیں اور وہ شخص میں ہوں، ٹی او آرز میں کہا گیا کہ جہاں جہاں وزیراعظم کا لفظ آئے گا اس کے معنی صرف نوازشریف لیے جائیں گے، ان ٹی او آز کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس شخص کا پاناما میں ذکر تک نہیں اس پر کمیشن کے قیام اورتحقیقات کے آغاز سے پہلے ہی فرد جرم عائد کردی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت اس معاملے کی بلا تاخیر فوری اور جامع تحقیقات چاہتی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ملک کسی کشمکش کا یرغمال بنے اور ہم پھر دنیا کے سامنے تماشہ بنیں، ایسے معاملات میں تاخیر ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے، ہم اس معاملے کی نیک نیتی سے چھان بین چاہتے ہیں، پورے دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کسی مسئلے کو کسی بات کو انا کا مسئلہ بنانا نہیں چاہتے، ہم ملکی انا کا پرچم بلند رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا دامن صاف ہے، ہمیں کسی آئینی و قانونی استثناء کی ضرورت نہیں، ماضی میں کئی بار کڑے اور یکطرفہ احتساب سے گزرے ہیں اور آج بھی احتسابی عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بدعنوانی، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے، ٹیکس چوری، کک بیگز لینے، پیسہ غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے اور قرضے معاف کروانے والوں کی اصل کہانی بھی قوم کے سامنے آجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے دل میں پارلیمنٹ کی بہت عزت ہے، یہ ایوان قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی علامت ہے، اس ایوان کا نمائندہ ہونا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میری ایوان سے گزارش ہے کہ ایوان احتساب کے بے لاگ نظام پر غور کرے اور ایسا احتسابی نظام وضع کرے جو پگڑی اچھالنے کا سلسلہ بند کرائے اور اس نظام پر پوری قوم کو اعتماد ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی تحقیق کے بغیر الزام لگانے سے صرف سیاست دان ہی بدنام نہیں ہوتے بلکہ سیاست بھی بے وقار ہوجاتی ہے اور اگر سیاست بے وقار ہوجائے تو جمہوریت بھی بے توقیر ہوجاتی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ میں ایوان میں وضاحت دوں لیکن یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے ایسے ختم ہونا چاہیے، بات نکل ہی گئی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس چھپانے کے لیے پہلے کچھ تھا اور نہ آج ہے، میری زندگی میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہے، میرا خاندان واحد خاندان ہے جس نے سیاست میں کچھ بنایا اور نہ کمایا، البتہ گنوایا ضرور ہے جب کہ میں کاروبار سے سیاست میں داخل ہوا۔ ان کا کہنا تھا کیچڑ اچھالنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب بہت سے ٹرسٹ کو مفت زمینیں، مالی گرانٹس اور مشینری کی درآمد میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہوگی لیکن ہمارے خاندان کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی اداروں کے لیے ایک انچ سرکاری زمین دی گئی نہ کوئی گرانٹ دی گئی، کیا کرپشن کرنے والوں کا طرزعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کاروبار میں قبضہ، چوری، کک بیگس وغیرہ شامل نہیں اور ہم نے کسی بھی کاروبار کے لیے حاصل کی گئی قرضے کی پائی پائی ادا کی ہے جب کہ ہمارے خاندان کا آغاز آج سے 80 برس قبل اتفاق فاونڈری سے ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ کارباور نے ترقی کی، 1970 تک یہ سب سے بڑی صنعت بن گئی اور پھر حکومت نے اسے قبضے میں لے لیا جس کا ہمیں ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا جب کہ اس سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں تھی لیکن حکومتی قبضے کے بعد اسے خسارے کا سامنا تھا تاہم میرے والد نے اس کمپنی کو پھر سے کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہم پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے ہیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے خاندان کے صنعتی اور کاروباری اداروں نے گزشتہ 23 سال کے دوران تقریباً 10 ارب روپے ٹیکس اور حکومتی محصولات کی مد میں ادا کیے جب کہ اس کی پوری تفصیل ایف بی آر کے ریکارڈ میں شامل ہے اور میرے ذاتی ٹیکس کے حوالے سے بھی بے بنیاد کہانیاں تراشی گئی لیکن میں بھی ذاتی طور پر 3 کروڑ 60 لاکھ ٹیکس ادا کرچکا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے، عالی شان گاڑیوں میں پھرنے والے اور بغیر کسی کمائی کے دنیا کی سیروتفریح کرنے والے بھی ایوان کو بتائیں کہ ان کے سفر کا آغاز کیسے ہوا، وہ 70 اور 80 کی دہائی میں کہاں کھڑے تھے اور آج ان کے آمدن کے ذرائع کیا ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ 1972 میں میرے والد نے دیگر پاکستانیوں کی طرح ملک سے باہر انڈسٹری لگانے کا فیصلہ کیا اور دبئی میں گلف اسٹیل کے نام سے فیکٹری بنائی جس کا افتتاح اس وقت کے دبئی کے حکمران نے کیا، یہ فیکٹری 1980 میں 9 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی اور اس وقت میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1999 میں والد کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا جب ہمارے گھروں پر قبضہ کیا گیا اور ہمیں ملک بدر کردیا گیا، ہمارا یک طرفہ احتساب کیا گیا، ہمارے خلاف طیارہ اغوا کے مضحکہ خیز ڈرامے کو ترتیب دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جلا وطنی کے بعد میرے والد نے دبئی فیکٹری بیچ کر جدہ میں فیکٹری بنائی، جون 2005 میں 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی جن کے تمام ثبوت موجود ہیں اور انہی سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے جب کہ پاکستان سے ان کے لیے ایک روپیہ بھی باہر نہیں گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن کے قیام کے بارے میں چیف جسٹس کا خط ہمیں موصول ہوگیا ہے اور ہمارے قانونی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں، چیف جسٹس کے خط کی روشنی میں ہمیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر دائرہ اختیار بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن سب کو ایک ہی معیار میں تلنا ہوگا، اس کے الگ الگ معیار نہیں ہوسکتے، خدا خدا کرکے ہمارے شہروں کا امن واپس آرہا ہے، قومی سطح پر ہمارے وقار میں اضافہ ہوا اور ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ آج کا پاکستان 3 سال قبل کے پاکستان سے زیادہ روشن ، توانا اور مستحکم ہے اور میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ 2018 کا پاکستان اس سے بھی زیادہ مستحکم ہوگا۔
پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مختصر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے 7 معصومانہ سوالات کئے گئے اور ان سوالات کی ہی وضاحت چاہتے تھے لیکن وزیراعظم نے 7 سوالات کو 70 تک بڑھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے پاناما کا ہی پوچھا تھا لیکن یہاں تو جدہ اور دبئی بھی آگیا اور اپوزیشن کا سوال وہیں ہے کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے۔
وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر قومی اسمبلی میں دیئے گئے جواب کو اپوزیشن نے مسترد کردیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے طویل تقریر کرنے کے بجائے وزیراعظم کے جواب پر تحفظات کا اظہار کیا اور مختصر تقریر کی جس کے بعد ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
خورشید شاہ کےبعد قومی اسمبلی کے اسپیکر نے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کو اظہار خیال کرنے کا موقع دیا تاہم متحدہ اپوزیشن کے واک آؤٹ پر عمران خان بھی بغیر کچھ کہے ایوان سے باہر چلے گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے حکومت اور وزیراعظم کو موقع دیا لیکن جو آج وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کیا اور وضاحت دینے کی کوشش کی اس میں انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے خود بہت انکشاف کیے جس کا ذکر افسانے میں شاید نہیں تھا، جس کا ذکر ہمارے سوالات میں بھی نہیں تھا، وزیراعظم نے ان کا ذکر بھی کردیا، مگر ہمارے سوالات کا جواب کہیں پر بھی نظر نہیں آیا اور نہ ہی ان کے پاس شاید اس کا جواب تھا، ان کی وضاحتوں سے ہمارے لیے 7 سے 70 سوال اور بن گئے ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے وضاحتیں مختلف بیانت پر مانگیں لیکن جو وضاحت ناما نوازشریف نے پیش کیا اس میں کہیں بھی ہمارے سوالات کا ذکر نہیں آیا جس پر ہم نے محسوس کیا کہ مزید بیٹھ کر تقریریں کرنے سے یا ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے ہم عوام میں واپس جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا خطاب پوری قوم نے دیکھا ہوگا اور عوام ہی آج سب سے بڑے جج ہیں وہ خود فیصلہ کریں کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ میں جو بیٹھے ہیں ان لوگوں نے اپنی حکومتوں کے درمیان کیا کچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ صبح 10 بجے متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوگا اور اس میں اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔