شہید مطیع الرحمان نظامی

لیکن افسوس یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی اس ضمن میں بڑی بے حسی کا ثبوت دیا ہے۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی بھی1971ء میں پاکستان سے عہد وفا نبھانے کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ مطیع الرحمان نظامی کو حسینہ واجد حکومت کے بدنام زمانہ 'وار کرائم ٹریبیونل' نے1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی حمایت اور اس کے ساتھ عملی تعاون کرنے کے 'ناقابل معافی جرم' میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

قانون کا ادنیٰ طالب علم بھی یہ سمجھتا ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نے اگر1971ء میں پاکستان کی اس وقت کی آئینی اور قانونی حکومت کا ساتھ دیا تھا، تو ان کے اس حق پر دنیا کا کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی ضابطہ قدغن عائد نہیںکرتا تھا، بطور ایک محب الوطن شہری کے، یہ ان کی ذمے داری تھی۔ حسینہ واجد حکومت پر مگر خون سوار ہے اور وہ کسی آئینی، قانونی اور اخلاقی ضابطہ کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی اس ضمن میں بڑی بے حسی کا ثبوت دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس معاملہ میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں لی اور اس کو بنگلہ دیش کا 'اندرونی معاملہ' ہی سمجھا ہے جو درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب بنگلہ دیش معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور مشرقی پاکستان پر پاکستان کی قانونی عملداری قائم تھی۔

مطیع الرحمان نظامی کا سفر زندگی مارچ 1943ء میں مشرقی بنگال کے ضلع پبنہ کے گاؤں منمت پور سے شروع ہوتا ہے۔ پرائمری تعلیم قصبہ سانتھیہ کے دینی مدرسہ میں حاصل کی۔ پھر پبنہ ہی کے بڑے مدرسہ شعیب پور میں آگئے۔ یہاں سے ڈھاکا مدرسہ عالیہ میں داخلہ لے لیا۔ 1963ء میں مدرسہ عالیہ سے'کامل' کی سند لی۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم بھی جاری رکھی۔1962ء میں میٹرک اور 1964ء میں سٹی کالج ڈھاکا سے انٹر کرنے کے بعد1967ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ ابوالاعلیٰ مودودی کا نام پہلی بار انھوں نے اس وقت سنا، جب 1953ء میں ان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھانسی کی سزا پر مولانامودودی نے جس استقامت کا ثبوت دیا، اس نے مطیع الرحمان نظامی کو گہرے طور پر متاثر کیا۔

یہ وہ دور ہے جب مشرقی پاکستان میں جماعت اور جمعیت کی سرگرمیاں ابھی شروع ہوئی تھیں۔ قبل اس کے کہ یہ سرگرمیاں جڑ پکڑتیں ، مارشل لا کے تحت جماعت، جمیعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جونہی مارشل لا اٹھا اور جماعت، جمعیت کو اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت ملی، مطیع الرحمان نظامی جمعیت میں شامل ہو گئے۔ مسلسل تین سال مشرقی پاکستان کے ناظم رہنے کے بعد 1969ء میں اس کے ناظم اعلیٰ منتخب ہو گئے ۔

یہ وہ زمانہ ہے، جب مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہو چکا تھا، اور یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ کوئی معجزہ ہی پاکستان کو دولخت ہونے سے بچا سکتا ہے۔ الیکشن 1970ء میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی نمایندہ پارٹی بن کے ابھری تھی۔

مطیع الرحمان نظامی پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کی تھی۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ جب بھٹو کے ایما پر جنرل یحییٰ خان نے یکم مارچ 1971ء کو اسمبلی اجلاس ملتوی کر دیا، تو ڈھاکا میں اس پر پہلا احتجاجی جلسہ مطیع الرحمان نظامی کی زیرقیادت جمعیت نے کیا تھا۔ یہ جلسہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دن ڈیڑھ بجے ہوا، اور اس میں ڈھاکا اجلاس کے التوا کو سازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اقتدار بغیرکسی تاخیر کے عوامی لیگ کو منتقل کر دیا جائے۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ مطیع الرحمان نظامی پچھلے کئی سال سے مشرقی پاکستان کے سیاسی اتارچڑھاؤ کو دیکھ بھی رہے تھے۔ انکو معلوم تھا کہ اس مرحلہ پر اسمبلی اجلاس کا ملتوی ہونا خطرناک ثابت ہو گا۔


مطیع الرحمان نظامی کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ یکم مارچ کا اسمبلی اجلاس ملتوی ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی ڈھاکا میںہنگامے شروع ہو گئے۔ 2 مارچ کو سینٹرل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی دعوت پر شیخ مجیب الرحمان نے ایک احتجاجی جلسہ میں شرکت کی، جہاں ان کی موجودگی میں ہی سرزمین مشرقی پاکستان پر پہلی بار 'بنگلہ دیش' کا پرچم لہرایا گیا۔ بھارت کی پشت پناہی سے چند ہی دنوں میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

ان حالات میں 10 مارچ کو آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ڈھاکا میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مجلس شوریٰ اور عہدے داروں کا اجلاس طلب ہوا۔ تین ہی آپشنز تھے، پہلا یہ کہ عو امی لیگ کا ساتھ دیا جائے اور پاکستان کو ٹوٹنے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ غیر جانبدار رہا جائے۔ تیسرا یہ کہ متحدہ پاکستان کو بچانے کی کوشش کی جائے۔

مطیع الرحمان نظامی اور ان کے ساتھیوں نے آخری راستہ چُنا کہ ان کے پاس بطور ایک محب الوطن پاکستانی کے یہی راستہ تھا۔ یہی راستہ اس وقت آئینی اور قانونی بھی تھا کہ اس وقت مشرقی پاکستان پاکستان کا حصہ تھا، اور پوری دینا اس کی یہ آئینی اور قانونی حیثیت تسلیم کرتی تھی۔ مولانا مطیع الرحمان نظامی نے ایک بار کہا تھا کہ ان کے پیش نظر مولانا مودودی کا وہ مستقل حکم بھی تھا، جو انھوں نے ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں دیا تھا کہ 'پاکستان کا ہر مسلمان اس ملک کو جو اس برعظیم میں اسلام کا قلعہ ہے اور اس کی پوری زمین ہمارے لیے ایک مسجد کا درجہ رکھتی ہے، بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے۔' اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے اس فیصلہ کی روشنی میں ہی مئی 1971ء میں عوامی لیگ کی 'مکتی باہنی' کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی 'البدر' میدان میں اتری تھی۔ مکتی باہنی بھارتی فوج کی سرپرستی میں کام کر رہی تھی، جب کہ البدر پاکستانی فوج سے تعاون کر رہی تھی۔22 نومبر 1971ء کو بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی۔

3 دسمبر کو بھارت نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پر سیالکوٹ، چھمب، لاہور اور رحیم یار خان کے محاذ بھی کھول دیے۔ 16 دسمبرکو بھارتی فوج ڈھاکا میں داخل ہو گئی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ راتوں رات محب وطن، باغی اور باغی محب وطن قرار پا گئے۔ شیخ مجیب الرحمان نے آتے ہی جماعت اور جمعیت پر پابندی لگا دی اور ان کے جن روپوش رہنماؤںکو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کا حکم دیا، ان میں مطیع الرحمان نظامی بھی شامل تھے۔ بعد کو جب پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا، اور بنگلہ دیش جماعت اور جمعیت نے بھی اسکو تسلیم کر لیا، تو مطیع الرحمان نظامی نے نئے سرے سے اپنی سیاست آغاز کی۔ یہ انتہائی مشکل دور تھا۔ جماعت اور جمعیت کے کارکن تتر بتر ہو چکے تھے۔ لیکن یکدم حالات نے پلٹا کھایا۔ شیخ مجیب الرحمن خاندان سمیت بنگلہ دیشی فوج کے ہاتھوں قتل ہو گئے، اور جنرل ضیاالرحمن برسراقتدار آ گئے۔

جنرل ضیاالرحمان نے جماعت اور جمعیت پرسے پابندی اٹھا دی۔ مولانا غلام اعظم اور مطیع الرحمان نظامی کی زیر قیادت جماعت اور جمعیت نے بہت تھوڑے عرصہ میں بنگلہ دیش میں اپنی پوزیشن پھر سے مستحکم کر لی۔1991ء میں مطیع الرحمان نظامی اپنے آبائی حلقہ پبنہ 1 سے عوامی لیگ کے امیدوار کو ہرا کر رکن پارلیمنٹ منتخب ہو گئے۔2001 ء میں ان کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا امیر منتخب کر لیا گیا۔ اسی سال الیکشن میں انھوں نے عوامی لیگ کے امیدوار کو دوبارہ شکست دی اور رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

خالدہ ضیا حکومت میں مطیع الرحمان نظامی نے وزیر زراعت اور پھر وزیر صنعت کے طور پر خدمات انجام دیں۔ الیکشن2008ء میں وہ کامیاب نہ ہو سکے، لیکن اس کے باوجود 46% ووٹ حاصل کیے۔ مطیع الرحمان نظامی کا یہ غیر معمولی انتخابی پس منظر ثابت کرتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے سربراہ ہی نہیں،بنگلہ دیش کے عوامی رہ نما اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین بھی ہیں۔

مرنا تو ہر کسی کو ہے، لیکن مطیع الرحمان نظامی نے عدالت میں جس صبر واستقلال کے ساتھ سزائے موت کا حکم سنا اور حسینہ واجد سے رحم کی اپیل کرنے کے بجائے یہ کہہ کر کہ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے، تختہ دارپر چڑھ گئے، اس یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ آج بھی ان کو اپنے موقف کی صداقت پر ایمان کی حد تک یقین تھا، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ شاعر نے کہا تھا ،

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
Load Next Story