نئے جال لائے پرانے شکاری

جس کے نتیجے میں انھیں منہ کی کھانی پڑی اور بھارتی سینا کو چینی افواج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا


Shakeel Farooqi May 17, 2016
[email protected]

ہندوستان کے راشٹر پتا (بابائے قوم) گاندھی جی کے جانشین اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی سوانح حیات میں ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ ''جب تک تم کمزور ہو تب تک اپنے سے زیادہ طاقتور کے ساتھ مت الجھو'' لیکن 1962 میں چین پر چڑھائی کرکے انھوں نے اپنی اس نصیحت کو خود ہی فراموش کردیا۔

جس کے نتیجے میں انھیں منہ کی کھانی پڑی اور بھارتی سینا کو چینی افواج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پھر اس کے بعد سے آج تک بھارت کو اتنی ہمت و جرأت نہیں ہوئی کہ چین کے ساتھ 'پنگا' لے۔ چینیوں نے بھارتی حملہ آوروں کو ایسا سبق پڑھایا کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔ بھارت کی اس مذموم اور ناکام حرکت نے دنیا بھر میں اس کی امن پسندی اور صلح جوئی کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

اس کے بعد سے اب تک بھارت چین کے ساتھ انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے کیونکہ اسے نہ صرف ماضی کا سبق ابھی تک یاد ہے بلکہ اس حقیقت کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ اس کا شمالی پڑوسی اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ طاقتور ہوکر دنیا کی سپر پاورز کی فہرست میں داخل ہوچکا ہے۔ لہٰذا اب وہ چانکیہ نیتی پر عمل کرتے ہوئے مصلحت کوشی سے کام لے رہا ہے۔

ابھی گزشتہ دنوں بھارت نے اسی پالیسی کے تحت چین کے ساتھ عسکری سطح پر ایک سرحدی میٹنگ کی جس کا مقصد امن و سکون کو برقرار رکھنا تھا۔ اس ملاقات میں بھارت اور چین کے سینئر کمانڈرز نے شرکت کی۔ ادھر چین بھی یہ نہیں چاہتا کہ بھارت کے ساتھ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑکی جائے کیونکہ اس کی تمام تر توجہ معاشی اور اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے۔ چنانچہ اس طرح کی میٹنگوں کا انعقاد اب ایک معمول سا بن چکا ہے۔

کئی سال سے بھارت چین سرحد پرکوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوئی ہے حالانکہ اسی عرصے میں دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں بہت سے نشیب و فراز بھی آئے ہیں۔ دونوں جانب سے ہی احتیاط کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اور دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بہتر سے بہتر رابطہ کاری کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس سلسلے میں اروناچل پردیش کے شدتی بارڈر کا تذکرہ بھی قابل توجہ ہے جوکہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلاف بلکہ تنازع کا سبب ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے سیاسی اختلافات اس حد تک شدت اختیارکیے ہوئے ہیں کہ ہر آن ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔

ابھی حال ہی میں بھارت کی جانب سے ایک باغی کو بھارت میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کی اجازت دینے کے فیصلے سے ایک جھٹکا سا لگا تھا۔ بھارت کی اس حرکت سے چین چراغ پا ہوگیا تھا۔ خدشہ تھا کہ اس سے صورتحال بری طرح بھڑک اٹھ سکتی تھی لیکن دونوں جانب سے ضبط و تحمل کے مظاہرے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے ہیں اور کوئی میل دلوں میں باقی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایشیا میں اس وقت بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جن کے آنے والے دنوں میں بڑے گہرے اثرات اس خطے پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ چین حیران کن ترقی کے مراحل تیزی سے طے کرتا ہوا ایک عظیم سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے اور اسے اس خطے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔

چین کی اس قابل رشک ترقی سے بھارت نہ صرف بری طرح حسد میں مبتلا ہے بلکہ زیادہ خائف بھی ہے۔ اس کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح چین کا راستہ روک دے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ بھی کانٹا بن کر بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور اس منصوبے کو کسی نہ کسی طرح ناکام بنانے کے لیے بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

چین نے روایتی بیسک روٹ کو بحال کر کے تاریخ کو دہرا دیا ہے اور اس قدیم راستے کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا ہے۔ چونکہ ماضی بعید میں چین کے ساتھ تجارت کا یہ راستہ قدیم بھارت کی اجارہ داری تھی، اس لیے اب شاہراہ ریشم کے ذریعے پاک چین تجارت کے فروغ سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ بھارت کو یہ تجارت ہضم نہیں ہو رہی۔

1962 کی بھارت چین جنگ پاک چین تعلقات کے حوالے سے ایک غیر مستور ثابت ہوئی ہے۔ اس جنگ نے ایک جانب بھارت اور چین کے تعلقات کے درمیان ایک وسیع و عریض اور گہری خلیج حائل کردی ہے اور دوسری جانب پاکستان اور چین کے درمیان سدا بہار سچی دوستی کا ایک پل تعمیر کردیا ہے۔ یہ دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے اور ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔

ایک زمانہ تھا جب بحر ہند میں چین کی بڑی زبردست موجودگی ہوا کرتی تھی اور چینی بحریہ کو یہاں بڑا غلبہ حاصل تھا۔ ملکوں کے لیے دفاعی اعتبار سے سمندروں کی اہمیت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی چین کا سمندر آج متنازعہ حیثیت اختیار کرچکا ہے اور اس حوالے سے ایک قسم کی رسہ کشی جاری ہے۔ اگرچہ یہ بحری علاقہ بھارت سے اچھے خاصے فاصلے پر ہے لیکن یہاں چین کی بڑھتی ہوئی بحری موجودگی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور اس لیے وہ اس پر کڑی نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ امریکا کو بھی اس پر شدید تشویش لاحق ہے کیونکہ وہ بزعم خود پوری دنیا کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا کے اورکئی ممالک کو بھی اس منظر نامے سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں جاپان کا نام نمایاں طور پر لیا جاسکتا ہے۔

ٹٹی کی اوٹ میں شکار کھیلنا بھارتی قائدین کی پرانی عادت ہے۔ چنانچہ وہ اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ''موسم پروجیکٹ'' کی آڑ میں اپنی ڈپلومیسی کی چال چل رہے ہیں۔ بہ ظاہر ''موسم پروجیکٹ'' کا مقصد اس خطے کے ان ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا ہے جہاں سالانہ مانسون آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔