ٹی اسٹالوزیراعلیٰ اورموٹرسائیکل
شائد اپنی جگہ ،ان کی سوچ درست بھی ہو۔ بھاسکر بالکل عام سی چائے اوردودھ پتی بناتاہے
سڑک کے ساتھ موجود،چھوٹاساٹی اسٹال علی الصبح کھل جاتاہے۔اس کے مالک بھاسکرکے پاس کوئی ملازم نہیں ہے۔ کھوکھاکھول کر باہردوچارعام سی کرسیاں لگادیتا ہے۔ ایک رنگ برنگاپلنگ بھی بچھاتاہے۔گاہکوں میں مزدور، ریڑھی بان،رکشہ ڈرائیوراوراسی سطح کے لوگ موجودہوتے ہیں۔ اس ٹی اسٹال میں کسی قسم کی کوئی خاص بات نہیں ہے۔شہرکے رئیس لوگ شائدیہاں جانااپنی توہین گردانتے ہوں۔
شائد اپنی جگہ ،ان کی سوچ درست بھی ہو۔ بھاسکر بالکل عام سی چائے اوردودھ پتی بناتاہے۔بسکٹ ختم ہوجائیں،توکسی گاہک کوہی کہتاہے کہ ذرا،ساتھ والی دکان سے بسکٹ لے آؤ۔روزانہ ٹھیک چھ بجے،کھوکھے پر،سفید اور کالے بالوں والاایک آدمی،آتاہے۔بھاسکر،اس شخص کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔کوئی دس منٹ کے قریب،حالات حاضرہ اورلطیفوں پربیان بازی ہوتی ہے۔عام سانظرآنے والاآدمی،ہونٹوں سے سُڑک سُڑک آوازنکال کرچائے ختم کرتاہے۔آدھے گھنٹے کے بعد،وہ شخص بھاسکرسے اجازت لے کرپیدل گھرکی طرف روانہ ہوجاتاہے۔یہ سب کچھ، سالہاسال سے ہورہا ہے۔بھاسکرایک عام ساشخص ہے مگردوسراشخص،ہندوستان کی پونڈے چری ریاست کاوزیراعلیٰ رنگے سامی (Rangasamy) ہے۔ 2001ء سے اس ریاست کامسلسل وزیراعلیٰ چلاآرہاہے۔
رنگے سامی حیرت انگیزحدتک سادہ اورصوفی منشی انسان ہے۔کسی ریاکاری اورشعبدہ بازی کے بغیرایک ایساآدمی جسے ملکرآپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس ریاست کاسب سے طاقتوراورمضبوط شخص ہے۔وزیراعلیٰ نظر آنا تو دورکی بات،کسی رکشہ کامعمولی ڈرائیورسامعلوم ہوتا ہے۔ مگر رنگے سامی ایک ایساعظیم انسان ہے،جوخودکوعظیم نہیں گردانتا۔دوسرے لوگ اسے بڑاسمجھ کردل سے عزت کرتے ہیں۔ رنگے سامی اوربھاسکرچالیس سال سے ایک دوسرے کے دوست ہیں۔بے تکلف دوست جن کے تعلق میں کوئی ریاکاری نہیں۔آپ کے ذہن میں ہوگا،کہ صبح کی چائے پینے کے بعدرنگے سامی وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پرجاتاہوگا۔
وہاں محافظ اورپولیس والوں کی قطاریں لگی ہوتی ہونگی۔پھروہ ایک بلٹ پروف گاڑی میںسوارہوکردفترچلاجاتاہوگا۔مگرایساکچھ بھی نہیں ہے۔ صبح کی چائے کے بعدوزیراعلیٰ ،ایک محلہ میں واقع اپنے چھوٹے سے گھرمیں آتاہے۔گھرمیں بھی کوئی ملازم نہیں ہے۔ایک قدیم دیوان پرپڑے ہوئے کپڑوں میں سے کپڑے نکالتا ہے۔انھیں پہن کرموٹرسائیکل پرسوارہوکر شہرکی گلیوں میں گھومناشروع کردیتاہے۔ہرجگہ لوگوں کوروک روک کر پوچھتا ہے کہ انھیں کوئی مسئلہ تونہیں۔کوئی ان کے حقوق توسلب نہیں کررہا۔کوئی اہلکاران سے رشوت تونہیں مانگ رہا۔ کہیں کوئی بابو،ان سے زیادتی تونہیں کررہا۔پرانی سی موٹرسائیکل پرایک ڈیڑھ گھنٹہ،پورے شہرکاچکرلگاکررنگے سامی گھرواپس آتاہے۔ناشتہ خود بناتا ہے اور موٹرسائیکل پر دفترروانہ ہوجاتاہے۔
اس کے ساتھ کوئی محافظ،گن مین یا پروٹوکول نہیں ہوتا۔پندرہ برس پہلے،جب پہلی باروزیراعلیٰ بنا،تو سیکریٹری نے اسے وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہونے کاکہا۔سیکریٹری کامشورہ ٹھیک تھا کیونکہ سرکاری رہائش اسکاسرکاری استحاق تھا۔مگررنگے سامی اپنے ذاتی کردارمیں ایک دیونماانسان ہے۔اس نے سرکاری رہائش گاہ ،سرکاری گاڑی اورمحافظ لینے سے انکارکردیا۔اسکاجواب بہت سادہ اورپرمغزتھا۔"پونڈے چری ایک غریب ریاست ہے۔ اس کے وسائل بہت کم ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں۔ اس غریب ریاست میں غریب آدمیوں کی طرح رہنا چاہتا ہوں۔ ان پربوجھ نہیں بنناچاہتا"۔
رنگے سامی موٹرسائیکل پرجب دفترپہنچتاہے تو درجنوں لوگ انتظارکررہے ہوتے ہیں۔ہرایک سے ملتا ہے۔کسی کی درخواست کواپنے سیکریٹری کے پاس نہیں بھیجتا۔ چارپانچ روپے کی بال پوائنٹ سے درخواستوں پر خود احکامات صادرکرتاہے۔بندوں کے ہجوم سے فارغ ہوکر سرکاری امورنپٹاناشروع کردیتاہے۔چاربجنے کاپتہ ہی نہیں چلتا۔اس کے بعد، گھرکی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی لوگ موجودہوتے ہیں۔معمولی سا کھانا کھاتا ہے۔لوگوں کے مسئلے سنتاہے اوراپنی بساط کے مطابق انھیں حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔شام سات بجے،پھراپنے دفترروانہ ہوجاتا ہے اوررات گئے تک کام کرتا رہتا ہے۔
میں کوئی کہانی یا افسانہ نہیں سنارہا۔یہ آج کی دنیااورآج کے جدیدزمانے میں موجودایک ایساسیاستدان ہے جسکی مثال کم ازکم برصغیر میں توبہت کم ملتی ہے۔پاکستان میں خوردبین لگاکربھی پچھلی چھ دہائیوں میں ایسامقتدرشخص نظر نہیں آتا۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے، دس بارہ برس ریاست میں مختلف محکموں کا وزیر رہا ہے۔اسکاکوئی بینک بیلنس نہیں ہے اوراس کی کوئی آف شور کمپنی بھی نہیں ہے۔ لوگوں کے دلوں پرحکومت کرتا ہے۔ ان کے ذہنوں کوپڑھتاہے اورعام آدمی کے مسائل سمجھ کران کی خدمت کرتاہے۔
اس سے پہلے،کہ اس"پایندہ قوم"کے سیاستدانوں کا ذکرکروں۔اس وزیراعلیٰ کے ڈرائنگ روم کامنظرپیش کرنا چاہتاہوں۔پلاسٹک کی چارپانچ کرسیاں اورصرف ایک تپائی۔پورے ڈرائنگ روم میں کوئی میزنہیں ہے۔بغل والے کمرے میں،سونے کاکمرہ ہے۔وہاں ایک بوسیدہ سا دیوان موجودہے۔کمرے میں کوئی الماری نہیں ہے۔ اس کے سارے کپڑے دیوان پربکھرے رہتے ہیں۔اس میں ایک چادربھی موجودہے۔رات کوچادرنکالتاہے اورکمرے میں بچھادیتاہے۔تیس سال سے زمین پربسترکے بغیر سو رہا ہے۔اس کی خواب گاہ میں کوئی چارپائی یابیڈنہیں ہے۔بال ترشوانے کے لیے،محلہ کے نائی کے پاس خودچلا جاتا ہے۔ سستی سی دکان پرجاکراپنے لیے کپڑے خریدنے لگتا ہے۔ اس کے پاس کوئی غیرملکی قیمتی قمیض،ٹائی یاسوٹ نہیں ہے۔ زیب تن کپڑوں کی قیمت بھی معمولی سی ہوتی ہے۔ دو چار سو روپے یا حد پانچ سوروپے۔
اس درویش وزیراعلیٰ نے پونڈے چری میں جوترقی کروائی ہے،وہ ہمارے تصورسے بھی باہرہے۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے پوری ریاست میں ہزاروں لوگ جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔سب سے پہلے رنگے سامی نے غریب لوگوں کوانتہائی سستے گھربناکردینے شروع کردیے۔آج پوری ریاست میں ایک بھی خاندان جھونپڑی میں نہیں رہتا۔ پونڈے چری میں بارش ہروقت ہوتی رہتی ہے۔اس نے لوگوں میں چھتریاں اوررین کوٹ(Rain Coat) بانٹنے شروع کردیے۔غریب آدمیوں میں مفت سائیکل تقسیم کرنے کی ٹھان لی۔ ریاست میں ایک امتحان شروع کیا، امتحان کانام CENTACہے۔
جوبھی طالبعلم امتحان پاس کرتاہے اورکسی پروفیشنل کالج میں پڑھنا چاہتا ہے، تو ریاست اس کے سارے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے شروع کردیتی ہے۔تعلیم کے متعلق کوئی اخباری مہم شروع کرکے اپنے کارنامے گنوانے کی کوشش نہیں کی۔ تمام اسکولوں میں کاپیاں اورکتابیں مفت مہیا کر ڈالیں۔ اسکول میں بچوں کوصبح گرم دودھ پلایاجاتاہے۔انھیں دوپہر کا کھانا مفت مہیاکیاجاتاہے۔ریاستی وسائل کوبروئے کار لاکررنگے سامی نے غریبوں میں گیس کے سلنڈر اور چولہے مہیاکیے تاکہ خواتین لکڑیاں جلاکرکھانانہ بنائیں۔ اس تدبیرسے جنگلات کے ذخیروں کومحفوظ کرڈالا۔محسوس کیاکہ لوگ عورتوں کوجائیدادمنتقل نہیں کرتے۔قانون بنا دیاکہ جومردبھی اپنی بیوی کوجائیدادمنتقل کریگا،اس پرحکومتی ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔رنگے سامی کاذہن بالکل مختلف طرح سے سوچتا ہے۔ محسوس ہواکہ کئی بیماریاں انسان کواس حالت میں لے آتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔
مہلک بیماریوں میں مبتلاساٹھ برس سے اوپرمرداورخواتین کی فہرست بنوائی۔ان کی معاشی صورتحال کے مطابق انکومفت گندم مہیاکرناشروع کردی۔ غریب آدمیوں کے لیے ریاستی سطح پرمفت دسترخوان شروع کروادیے۔ دستر خوانوں پرتین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔سروے کے مطابق ریاست میں غریب لوگوں کی تعدادکم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ لڑکے اورلڑکیوں کوتعلیم کے بعدنوکریاں ملنی شروع ہوچکی ہیں۔پوری ریاست کی قسمت بدل چکی ہے۔اب اسے کسی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہیں۔کانگریس چھوڑنے کے بعد،اس کی اپنی سیاسی جماعت ہے۔
اب تک وہ ایک بھی الیکشن میں ناکام نہیں ہوا۔لوگ اسے سے محبت نہیں کرتے بلکہ اس کے کام اورسادہ زندگی کی وجہ سے عشق کرتے ہیں۔ اسے ہرشخص مل سکتا ہے۔ مشہور ہے کہ اگراسے رکشہ یونین والے بھی حلف برداری کی تقریب میں بلائیں تو وہ بلاتامل چلاجائے گا۔پوری دنیامیں رنگے سامی کے طرز حکمرانی کوماڈل کے طورپرپیش کیا جاتا ہے اوربین الاقوامی اقتصادی اورفنی اداروں میں اس کی زندگی اور حکومت کونصاب کاحصہ بنادیاگیاہے۔
اب اس پایندہ ملک پرسنجیدہ نظرڈالیے۔رنگے سامی جیساحاکم توخیرخواب میں بھی سوچا نہیں جاسکتا۔ یہاں ساٹھ ستربرس سے حکمران رعونت،تکبراورجاہ وجلال سے حکومت کررہے ہیں۔اکثریت غیرملکی قیمتی ترین سوٹ پہنتے ہیں۔کروڑوں روپے کی سرکاری گاڑیوں اورجہاز استعمال کرتے ہیں۔سرکاری وسائل کمال بے رحمی سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اردگرد، سیکڑوں محافظوں کی درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔عام لوگ ان کی رعایا ہیں،صرف رعایا۔ جنھیں کبھی نعروں سے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی قصے کہانیوں اوربھول بھلیوں میں محوکردیتے ہیں۔
کھوکھلی باتیں،غیرموجود ترقی کے قیمتی فارمولوں سے قوم تقریباًجاں بلب ہوچکی ہے۔مگرانھیں حکومت کرنے کے لیے صرف اورصرف شناختی کارڈچاہیں جن سے ووٹوں کے ڈبے بھرے جاسکیں۔قوم زندہ رہے یانیم زندہ،کسی کوکوئی فکر نہیں۔ہرایک ڈگڈگی بجاکرتماشہ دکھا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ لوگ تماشے کوحقیقت سمجھ رہے ہیں۔اس بنجرزمین میں کبھی بھی کوئی رنگے سامی جیساآدمی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حکومت میں آناتوخیردورکی بات،وہ یہاں سانس تک نہیں لے سکتا!
شائد اپنی جگہ ،ان کی سوچ درست بھی ہو۔ بھاسکر بالکل عام سی چائے اوردودھ پتی بناتاہے۔بسکٹ ختم ہوجائیں،توکسی گاہک کوہی کہتاہے کہ ذرا،ساتھ والی دکان سے بسکٹ لے آؤ۔روزانہ ٹھیک چھ بجے،کھوکھے پر،سفید اور کالے بالوں والاایک آدمی،آتاہے۔بھاسکر،اس شخص کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔کوئی دس منٹ کے قریب،حالات حاضرہ اورلطیفوں پربیان بازی ہوتی ہے۔عام سانظرآنے والاآدمی،ہونٹوں سے سُڑک سُڑک آوازنکال کرچائے ختم کرتاہے۔آدھے گھنٹے کے بعد،وہ شخص بھاسکرسے اجازت لے کرپیدل گھرکی طرف روانہ ہوجاتاہے۔یہ سب کچھ، سالہاسال سے ہورہا ہے۔بھاسکرایک عام ساشخص ہے مگردوسراشخص،ہندوستان کی پونڈے چری ریاست کاوزیراعلیٰ رنگے سامی (Rangasamy) ہے۔ 2001ء سے اس ریاست کامسلسل وزیراعلیٰ چلاآرہاہے۔
رنگے سامی حیرت انگیزحدتک سادہ اورصوفی منشی انسان ہے۔کسی ریاکاری اورشعبدہ بازی کے بغیرایک ایساآدمی جسے ملکرآپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس ریاست کاسب سے طاقتوراورمضبوط شخص ہے۔وزیراعلیٰ نظر آنا تو دورکی بات،کسی رکشہ کامعمولی ڈرائیورسامعلوم ہوتا ہے۔ مگر رنگے سامی ایک ایساعظیم انسان ہے،جوخودکوعظیم نہیں گردانتا۔دوسرے لوگ اسے بڑاسمجھ کردل سے عزت کرتے ہیں۔ رنگے سامی اوربھاسکرچالیس سال سے ایک دوسرے کے دوست ہیں۔بے تکلف دوست جن کے تعلق میں کوئی ریاکاری نہیں۔آپ کے ذہن میں ہوگا،کہ صبح کی چائے پینے کے بعدرنگے سامی وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پرجاتاہوگا۔
وہاں محافظ اورپولیس والوں کی قطاریں لگی ہوتی ہونگی۔پھروہ ایک بلٹ پروف گاڑی میںسوارہوکردفترچلاجاتاہوگا۔مگرایساکچھ بھی نہیں ہے۔ صبح کی چائے کے بعدوزیراعلیٰ ،ایک محلہ میں واقع اپنے چھوٹے سے گھرمیں آتاہے۔گھرمیں بھی کوئی ملازم نہیں ہے۔ایک قدیم دیوان پرپڑے ہوئے کپڑوں میں سے کپڑے نکالتا ہے۔انھیں پہن کرموٹرسائیکل پرسوارہوکر شہرکی گلیوں میں گھومناشروع کردیتاہے۔ہرجگہ لوگوں کوروک روک کر پوچھتا ہے کہ انھیں کوئی مسئلہ تونہیں۔کوئی ان کے حقوق توسلب نہیں کررہا۔کوئی اہلکاران سے رشوت تونہیں مانگ رہا۔ کہیں کوئی بابو،ان سے زیادتی تونہیں کررہا۔پرانی سی موٹرسائیکل پرایک ڈیڑھ گھنٹہ،پورے شہرکاچکرلگاکررنگے سامی گھرواپس آتاہے۔ناشتہ خود بناتا ہے اور موٹرسائیکل پر دفترروانہ ہوجاتاہے۔
اس کے ساتھ کوئی محافظ،گن مین یا پروٹوکول نہیں ہوتا۔پندرہ برس پہلے،جب پہلی باروزیراعلیٰ بنا،تو سیکریٹری نے اسے وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہونے کاکہا۔سیکریٹری کامشورہ ٹھیک تھا کیونکہ سرکاری رہائش اسکاسرکاری استحاق تھا۔مگررنگے سامی اپنے ذاتی کردارمیں ایک دیونماانسان ہے۔اس نے سرکاری رہائش گاہ ،سرکاری گاڑی اورمحافظ لینے سے انکارکردیا۔اسکاجواب بہت سادہ اورپرمغزتھا۔"پونڈے چری ایک غریب ریاست ہے۔ اس کے وسائل بہت کم ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں۔ اس غریب ریاست میں غریب آدمیوں کی طرح رہنا چاہتا ہوں۔ ان پربوجھ نہیں بنناچاہتا"۔
رنگے سامی موٹرسائیکل پرجب دفترپہنچتاہے تو درجنوں لوگ انتظارکررہے ہوتے ہیں۔ہرایک سے ملتا ہے۔کسی کی درخواست کواپنے سیکریٹری کے پاس نہیں بھیجتا۔ چارپانچ روپے کی بال پوائنٹ سے درخواستوں پر خود احکامات صادرکرتاہے۔بندوں کے ہجوم سے فارغ ہوکر سرکاری امورنپٹاناشروع کردیتاہے۔چاربجنے کاپتہ ہی نہیں چلتا۔اس کے بعد، گھرکی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی لوگ موجودہوتے ہیں۔معمولی سا کھانا کھاتا ہے۔لوگوں کے مسئلے سنتاہے اوراپنی بساط کے مطابق انھیں حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔شام سات بجے،پھراپنے دفترروانہ ہوجاتا ہے اوررات گئے تک کام کرتا رہتا ہے۔
میں کوئی کہانی یا افسانہ نہیں سنارہا۔یہ آج کی دنیااورآج کے جدیدزمانے میں موجودایک ایساسیاستدان ہے جسکی مثال کم ازکم برصغیر میں توبہت کم ملتی ہے۔پاکستان میں خوردبین لگاکربھی پچھلی چھ دہائیوں میں ایسامقتدرشخص نظر نہیں آتا۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے، دس بارہ برس ریاست میں مختلف محکموں کا وزیر رہا ہے۔اسکاکوئی بینک بیلنس نہیں ہے اوراس کی کوئی آف شور کمپنی بھی نہیں ہے۔ لوگوں کے دلوں پرحکومت کرتا ہے۔ ان کے ذہنوں کوپڑھتاہے اورعام آدمی کے مسائل سمجھ کران کی خدمت کرتاہے۔
اس سے پہلے،کہ اس"پایندہ قوم"کے سیاستدانوں کا ذکرکروں۔اس وزیراعلیٰ کے ڈرائنگ روم کامنظرپیش کرنا چاہتاہوں۔پلاسٹک کی چارپانچ کرسیاں اورصرف ایک تپائی۔پورے ڈرائنگ روم میں کوئی میزنہیں ہے۔بغل والے کمرے میں،سونے کاکمرہ ہے۔وہاں ایک بوسیدہ سا دیوان موجودہے۔کمرے میں کوئی الماری نہیں ہے۔ اس کے سارے کپڑے دیوان پربکھرے رہتے ہیں۔اس میں ایک چادربھی موجودہے۔رات کوچادرنکالتاہے اورکمرے میں بچھادیتاہے۔تیس سال سے زمین پربسترکے بغیر سو رہا ہے۔اس کی خواب گاہ میں کوئی چارپائی یابیڈنہیں ہے۔بال ترشوانے کے لیے،محلہ کے نائی کے پاس خودچلا جاتا ہے۔ سستی سی دکان پرجاکراپنے لیے کپڑے خریدنے لگتا ہے۔ اس کے پاس کوئی غیرملکی قیمتی قمیض،ٹائی یاسوٹ نہیں ہے۔ زیب تن کپڑوں کی قیمت بھی معمولی سی ہوتی ہے۔ دو چار سو روپے یا حد پانچ سوروپے۔
اس درویش وزیراعلیٰ نے پونڈے چری میں جوترقی کروائی ہے،وہ ہمارے تصورسے بھی باہرہے۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے پوری ریاست میں ہزاروں لوگ جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔سب سے پہلے رنگے سامی نے غریب لوگوں کوانتہائی سستے گھربناکردینے شروع کردیے۔آج پوری ریاست میں ایک بھی خاندان جھونپڑی میں نہیں رہتا۔ پونڈے چری میں بارش ہروقت ہوتی رہتی ہے۔اس نے لوگوں میں چھتریاں اوررین کوٹ(Rain Coat) بانٹنے شروع کردیے۔غریب آدمیوں میں مفت سائیکل تقسیم کرنے کی ٹھان لی۔ ریاست میں ایک امتحان شروع کیا، امتحان کانام CENTACہے۔
جوبھی طالبعلم امتحان پاس کرتاہے اورکسی پروفیشنل کالج میں پڑھنا چاہتا ہے، تو ریاست اس کے سارے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے شروع کردیتی ہے۔تعلیم کے متعلق کوئی اخباری مہم شروع کرکے اپنے کارنامے گنوانے کی کوشش نہیں کی۔ تمام اسکولوں میں کاپیاں اورکتابیں مفت مہیا کر ڈالیں۔ اسکول میں بچوں کوصبح گرم دودھ پلایاجاتاہے۔انھیں دوپہر کا کھانا مفت مہیاکیاجاتاہے۔ریاستی وسائل کوبروئے کار لاکررنگے سامی نے غریبوں میں گیس کے سلنڈر اور چولہے مہیاکیے تاکہ خواتین لکڑیاں جلاکرکھانانہ بنائیں۔ اس تدبیرسے جنگلات کے ذخیروں کومحفوظ کرڈالا۔محسوس کیاکہ لوگ عورتوں کوجائیدادمنتقل نہیں کرتے۔قانون بنا دیاکہ جومردبھی اپنی بیوی کوجائیدادمنتقل کریگا،اس پرحکومتی ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔رنگے سامی کاذہن بالکل مختلف طرح سے سوچتا ہے۔ محسوس ہواکہ کئی بیماریاں انسان کواس حالت میں لے آتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔
مہلک بیماریوں میں مبتلاساٹھ برس سے اوپرمرداورخواتین کی فہرست بنوائی۔ان کی معاشی صورتحال کے مطابق انکومفت گندم مہیاکرناشروع کردی۔ غریب آدمیوں کے لیے ریاستی سطح پرمفت دسترخوان شروع کروادیے۔ دستر خوانوں پرتین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔سروے کے مطابق ریاست میں غریب لوگوں کی تعدادکم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ لڑکے اورلڑکیوں کوتعلیم کے بعدنوکریاں ملنی شروع ہوچکی ہیں۔پوری ریاست کی قسمت بدل چکی ہے۔اب اسے کسی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہیں۔کانگریس چھوڑنے کے بعد،اس کی اپنی سیاسی جماعت ہے۔
اب تک وہ ایک بھی الیکشن میں ناکام نہیں ہوا۔لوگ اسے سے محبت نہیں کرتے بلکہ اس کے کام اورسادہ زندگی کی وجہ سے عشق کرتے ہیں۔ اسے ہرشخص مل سکتا ہے۔ مشہور ہے کہ اگراسے رکشہ یونین والے بھی حلف برداری کی تقریب میں بلائیں تو وہ بلاتامل چلاجائے گا۔پوری دنیامیں رنگے سامی کے طرز حکمرانی کوماڈل کے طورپرپیش کیا جاتا ہے اوربین الاقوامی اقتصادی اورفنی اداروں میں اس کی زندگی اور حکومت کونصاب کاحصہ بنادیاگیاہے۔
اب اس پایندہ ملک پرسنجیدہ نظرڈالیے۔رنگے سامی جیساحاکم توخیرخواب میں بھی سوچا نہیں جاسکتا۔ یہاں ساٹھ ستربرس سے حکمران رعونت،تکبراورجاہ وجلال سے حکومت کررہے ہیں۔اکثریت غیرملکی قیمتی ترین سوٹ پہنتے ہیں۔کروڑوں روپے کی سرکاری گاڑیوں اورجہاز استعمال کرتے ہیں۔سرکاری وسائل کمال بے رحمی سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اردگرد، سیکڑوں محافظوں کی درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔عام لوگ ان کی رعایا ہیں،صرف رعایا۔ جنھیں کبھی نعروں سے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی قصے کہانیوں اوربھول بھلیوں میں محوکردیتے ہیں۔
کھوکھلی باتیں،غیرموجود ترقی کے قیمتی فارمولوں سے قوم تقریباًجاں بلب ہوچکی ہے۔مگرانھیں حکومت کرنے کے لیے صرف اورصرف شناختی کارڈچاہیں جن سے ووٹوں کے ڈبے بھرے جاسکیں۔قوم زندہ رہے یانیم زندہ،کسی کوکوئی فکر نہیں۔ہرایک ڈگڈگی بجاکرتماشہ دکھا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ لوگ تماشے کوحقیقت سمجھ رہے ہیں۔اس بنجرزمین میں کبھی بھی کوئی رنگے سامی جیساآدمی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حکومت میں آناتوخیردورکی بات،وہ یہاں سانس تک نہیں لے سکتا!