جعلی دوائوں نے رواں سال 100پاکستانیوں کی جان لے لی عالمی ادارہ صحت
دنیا میں جنسی ادویات کی نقل سب سے زیادہ تیارہوتی ہیں،40 ہزار سے زائد دل کے مریضوں کونقلی ادویہ دی گئی.
پاکستان میں10فیصد دوائیں جعلی فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
جعلی ادویات کی وجہ سے رواں سال میں پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زائد رپورٹ ہوئی ہے، بھارت اور چین میں تیار ہونے والی جعلی دوائیںمنظم اندازمیںپاکستان کی مارکیٹوں میںبھیجی جارہی ہیں، ملیریا کی ایک تہائی دوائیں نقلی ہیں دنیا بھر میں جعلی ادویات کے کاروبار میں 700 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، اس وقت دنیامیں سب سے زیادہ جنسی ادویات کی نقل تیارکی جاتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اوریورپی یونین میڈیسن کی رپورٹ کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 فیصد سے زائد جعلی ادویات تیارکرکے پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں ، پاکستانی سرحدوں پر اسمگل ہونے والی اشیا میں بڑی مقدار جعلی ادویات کی ہوتی ہے،زیادہ تر جعلی اور نقلی ادویات بھارت اور چین میں تیار کی جار ہی ہیں ،عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق2010-11 کے دوران قبضے میں لی گئی جعلی ادویات میں 700 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ خاص جرائم پیشہ گروہ یا اوسطاً درجے کی لیبارٹریوںکی ناقص پیداوارکی وجہ سے ایک منافع بخش کاروبارکی شکل اختیارکرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے خطرناک نتائج پاکستان اور چین میں دیکھنے میں آئے رپورٹ کے مطابق رواں برس ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں 100 سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ40 ہزار سے زائد دل کے مریضوں کونقلی ادویات دی گئیں،تحقیقاتی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ملیریاکی ایک تہائی ادویات جعلی ہیں،اس گھمبیر صور تحال کے باوجود عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کئی ممالک میں ادویات سے متعلق کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اورنہ قوانین بنائے جارہے ہیں۔
جعلی ادویات کی وجہ سے رواں سال میں پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زائد رپورٹ ہوئی ہے، بھارت اور چین میں تیار ہونے والی جعلی دوائیںمنظم اندازمیںپاکستان کی مارکیٹوں میںبھیجی جارہی ہیں، ملیریا کی ایک تہائی دوائیں نقلی ہیں دنیا بھر میں جعلی ادویات کے کاروبار میں 700 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، اس وقت دنیامیں سب سے زیادہ جنسی ادویات کی نقل تیارکی جاتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اوریورپی یونین میڈیسن کی رپورٹ کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 فیصد سے زائد جعلی ادویات تیارکرکے پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں ، پاکستانی سرحدوں پر اسمگل ہونے والی اشیا میں بڑی مقدار جعلی ادویات کی ہوتی ہے،زیادہ تر جعلی اور نقلی ادویات بھارت اور چین میں تیار کی جار ہی ہیں ،عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق2010-11 کے دوران قبضے میں لی گئی جعلی ادویات میں 700 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ خاص جرائم پیشہ گروہ یا اوسطاً درجے کی لیبارٹریوںکی ناقص پیداوارکی وجہ سے ایک منافع بخش کاروبارکی شکل اختیارکرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے خطرناک نتائج پاکستان اور چین میں دیکھنے میں آئے رپورٹ کے مطابق رواں برس ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں 100 سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ40 ہزار سے زائد دل کے مریضوں کونقلی ادویات دی گئیں،تحقیقاتی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ملیریاکی ایک تہائی ادویات جعلی ہیں،اس گھمبیر صور تحال کے باوجود عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کئی ممالک میں ادویات سے متعلق کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اورنہ قوانین بنائے جارہے ہیں۔