سماجی و معاشی حالات میں بہتری کی ضرورت
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں غربت کو 302 سے بڑا جُرم قرار دیکر...
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اپنے اندر بہت گہرائی اور معنویت لیے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں غریب ہونا 302 سے بڑا جُرم ہے اور غریب ہو کر بولنا اس سے بھی بڑا جُرم۔
حقیقت یہ ہے کہ ان ریمارکس کے ذریعے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ یہاں مالی اور معاشی اونچ نیچ بدرجہ اتم موجود ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے انصاف کا حصول بھی ممکن نہیں رہا۔
سماج کی معاشی درجہ بندیوں پر نظر رکھنے والے یہ بات تسلیم کریں گے کہ چند دہائیاں پہلے تک بھی ہمارا معاشرہ آج کی طرح ہی تین حصوں یا درجوں میں منقسم تھا یعنی متمول' متوسط اور غریب طبقہ تاہم اس وقت متوسط طبقہ سب سے بڑا اور متمول اور غریب حصہ محدود تھا' یہی وجہ تھی کہ لوگ کم آمدنی میں بھی بخوشی اور بآسانی گزارہ کر لیتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس تناسب میں تبدیلی آئی اور ایک جانب متوسط طبقہ سکڑتا گیا تو دوسری جانب امیر طبقے کا حجم بڑھتا گیا اور ساتھ ہی غربت کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا چنانچہ آج یہ طبقہ ملک کی کل آبادی کے تقریباً چالیس فیصد پر محیط ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی چالیس فیصد آبادی نہ صرف زندگی کی بنیادی سہولتوں اور انصاف کے حصول سے محروم ہے بلکہ دولت کی یہ غیرمنصفانہ تقسیم طبقاتی کشمکش میں شدت پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ دولت اور وسائل کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کی سب سے بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی کرپشن ہے جس کے سدباب پر ہمارے حکمرانوں کی کوئی توجہ نہیں بلکہ ہماری حکومتیں اور حکمران تو الٹا ملک اور قوم کے معاشی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
جس کا اندازہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فراہم کردہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2011-12ء کے دوران 70 فیصد بجٹ خسارہ بینکوں سے قرض لے کر پورا کیا گیا، 505 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے، حکومت نے 1240ارب روپے کے قرضے لے کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوٹ چھاپ کر لیے گئے قرضے افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے پاکستان کی ریٹنگ منفی بی پر برقرار رکھتے ہوئے اور ریٹنگ کے آوٹ لُک کو مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ملک کے مالی و سیاسی مسائل پر ڈھال بنی ہوئی ہیں چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے وافر رقوم نہ بھیجی جاتیں تو حکومت کے اب تک کے مالی اقدامات کے تباہ کُن اثرات سامنے آتے اور مہنگائی جس سطح پر ہے اس سے کہیں زیادہ ہوتی' اگرچہ یہ بھی واضح ہے کہ عوام جن مالی مسائل سے دوچار ہیں ان میں مہنگائی اور افراط زر کی موجودہ صورتحال بھی ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔
جی ڈی پی کی کم شرح' حکومت کا اپنے اخراجات کے لیے قرضوں پر قرضے لینا' امن و امان کی مخدوش صورتحال' توانائی کا بحران' غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی' روزگار کے مواقع کا سکڑنا اور درآمدات و برآمدات میں تسلسل کے ساتھ پایا جانے والا عدم توازن بھی ملک کی اقتصادیات کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے تاہم ملکی معیشت پر جو منفی اثرات کرپشن' بے تحاشا کرنسی نوٹ چھاپنے اور داخلی و غیرملکی قرضے حاصل کرنے کی وجہ سے مرتب ہو رہے ہیں وہ سب سے بڑھ کر ہیں کیونکہ جوں جوں قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے ملکی مالی مسائل کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
قرضوں کے یہ ڈھیر کس قدر بلند ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2011-12 کے دوران اسٹیٹ بینک سے 505ارب روپے کے قرضے لیے جب کہ مالی سال 2010-11 کے دوران حکومت نے صرف 8ارب روپے کے قرضے واپس کیے تھے۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور سماجی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت غیرضروری قرضے لینا بند کرے اور اپنے اخراجات کے پائوں وسائل کی چادر کے اندر رکھے تاکہ ملک کا مالی بحران اگر فی الفور حل نہیں ہوتا تو اس کی شدت میں مزید اضافہ بھی نہ ہو۔
ضروری ہے کہ ملک کو ٹھوس اقتصادی بنیاد فراہم کرنے کے اقدامات عمل میں لائے جائیں' درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کیا جائے تاکہ عالمی برادری کے ساتھ ہمارا لین دین ہمارے قومی خزانے پر بوجھ کا باعث نہ بنے۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ جاری لیکن بجلی کی پیداوار بڑھی ہے اور شارٹ فال چند روز پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔ ضروری ہے کہ اگر فوری طور پر بجلی کی پیداوار مزید نہیں بڑھائی جا سکتی تو اس کو اسی سطح پر برقرار رکھا جائے' اس سے بھی معاشی سرگرمیوں میں کچھ اضافہ ممکن ہو سکے گا جو بالآخر ملکی معیشت کے استحکام کا سبب بنیں گی۔
قرضے لے کر گزارہ کرنا کوئی مناسب پالیسی نہیں ہے اس لیے اس روش کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جی ڈی پی کی تین سے چار فیصد شرح لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اسی خطے کے بعض ممالک آٹھ سے دس فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے تاہم اس کے لیے ضروری ہے 'ڈنگ ٹپائو' کے بجائے مستقل پالیسیاں اختیار کی جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان ریمارکس کے ذریعے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ یہاں مالی اور معاشی اونچ نیچ بدرجہ اتم موجود ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے انصاف کا حصول بھی ممکن نہیں رہا۔
سماج کی معاشی درجہ بندیوں پر نظر رکھنے والے یہ بات تسلیم کریں گے کہ چند دہائیاں پہلے تک بھی ہمارا معاشرہ آج کی طرح ہی تین حصوں یا درجوں میں منقسم تھا یعنی متمول' متوسط اور غریب طبقہ تاہم اس وقت متوسط طبقہ سب سے بڑا اور متمول اور غریب حصہ محدود تھا' یہی وجہ تھی کہ لوگ کم آمدنی میں بھی بخوشی اور بآسانی گزارہ کر لیتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس تناسب میں تبدیلی آئی اور ایک جانب متوسط طبقہ سکڑتا گیا تو دوسری جانب امیر طبقے کا حجم بڑھتا گیا اور ساتھ ہی غربت کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا چنانچہ آج یہ طبقہ ملک کی کل آبادی کے تقریباً چالیس فیصد پر محیط ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی چالیس فیصد آبادی نہ صرف زندگی کی بنیادی سہولتوں اور انصاف کے حصول سے محروم ہے بلکہ دولت کی یہ غیرمنصفانہ تقسیم طبقاتی کشمکش میں شدت پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ دولت اور وسائل کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کی سب سے بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی کرپشن ہے جس کے سدباب پر ہمارے حکمرانوں کی کوئی توجہ نہیں بلکہ ہماری حکومتیں اور حکمران تو الٹا ملک اور قوم کے معاشی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
جس کا اندازہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فراہم کردہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2011-12ء کے دوران 70 فیصد بجٹ خسارہ بینکوں سے قرض لے کر پورا کیا گیا، 505 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے، حکومت نے 1240ارب روپے کے قرضے لے کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوٹ چھاپ کر لیے گئے قرضے افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے پاکستان کی ریٹنگ منفی بی پر برقرار رکھتے ہوئے اور ریٹنگ کے آوٹ لُک کو مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ملک کے مالی و سیاسی مسائل پر ڈھال بنی ہوئی ہیں چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے وافر رقوم نہ بھیجی جاتیں تو حکومت کے اب تک کے مالی اقدامات کے تباہ کُن اثرات سامنے آتے اور مہنگائی جس سطح پر ہے اس سے کہیں زیادہ ہوتی' اگرچہ یہ بھی واضح ہے کہ عوام جن مالی مسائل سے دوچار ہیں ان میں مہنگائی اور افراط زر کی موجودہ صورتحال بھی ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔
جی ڈی پی کی کم شرح' حکومت کا اپنے اخراجات کے لیے قرضوں پر قرضے لینا' امن و امان کی مخدوش صورتحال' توانائی کا بحران' غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی' روزگار کے مواقع کا سکڑنا اور درآمدات و برآمدات میں تسلسل کے ساتھ پایا جانے والا عدم توازن بھی ملک کی اقتصادیات کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے تاہم ملکی معیشت پر جو منفی اثرات کرپشن' بے تحاشا کرنسی نوٹ چھاپنے اور داخلی و غیرملکی قرضے حاصل کرنے کی وجہ سے مرتب ہو رہے ہیں وہ سب سے بڑھ کر ہیں کیونکہ جوں جوں قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے ملکی مالی مسائل کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
قرضوں کے یہ ڈھیر کس قدر بلند ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2011-12 کے دوران اسٹیٹ بینک سے 505ارب روپے کے قرضے لیے جب کہ مالی سال 2010-11 کے دوران حکومت نے صرف 8ارب روپے کے قرضے واپس کیے تھے۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور سماجی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت غیرضروری قرضے لینا بند کرے اور اپنے اخراجات کے پائوں وسائل کی چادر کے اندر رکھے تاکہ ملک کا مالی بحران اگر فی الفور حل نہیں ہوتا تو اس کی شدت میں مزید اضافہ بھی نہ ہو۔
ضروری ہے کہ ملک کو ٹھوس اقتصادی بنیاد فراہم کرنے کے اقدامات عمل میں لائے جائیں' درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کیا جائے تاکہ عالمی برادری کے ساتھ ہمارا لین دین ہمارے قومی خزانے پر بوجھ کا باعث نہ بنے۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ جاری لیکن بجلی کی پیداوار بڑھی ہے اور شارٹ فال چند روز پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔ ضروری ہے کہ اگر فوری طور پر بجلی کی پیداوار مزید نہیں بڑھائی جا سکتی تو اس کو اسی سطح پر برقرار رکھا جائے' اس سے بھی معاشی سرگرمیوں میں کچھ اضافہ ممکن ہو سکے گا جو بالآخر ملکی معیشت کے استحکام کا سبب بنیں گی۔
قرضے لے کر گزارہ کرنا کوئی مناسب پالیسی نہیں ہے اس لیے اس روش کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جی ڈی پی کی تین سے چار فیصد شرح لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اسی خطے کے بعض ممالک آٹھ سے دس فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے تاہم اس کے لیے ضروری ہے 'ڈنگ ٹپائو' کے بجائے مستقل پالیسیاں اختیار کی جائیں۔