جنوبی افریقی کرکٹ میں نسلی امتیاز پھر سراٹھانے لگا

کرسٹن کے کوچ بننے کے بعد کوئی بھی سیاہ فام سفید ٹیسٹ یونیفارم نہیں پہن پایا۔


Sports Desk November 19, 2012
بائوچر کا نعم البدل قرار پانے والے تھامی سولیکل تاثر کو زائل کرنے کے لیے کوشاں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

جنوبی افریقی کرکٹ میں نسلی امتیاز کے الزامات پھر سر اٹھانے لگے۔

گیری کرسٹن کے کوچ بننے کے بعد کسی بھی سیاہ فام پلیئر نے سفید ٹیسٹ یونیفارم نہیں پہنی، مارک بائوچر کا نعم البدل قرار پانے کے باوجود تھامی سولیکل وکٹ کیپنگ گلوز پہننے کو ترس رہے مگر موقع نہ مل پانے کی وجہ رنگ و نسل کو قرار نہیں دیتے۔ تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ کرکٹ کافی عرصے تک نسلی امتیاز کے الزامات کی زد میں رہی مگر کچھ عرصے سے یہ سلسلہ رکا ہوا تھا مگر گذشتہ دنوں سابق فاسٹ بولر مکھایا این تینی نے ایک بار پھر یہ آگ بھڑکا دی ہے۔

این تینی واحد سیاہ فام کرکٹر تھے جنھوں نے 1991 میں جنوبی افریقی کرکٹ کے دوبارہ آغاز کے بعد مسلسل انٹرنیشنل لیول پر پروٹیز کی نمائندگی کی، وہ جنوبی افریقہ کی جانب سے انٹرنیشنل سطح پر کسی بھی فارمیٹ میں کرکٹ کھیلنے والے ساتویں سیاہ فام کھلاڑی تھے، نومبر 2010 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد صرف ایک سیاہ فام کھلاڑی لونوابو ٹسوبے کو پانچ روزہ میچز کھیلنے کا موقع ملا مگر وہ بھی صرف 5 ٹیسٹ تک محدود رہے۔ جب سے گیری کرسٹن کوچ بنے ہیں کسی بھی سیاہ فام کھلاڑی کو ٹیسٹ کی سفید یونیفارم پہننا نصیب نہیں ہوئی ہے۔

ڈومیسٹک سرکل میں اچھا پرفارم کرنے والے تھامی ٹسولیکل کو ٹیسٹ وکٹ کیپر کیلیے موزوں اور مارک بائوچر کا جانشین قرار دیا جارہا تھا مگر بائوچر کے آنکھ ضائع ہونے کی وجہ سے کرکٹ سے دور ہونے کے باوجود تھامی کو موقع نہیں ملا کیونکہ محدود اوورز کے کپتان ابراہم ڈی ویلیئرز نے ٹیسٹ میں بھی خود ہی وکٹ کیپنگ گلوز سنبھال لیے اور وہ کمر میں تکلیف اور اپنی بیٹنگ پر شدید اثرات کے باوجود یہ گلوز اتارنے کو تیار نہیں ہیں جس سے تھامی کا سینئر فارمیٹ میں واپسی کا انتظار طول پکڑتا جارہا ہے، انھوں نے اس سے قبل 2004 میں تین ٹیسٹ میچز کھیلے تھے۔

مکھایا این تینی نے الزام لگایا تھا کہ اگر تھامی سفید فام ہوتا تو اب تک ٹیسٹ الیون کا حصہ ہوتا جبکہ انھوں پورے اسکواڈ میں صرف ایک سیاہ فام پلیئر کی موجودگی پر بھی شدید تنقید کی تھی تاہم تھامی ان سے متفق نہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ اسکواڈ میں ہونے کے باوجود میرے فیلڈ میں نہ اترپانے کی وجہ کوئی نسلی امتیاز نہیں میری گیری کرسٹن سے اس بات پر کافی بات ہوچکی اور میں ان سے پوری طرح مطمئن ہوںمجھے موقع ملنے کا پورا یقین مگر اس میں ایک ہفتہ یا پھر ایک سال لگ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔